فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی پالیسیاں نسل پرستی کے مترادف ہیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل
اسرائیلی ریاست نے فلسطینی آبادی کے حوالے سے ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے جو یہودی آبادی کے مفاد میں ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنل
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل کے مقبوضہ اور اسرائیلی علاقوں میں فلسطینیوں کے حوالے سے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنا رکھی ہیں جو نسل پرستی یعنی اپارتھائیڈ کے مترادف ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست فلسطینی آبادی کے حوالے سے دھونس اور غلبے کی ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جو یہودی آبادی کے مفاد میں ہے۔
عالمی قوانین کے تحت نسل پرستی یا اپارتھائیڈ کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے۔
اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔
اسرائیلی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بے بنیاد الزامات ایسے ادارے کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں جس کی اسرائیل سے نفرت سب پر واضح ہے۔
اسرائیلی ترجمان نے کہا یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جس زبان کا استعمال کیا گیا ہے اس کا واضح مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو ابھارنا ہے۔
اپارتھائیڈ سے مراد سے نسلی امتیاز کی ایسی پالیسی ہے جسے ریاست کی حمایت ہو۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت نے نسلی امتیاز کی پالیسی کو اپنائے رکھا تھا جو 1948 سے 1991 تک جاری رہی۔
اسرائیل میں عرب آبادی
اسرائیل کی کل چورانے لاکھ آبادی میں 20 فیصد آبادی عربوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چوبیس لاکھ فلسطینی غرب اردن اور مشرقی یوروشلم میں بستے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے علاوہ انیس لاکھ فلسطینی غزہ کی پٹی میں رہتے ہیں جہاں سے اسرائیل 2005 سے نکل گیا تھا۔ اقوام متحدہ اب بھی غزہ کی پٹی کو مقبوضہ علاقہ تصور کرتا ہے۔
فلسطینیوں کی بڑی تعداد غرب اردن کے علاقے میں رہائش پذیر ہے جہاں کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے جبکہ غزہ کا انتظام عسکریت پسند تنظیم حماس کے پاس ہے۔
غرب اردن اور مشرقی یوروشلم میں قائم کی جانے والی 140 بستیوں میں چھ لاکھ یہودی بستے ہیں۔عالمی برادری کی اکثریت ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی تصور کرتی ہے۔ اسرائیل عالمی برادری کی رائے کو تسلیم نہیں کرتا۔
سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب و نسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے ۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینوں کے ساتھ ’کم تر غیر یہودی نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل قوانین، پالیسوں اور ضوابط کے ذریعے نسلی علیحدگی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی لوگوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔
ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تیار کر رکھا ہے جو ایسے فلسطینی مہاجرین کی راہ میں رکاوٹ ہے جو اسرائیل کے باہر بستے ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 1948-49 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے بے گھر ہونے والے فلسطینی اور ان کی آل اولاد کی تعداد 53 لاکھ ہے جو واپس اپنے سابقہ گھروں میں جانے کا حق جتاتے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ کہ اگر ایسا کیا گیا تو وہ آبادی کے لحاظ سے مغلوب ہو جائے گا اور یہودی ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور ان کے ساتھ نسل یا مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں
ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فلسطینی آبادی کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی اسرائیلی پالیسیی میں جبر بنیادی عنصر ہے جبکہ اس پالیسی کے دوسرے اجزا میں فلسطینوں کو شہریت اور سکونت کا حق دینے سے انکار، نقل و حرکت کی آزادی پر قدغنیں اور وسائل تک رسائی کو روکنا شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس نے اسرائیل کے فلسطینوں کے خلاف ایسے غیر انسانی اقدامات جن میں حراست، تشدد، غیر قانونی ہلاکتیں، شدید ضربات اور بنیادی آزادیوں پر قدغنوں کی شہادتیں جمع کی ہیں جن کا مقصد ایسے نظام کو برقرار رکھنا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل پرستی (اپارٹھائیڈ) کے مترادف ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل مسز ایگنس کالامارڈ نے عالمی ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دسیویوں لاکھ لوگوں کے خلاف نسل پرستانہ جبر پر مبنی اس نظام کا کوئی جواز نہیں ہے۔
عالمی برادری کو اسرائیل کی اپارتھائیڈ کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے حصول کے راستے ڈھونڈنے چاہیئں جو ابھی تک تلاش نہیں گئے ہیں۔
Comments are closed.