- مصنف, پال براؤن اورڈینیئل پالمبو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
جمعہ کی صبح سویرے ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے بعد گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کی جو سیٹلائٹ تصویریں جاری کی گئی ہیں ان میں ایرانی فضائی اڈے کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کے شواہد سامنے آئے ہیں۔بی بی سی ویریفائی نے دو سیٹیلائٹ کی جاری کردہ تصاویر کا تجزیہ کیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اصفہان کے ایک ہوائی اڈے پر فضائی دفاعی نظام کے ایک حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اسرائیل نے ایران پر میزائل حملہ کیا ہے حالانکہ سرکاری طور پر تاحال میزائل حملوں کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔حالیہ ہفتوں میں ان دیرینہ حریفوں کے درمیان کشیدگی میں شدت آئی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ بہت عرصے سے جاری ہے تاہم اس کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب رواں ماہ کے شروع میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک میزائل حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سات اراکین سمیت 13 افراد مارے گئے۔اسرائیل نے اس حملے کی باضابطہ ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن خیال یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔ایران کے جوہری پروگرام کا گڑھ سمجھے جانے تاریخی شہر اصفہان میں جمعے کو اسرائیلی حملے کی خبر سامنے آنے کے بعد سے ممکنہ اہداف اور نقصان کی قیاس آرائیاں سامنےآ رہی ہیں۔ایران کا کہنا ہے کہ اس حملے میں چھوٹے ڈروز ن شامل تھے جنھیں ایئر ڈیفینس نے ناکارہ بنا دیا تھا۔اگرچہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ حملے میں کون سے ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا تاہم سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں فضائی اڈے پر ہونے والے نقصانات کے شواہد کا پتہ چل سکتا ہے۔بی بی سی ویریفائی نے آپٹیکل اور سینتھیٹک اپرچر ریڈار(ایس اے آر) سے اصفہان کی حاصل کی گئی سیٹلائٹ تصویروں کا تجزیہ کیا ہے۔آپٹیکل امیجری سے تقریباً ہر وہ شخص واقف ہے جو باقاعدگی سے گوگل ارتھ جیسے ٹولز کا استعمال کرتا ہے اور اس سے بنیادی طور پر نیچے زمین کی تصویر لی جاتی ہیں۔ایس اے آر ٹیکنالوجی دراصل ریڈیائی لہروں(ریڈیو ویو) کا استعمال کر کے زمین کی سطح کی تصویر بناتی ہے۔ روایتی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ایس اے آر کا ایک بڑا فیچراس کی رات کے وقت یا بادلوں میں سے تصاویر لینے کی صلاحیت ہے۔اس ٹیکنالوجی سے حاصل کی گئی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ میں ہونے کے باوجود بہترین ریزولیوشن میں ہیں۔یہ زمین پرجلنے یا آگ لگنے کے نشانات تو واضح نہیں کر سکتا تاہم انفرا سٹکچر اور گاڑیوں وغیرہ کو ہونے والے نقصان کو بخوبی ظاہر کرتا ہے۔15 اپریل کو امبرا سپیس کے ذریعے حاصل کی گئی ایسی ہی ایک تصویر میں اصفہان میں واقع ایرانی فضائیہ کے شکاری نامی فضائی اڈے کے شمال مغربی کونے میں ایک ایس 300 دفاعی نظام موجود دیکھا جا سکتا ہے۔یہ اس جگہ پر کئی گاڑیاں ریڈار، مخصوص میزائیل لانچرز اور دیگر آلات سے لیس موجود ہیں۔جمعہ کے حملوں کے بعد حاصل کی گئی امبرا سپیس کی تصویر میں ایک جگہ، جہاں غالباً ریڈار نصب تھا، نقصان کے نشانات اور ملبے کو دیکھا جا سکتا ہے اور اب اس دفاعی نظام کی پوزیشن بھی قدرے بدلی ہوئی ہے۔دیگر گاڑیوں کو جائے وقوعہ سے ہٹا دیا گیا ہے۔اس تجزیہ کی تصدیق خلا سے لی گئی ایک آپٹیکل سیٹلائٹ تصویر سے ہوئی جو کم ریزولیوشن کے باوجود اسی جگہ پر جلنے کے نشان کو واضح کر رہی ہے۔11 اور 15 اپریل کو لی گئی تصاویر میں یہ نشان واضح نہیں تھا۔ دستیاب تصویروں میں فوجی اڈے کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تاہم حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے بہترین ریزولیوشن والی آپٹیکل تصاویر کے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔ابھی تک اصفہان کی جوہری تنصیبات کی کوئی تصویر دستیاب نہیں تاہم اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے کہا ہے کہ ’ایران کے جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.