ایکسپلینر: تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کے ایک برس بعد اسرائیل اور مراکش کے رابطوں میں مزید بہتری
ایک سال قبل اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کر کے یہ خبر دی تھی کہ مراکش اور اسرائیل تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
اس اعلان کے بعد اور دسمبر سنہ 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط کے بعد، دونوں ممالک نے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں، جن میں معاہدوں پر دستخط، دوروں کا تبادلہ، اور براہ راست پروازوں کا آغاز کرنا سامل ہیں۔
یہ پیش رفت مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریتا کے اس نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے کہ مراکش کے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات میں اب ‘صرف آسمان ہی حد ہے’ (یعنی اب یہ بہت زیادہ بڑھیں گے)۔
پورے سال کے دوران مراکش کے سرکاری میڈیا اور جو ان کے حلقہِ اثر میں ہیں نے یا تو معاہدے پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے یا اہم متعلقہ واقعات کی پیش رفت پر خاموش قسم کی کوریج فراہم کرتے ہوئے شامل ہوئے۔
اس کے برعکس، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے سرکاری اقدام سے ملک کے اندر عدم اطمینان کو آزاد ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ میں نمایاں جگہ ملتی رہی۔
ادھر اسرائیلی میڈیا کی اکثریت میں اس معاہدے کو اچھی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہودی خاندانوں کے پرانے تعلقات
اسرائیل اور مراکش نے سنہ 1993 میں تعلقات استوار کیے تھے لیکن مراکش نے سنہ 2000 میں دوسرے فلسطینی انتفادہ یا بغاوت کے بعد تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
برسوں اکثریتی مسلم ملک کی یہودی کمیونٹی نے اسرائیل میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان نجی سطح پر آمد و رفت عام بات تھی، لیکن تعلقات کے معمول پر آنے تک سرکاری دورے نہیں ہوئے تھے۔
اسرائیل میں نجی چینل 14 کے مطابق، مراکش میں تقریباً 4,000 افراد پر مشتمل یہودی کمیونٹی آباد ہے، جو کہ کسی بھی عرب ملک میں سب سے بڑی ہے۔
چینل 14 نے نوٹ کیا کہ مراکش کے تقریباً 95 فیصد یہودی کاسابلانکا میں رہتے ہیں، جبکہ دیگر ملک کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں۔
اعلیٰ سطح کے دورے
اسرائیل کے وزیر دفاع کا مراکش کا دورہ مملکت کا اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔ دسمبر سنہ 2020 میں نارملائزیشن ڈیل (تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کے معاہدے) کے ایک حصے کے طور پر امریکہ نے متنازع مغربی صحارا علاقے پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔
اس کے بعد کئی سینیئر اسرائیلی حکام نے بھی مراکش کا دورہ کیا ہے۔
حال ہی میں، اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے نومبر میں شمالی افریقی ملک کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اپنے مراکش کے ہم منصب کے ساتھ دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اگست میں، وزیر خارجہ یائر لاپِیڈ نے ملک کے اپنے پہلے سرکاری دورے کے دوران ایک رابطہ دفتر کا افتتاح کیا ہے۔ لاپیڈ کے دورے کا مقصد تعلقات کو مکمل سفارتی تعلقات میں بہتری کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنا تھا۔
جون میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ایلون اشپیز نے مراکش کا دورہ کیا۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ان کے دورے نے سائبر سیکیورٹی سے متعلق ایک معاہدے کے لیے ‘بنیاد رکھی’ جو بعد میں دستخط کیے گئے۔
اکتوبر 2021 میں، مراکش کے میڈیا نے مراکش میں اسرائیل کے سفارتی مشن کے سربراہ کے اس اعلان کو اجاگر کیا کہ انہیں باضابطہ طور پر مملکت میں اپنے ملک کا سفیر مقرر کیا گیا ہے اور دونوں ریاستوں کو ’بہن بھائی‘ قرار دیا ہے۔
ڈیوڈ گوورین نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر عربی زبان میں یہ اعلان کیا۔
گوورین مراکش میں زندگی کے پہلوؤں کو دکھانے والی تصویریں ٹویٹر پر پوسٹ کرتے رہے۔
فوجی معاہدے
فوجی تعاون ایک اہم شعبہ رہا ہے جہاں دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مستحکم کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، مراکش اور اسرائیل کے درمیان نومبر میں طے پانے والے دفاعی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر انٹیلی جنس شیئرنگ، ہتھیاروں کے سودے اور مراکش اور اسرائیلی افواج کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں ہوں گی۔
30 نومبر کو، اسرائیلی اخبار ہارِٹز نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) کو مراکش کے ساتھ ایک معاہدے میں دو کروڑ بیس لاکھ ڈالر ملے ہیں، اور تجویز کیا کہ اس میں کامیکاز ڈرونز کی فروخت بھی شامل ہے، جو اپنے نشانے پر ٹکرا کر پھٹ جاتے ہیں۔
اسی مہینے کے شروع میں مراکش کی شاہی آرمڈ فورسز نے اسرائیل کے اینٹی ڈرون سسٹم ‘اسکائی لاک ڈوم’ کی خریداری کا اعلان کیا تاکہ مراکش کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں مدد ملے۔
نومبر میں بھی پین عرب میڈیا اداروں نے اسپین کے میڈیا کی رپورٹ کی کوریج کے لیے کافی وقت صرف کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مراکش اور اسرائیل اسپین کے شمالی افریقی میں میلیلا نامی جگہ کے قریب ایک مشترکہ فوجی اڈہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
براہ راست پروازیں
سنہ 2020 کے معاہدے کے اعلان کے چند دن بعد اسرائیل سے پہلی براہ راست پرواز بن گوریون ائیر پورٹ سے رباط سیل ائیرپورٹ تک ایک مشترکہ اسرائیلی-امریکی وفد لے کر پہنچی۔
امریکی وفد کی سربراہی اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر کر رہے تھے اور اسرائیلی ٹیم کی سربراہی اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر میئر بن شبات کر رہے تھے۔
جولائی سنہ 2021 میں اسرائیل اور مراکش کے درمیان پہلی سیاحتی پرواز کا آغاز ہوا تھا۔ ‘اسرائیر’ کا مسافر طیارہ تل ابیب کے بن گوریون ائیرپورٹ سے روانہ ہوا جس میں مراکیش جانے کے لیے تقریباً 100 مسافر سوار تھے۔
میڈیا کی مزاحمت کمزور ہو رہی ہے
پورے سال کے دوران، مراکش میں ریاستی اور حکومت کے حامی میڈیا نے زیادہ تر اسرائیل کے حوالے سے سرکاری لائن کی پیروی کی ہے۔
چونکہ مراکش کے عوام کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے قائل کرنا اس لایل کو کرنے سے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے میڈیا نے اس سلسلے میں متعدد مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ بعض صورتوں میں میڈیا اداروں نے اہم واقعات کو نچلی سطح کی کوریج دی – جیسے کہ سینئر اسرائیلی حکام کے مراکش کے دورے۔
ریاستی میڈیا بھی مراکش میں فلسطینیوں کے لیے عوامی ہمدردی سے محتاط رہا ہے۔ مئی میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونریز کشیدگی کے دوران مراکش کے سرکاری میڈیا نے ابتدائی طور پر یروشلم میں بدامنی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے فلسطینیوں کے علاقے پر اسرائیلی حملوں کے لیے صرف محدود ایئر ٹائم وقف کیا۔
اس کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں کو ہنگامی انسانی امداد بھیجنے کے لیے مراکش کے بادشاہ، شاہ محمد ششم کی ہدایات کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے مضبوط اظہار کی طرف پالیسی میں واضح تبدیلی آئی۔
لیکن سرکاری میڈیا میں اسرائیل اور مراکش کے معاہدے کا کوئی تجزیہ نہیں پیش کیا گیا۔
اسرائیل کی جانب سے میڈیا کے اداروں کی اکثریت – ان کی وابستگیوں اور ادارتی خطوط سے قطع نظر – نے معاہدے کو مثبت کوریج دی ہے۔
معاہدے کے اعلان کے چند دن بعد نجی ملکیت والے انگریزی زبان کے اسرائیلی روزنامہ یروشلم پوسٹ اور مراکش کے’لا آبزرویچور ڈو موروک’ (L’Observateur du Maroc)، جو کہ اسرائیل اور مراکش کے دو اہم ترین میڈیا ادارے ہیں، نے ایک نئی سٹریٹجک شراکت داری کے قیام کا اعلان کیا۔
ڈیل سے عدم اطمینان
مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی آن لائن فیس بک پر زدمت دیکھی گئی ہے۔
مراکش میں اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر عوامی سطح پر ناراضگی کا کافی زیادہ اظہار کیا گیا ہے۔
یہ آزاد میڈیا اداروں کی کوریج میں نمایاں ہے – جس کی ایک اہم مثال نجی ملکیت والی ‘لیکومی’ Lakome نیوز ویب سائٹ ہے۔
اسرائیل-غزہ کے درمیان تصادم کے دوران لیکومی ویب سائٹ نے اسرائیل پر سخت تنقید کی – صلاح الدین خروائی کے لکھے گئے ایک مضمون میں – ایک بیان جس میں مراکش کی وزارت خارجہ نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی افواج کی ‘یلغار’ پر اپنی ‘گہری تشویش’ کا اظہار کیا۔
مضمون میں کہا گیا تھا کہ مراکش کا مؤقف یروشلم میں اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے خلاف ورزیوں اور جبری بے دخلی کو مسترد کرنے اور مقتول اور جلاد کے درمیان ‘بات چیت’ کے مطالبے میں نرمی لانے کے مترادف ہے۔
ویب سائٹ اکثر مراکش میں فلسطینی حامی گروپوں کی تنقید اور ناراض ردعمل کو بھی نمایاں طور پر پیش کرتی ہے۔
اس نے اس معاہدے پر تنقید کرنے والے متعدد مضامین بھی شائع کیے ہیں: ایک 6 دسمبر کو ابراہیم ابرش کے شائع ہونے والے مقالے میں یہودی ریاست کے ساتھ سیکیورٹی اور فوجی معاہدوں پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
Comments are closed.