اسرائیل اور حماس کے درمیان ’عارضی جنگ بندی‘ کے روشن امکانات لیکن جنگ بندی کے بعد کیا ہو گا؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, احمد الخطیب
  • عہدہ, بی بی سی عربی

اسرائیل اور حماس کے درمیان قطر کی ثالثی کی کوششوں نے گزشتہ چند دنوں میں زور پکڑا ہے اور کچھ مبصرین کے مطابق ان کوششوں کی مدد سے اس بات کا امکان روشن ہوا ہے کہ جلد ہی، شاید رواں ہفتے کے دوران، عارضی جنگ بندی ممکن ہو سکے۔

امید کی جا رہی ہے کہ قطر کی کوششوں سے لڑائی میں وقفہ ہو سکے گا جس کے دوران حماس اسرائیلی یرغمالیوں جبکہ اسرائیل چند فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے گا۔

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم ڈیل کے قریب ہیں‘ جبکہ امریکہ میں اسرائیلی سفیر، مائیکل ہرزوگ نے کہا ہے کہ ’اسرائیل اگلے چند دنوں میں حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک بڑی تعداد کو آزاد کرنے کی امید رکھتا ہے۔‘

قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان مجید الانصاری نے کہا ہے کہ ’ہم معاہدے کے بہت قریب ہیں اور مزاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔‘

تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اب تک کسی قسم کے ایسے معاہدے پر باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ حماس کے سربراہ کا بیان منظر عام پر آنے سے قبل نتن یاہو نے کہا تھا کہ ’ہم یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ ترک نہیں کریں گے۔‘

لیکن امریکی حکام کی جانب سے بھی ایک معاہدے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نیشنل سکیورٹی ترجمان جان کربی نے گزشتہ رات صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ ہم ماضی کے مقابلے میں اس بار زیادہ قریب پہنچ چکے ہیں۔‘

امریکی نیٹ ورک اے بی سی کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ مزاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ جنگ بندی مختصر مدت کے لیے ہو گی جو پانچ دن تک ہو سکتی ہے۔

اگر یہ کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو 7 اکتوبر کی صبح جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ پہلی باقاعدہ جنگ بندی ہو گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہEPA

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے برسلز میں رائل ملٹری اکیڈمی کے وزیٹنگ پروفیسر سید غونیم نے کہا کہ ’امریکہ، یورپ، قطر، مصر، اسرائیل اور دیگر ممالک کے ان بہت سے اقدامات کا مطلب ہے کہ ہم ثالثی کے راستے پر گامزن ہیں۔‘

غونیم نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے متوقع معاہدے پر بات چیت کے لیے اسرائیلی جنرل سکیورٹی سروس (شن بیٹ) کے سربراہ کے مصر کے حالیہ دورے کا بھی حوالہ دیا۔

جنگ بندی کے بعد کیا ہوگا؟

امریکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حماس کے زیر حراست 240 یرغمالیوں میں سے تقریباً 50 یرغمالی بالخصوص خواتین اور بچے اسرائیل واپس آ سکتے ہیں تاہم ان رپورٹس میں اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی تعداد کی نشاندہی نہیں کی گئی جنھیں بدلے میں رہا کیا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ ریڈیو کے مطابق، واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر نے لڑائی میں وفقے کو جنگ بندی کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے اہداف پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا منصوبہ بنا رکھتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ’ہمارا مقصد جنگ کو عارضی طور پر روکنا نہیں، بلکہ مقصد اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہوگا۔‘

بائیڈن نے جنگ بندی سے آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ’دو ریاستی حل ہی اسرائیلی اور فلسطینی عوام دونوں کے لیے طویل المدتی سلامتی کی ضمانت دینے کا واحد راستہ ہے۔۔۔ موجودہ بحران نے اس حل کو ناگزیر بنا دیا ہے۔‘

بائیڈن کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایرون ڈیوڈ ملر، جو کہ امریکی محکمہ خارجہ کے سابق مشیر اور فلسطین اسرائیل تنازعے کے ماہر ہیں، نے کہا کہ ’اگر یہ خون جو اس جنگ میں بہایا گیا، کسی چیز کی نشاندہی کرتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی ایک ساتھ پرامن طریقے سے نہیں رہ سکتے۔‘

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

ملر نے X پلیٹ فارم (سابقہ ٹویٹر) کے ذریعے کہا کہ ’اس مسئلے کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان علیحدگی پر بات چیت کی جائے، جس کا حصول انتہائی مشکل ہوگا۔‘

یہ بھی پڑھیے

جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہو گا؟

برطانوی میگزین دی اکانومسٹ کے مطابق ’غزہ تقریباً دو دہائیوں تک ایک حل طلب مسئلہ رہا، یہاں تک کہ 7 اکتوبر کی صبح جنگ شروع ہو گئی، جس نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔‘

تاہم، دوسرے لوگ اس غزہ کی جنگ کو ایک بار اور ہمیشہ کے لیے تنازعہ کو حل کرنے کے راستے اور موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سانحے کو ایک موقع میں تبدیل کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔

گوتریس نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اس کے ممکن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جنگ کے بعد ہم دو ریاستی حل کی راہ پر مضبوطی سے قدم بڑھائیں۔‘

دی اکانومسٹ کے مطابق امریکہ کو امید ہے کہ موجودہ جنگ کے خاتمے کے بعد عرب ممالک غزہ میں ایک امن فوج کا حصہ بنیں گے۔ اس تجویز کو متعدد اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ کہ عرب دنیا کے ممالک اس تجویز کا خیر مقدم کریں گے یا نہیں۔

اس حوالے سے اردن کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کے روز ایک ڈائیلاگ فورم میں کہا تھا کہ ’کوئی عرب افواج غزہ کی پٹی میں داخل نہیں ہوں گی۔۔۔ ہمیں دشمن کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔‘

دی اکانومسٹ کا خیال ہے کہ عربوں کا یہ موقف قابل فہم ہے کیوں کہ وہ اسرائیل کے اقدامات کے نتائج کو برداشت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی وہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضہ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ