فلسطین، اسرائیل تنازع: اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر نافذالعمل، فریقین کے فتح کے دعوے
اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے مابین سیز فائر نافذالعمل ہو چکا ہے۔
سیز فائر کا آغاز جمعہ کو علی الصبح ہوا تھا۔ 11 روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں مجموعی طور پر خواتین اور بچوں سمیت 240 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، بیشتر ہلاکتیں غزہ میں ہوئی ہیں۔
سیز فائر نافذالعمل ہوتے ہی فلسطینیوں نے غزہ کی سڑکوں پر آ کر ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے ہیں۔
اسرائیل اور حماس دونوں نے اس تنازع میں اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’جنگ بندی ترقی کے لیے حقیقی موقع’ فراہم کرے گی۔
سیز فائر کے اعلان سے قبل اور لڑائی کے آخری روز یعنی جمعرات کو اسرائیل نے غزہ کے شمال میں سو سے زائد فضائی حملے کیے تھے جس کے جواب میں حماس کی جانب سے بھی راکٹ فائر کیے گئے۔
اسرائیل اور حماس میں کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے 10 مئی کو باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہوا تھا۔ یہ کشیدگی مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کرنے کے کوششوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔
لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب سے درجنوں فضائی حملے کیے گئے جبکہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے
حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے مطابق اس لڑائی میں غزہ میں کم از کم 232 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 100 سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 150 عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ حماس نے اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔
اسرائیلی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں میں دو بچوں سمیت 12 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس دس روزہ لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب چار ہزار کے لگ بھگ راکٹ فائر کیے گئے۔
فریقین کے دعوے
اسرائیلی پولیٹیکل سیکیورٹی کابینہ نے کہا ہے کہ ’اسرائیل نے جنگ بندی کی سفارش کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔‘
حماس کے ایک رہنما نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے سیزفائر کا اعلان فلسطینی عوام کی ’فتح‘ کے مترادف ہے اور یہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی شکست کا غماز ہے۔
جمعہ کی صبح دو بجے سے سیزفائر شروع ہونے کے فورا بعد ہی فلسطینیوں کی بڑی تعداد جشن منانے کے لیے گاڑیوں میں اور پیدل غزہ کی سڑکوں پر نکلی۔
مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے مزاحمت کی فتح کا اعلان کیا۔
لیکن حماس کونسل کے بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ باسم نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ آیا یہ جنگ بندی جاری رہ بھی پائے گی یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’فلسطینیوں کے لیے انصاف کے حصول کے بغیر، بیت المقدس میں ہمارے عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور اسرائیلی مظالم بند کیے بغیر جنگ بندی خدشات کا شکار رہے گی۔‘
تجزیہ، جیریمی باؤون، مشرقِ وسطی ایڈیٹر
حماس کے سنہ 2007 میں غزہ کا انتظام سنبھالنے کے بعد سے ایسے تنازعات کے اختتام پر دونوں ہی اطراف سے فتح کا اعلان کیا جاتا ہے۔
حماس کے ایک سینیئر رہنما نے غزہ سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ‘شیخ جراح اور مسجد الاقصیٰ سے اپنا ہاتھ اٹھانے’ کا وعدہ کیا ہے۔ وہ مذہب اسلام کی مقدس ترین تاریخی مسجد کا ذکر کر رہے تھے اور یروشلم کے ایک ایسے ضلع کا ذکر بھی کر رہے تھے جو فلسطینی خاندانوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالنے کے باعث اس تنازع اور بعد میں پرتشدد کارروائیوں کی وجہ بنا۔
اسرائیل نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی ہے۔ ملک کے وزیرِ دفاع بینی گینٹّز نے ایک اعلامیے جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 11 روز کے دوران اسرائیل ایسی فوجی کامیابیاں دکھا سکتا ہے جو ‘غزہ میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد میں دفاعی اہمیت کے اعتبار سے مثالی ہیں۔’
تاہم دونوں اطراف پر میزائلوں اور دھماکوں کے باعث متاثر ہونے والے افراد یا ان کے باعث ہلاک ہونے والوں کے خاندان فتح کا اعلان نہیں کر رہے ہیں۔ اس تنازع کے باعث سب سے زیادہ اموات اور زخمی افراد غزہ کے فلسطینی ہیں اور وہاں املاک کی مد میں کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
اس دوران گذشتہ کئی سالوں کے دوران ایک بدترین مثال یہ قائم کی جاتی رہی ہے کہ سیزفائز کے اطلاق سے ایک گھنٹے پہلے دونوں اطراف سے شدید بمباری یا راکٹ فائر کیے جاتے ہیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے ہم نے آخر گولی چلائی۔
دونوں اطراف سے فتح کے بیانیے بھی ابھی سے بنے جانے لگے ہیں۔
یہ اسرائیل اور حماس کے درمیان چوتھی بڑی لڑائی ہے، سب سے پہلی مرتبہ دونوں سنہ 2008 میں آمنے سامنے آئے تھے اور ان تمام لڑائیوں کے بعد اور چھوٹی جھڑپیں جو اس دوران کی گئیں دونوں ہی اطراف سے فتح کا اعلان کیا جاتا رہا ہے اور پھر اس سے اگلے تنازع کے بیج بھی بو دیے جاتے ہیں۔ ایک بات جو میں آپ کو وثوق سے بتا سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر سٹیٹس کو تبدیل نہ ہوا، تو تشدد کی ایک اور لہر بھی سامنے آ سکتا ہے۔
امریکی صدر نے کیا کہا؟
امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیزفائر کا معاہدہ کروانے پر اپنی سفارتی ٹیم اور مصر کے صدر السیسی کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ کروانے میں مصری صدر نے ‘اہم کردار’ ادا کیا ہے۔
انھوں نے حالیہ کشیدگی کے دوران انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کیا۔
دنوں جانب حملوں میں بچوں کی ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان حملوں کے نتیجے میں بہت سے معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔‘
’میں ان تمام اسرائیلی اور فلسطینی متاثرہ خاندانوں سے دلی اظہار تعزیت کرتا ہوں جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں۔‘
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد کہ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو اور مصری صدر السیسی سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کے دوران میں نے اُن کے حالیہ کشیدگی کو گیارہ دنوں کے اندر ختم کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے۔‘
’میں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے جو میں ہمیشہ سے اس تنازع میں کہتا آیا ہو کہ امریکہ حماس اور غزہ میں مقیم دیگر دہشت گرد گروہوں کے اندھا دھند راکٹ حملوں سے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی مکمل حمایت کرتا ہے، جنھوں نے اسرائیل میں بے گناہ متاثرین کی جانیں لی ہیں۔‘
سیزفائر کیسے ممکن ہو پایا؟
اس لڑائی کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل اور حماس کو بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فائر بندی اور کشیدگی میں کمی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
مصر، قطر اور اقوام متحدہ نے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کی بات چیت میں ثالثی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کے مطابق صدر سیسی نے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سلامتی کے دو وفود کو جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی سمت کام کرنے کا حکم دیا ہے۔
Comments are closed.