اسرائیل اور حماس کے تنازع سے جنم لینے والے پانچ ’تشویش ناک‘ حقائق کیا ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, جیریمی بوین
- عہدہ, بین الاقوامی مدیر، جنوبی اسرائیل
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جو تجزیہ اور رپورٹنگ ہوئی اس کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی کے پاس بھی مکمل کہانی نہیں۔
ہمیشہ کی طرح جنگ کی دھند میں سے حقیقت تلاش کرنا نہایت مشکل ہے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس تازہ تنازع کی نئی شکل کھل کر سامنے نہیں آ سکی تاہم واقعات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ خدشہ کافی حد تک موجود ہے کہ جنگ پھیل سکتی ہے۔
مشرق وسطی کی نئی حقیقت کیا ہو گی اور اس تنازع کی نئی شکل کیا ہو گی؟ اس کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ یہ جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کتنی طویل ہوتی ہے۔
اب تک چند باتیں ہم جانتے ہیں لیکن کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے ہم لاعلم ہیں۔ 2003 میں عراق پر حملے کے وقت چند لوگوں نے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کا مذاق اڑایا تھا جب انھوں نے ’لاعلم چیزوں‘ کا ذکر کیا تھا تاہم دنیا کے اس حصے میں ایسا ہوتا ہے اور جب یہ لاعلم چیزیں ظاہر ہوتی ہیں تو یہ بہت فرق ڈال دیتی ہیں۔
پہلی بات جو واضح ہے وہ یہ کہ اسرائیلی شہری غزہ سے حماس اور اسلامی جہاد کے خاتمے کے لیے عسکری مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔ حماس کے حملے میں 1400 افراد کی ہلاکت اور 240 یرغمالیوں کی وجہ سے یہاں کافی غصہ اب بھی پایا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’عام شہریوں کی ہلاکت بدقسمتی لیکن ایسا حماس کی وجہ سے ہے‘
میری ملاقات ایک سابق اسرائیلی جنرل نوم ٹبون سے ہوئی جنھوں نے بتایا کہ وہ حماس کے حملے کے بعد غزہ کی سرحد کے پاس اپنے بیٹے کے گھر کی جانب کیسے دوڑے تاکہ اپنے بیٹے، بہو اور ان کی دو نوجوان بیٹیوں کو بچا سکیں جن کے گھر کے باہر حماس کے جنگجو موجود تھے۔
وہ ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن 62 سال کی عمر میں بھی صحتمند ہیں۔ انھوں نے ایک ہلاک اسرائیلی فوجی کی رائفل اٹھائی اور چند فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنے اہلخانہ سمیت کئی لوگوں کی جان بچائی۔
انھوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کا ہمسایہ بچوں، خواتین اور لوگوں کو ہلاک کرے۔ جیسے برطانیہ نے اپنے دشمنوں کو دوسری عالمی جنگ میں کچل دیا تھا، ہم بھی غزہ میں ایسا ہی کریں گے۔ کوئی رحم نہیں ہو گا۔‘
میں نے سوال کیا کہ ان معصوم فلسطینیوں کا کیا جو اس دوران ہلاک ہو رہے ہیں؟
’بدقسمتی سے ایسا ہو رہا ہے۔ ہم ایک مشکل جگہ رہتے ہیں اور ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔‘
بہت سے اسرائیلی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں کہ عام فلسطینی شہریوں کی ہلاکت بدقسمتی ہے لیکن ایسا حماس کی وجہ سے ہے۔
اموات کی تعداد یوکرین میں مرنے والوں سے ’زیادہ ہو سکتی ہے‘
دوسری بات جو واضح ہے وہ یہ کہ حماس کیخلاف اسرائیل کا حملہ خونیں ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے 65 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔
یہ اب تک واضح نہیں کہ ہلاک ہونے والے مردوں میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حماس یا اسلامی جہاد کے جنگجو ہیں تاہم امریکی صدر اور اسرائیلی، غزہ کی وزارت صحت کے اعدادوشمار پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ماضی میں بین الاقوامی تنظیموں نے ہمیشہ غزہ کے حکام کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کو درست تسلیم کیا ہے۔
ایک ہولناک سنگ میل قریب آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یوکرین میں 21 ماہ شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 9700 عام شہری ہلاک ہوئے۔
شاید ہلاک ہونے والوں میں سے چند حماس کا حصہ ہوں گے لیکن اگر یہ تناسب 10 فیصد بھی ہے، جو کافی مشکل ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل نے یوکرین میں فروری 2022 سے اب تک ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں صرف ایک ماہ میں اتنے ہی فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں اتنے عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں کہ یہ حملے اب جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔
حماس کے حملے کے فوری بعد ابتدائی دنوں میں امریکی صدر نے اسرائیل کی جانب سے حماس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال کی حمایت کی لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ’درست طریقے‘ سے ہونا چاہیے۔ ان کا مطلب تھا کہ اسرائیل عام شہریوں کی حفاظت کی ضمانت دینے والے جنگی قوانین کا احترام کرے۔
امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن تل ابیب پہنچ چکے ہیں۔ انھوں نے روانگی سے قبل کہا تھا کہ ’جب میں ایک فلسطینی بچے کو تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے کے نیچے سے نکلتے دیکھتا ہوں تو مجھے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی اسرائیلی بچے کو دیکھ کر ہو۔‘
میں نے گزشتہ 30 سال میں اسرائیل کی تمام جنگوں کے دوران رپورٹنگ کی ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس سے پہلے کسی امریکی انتظامیہ نے اسرائیل پر جنگی قوانین کا احترام کرنے کے لیے اتنا زور دیا ہو۔ انتونی بلنکن کے دورے سے لگتا ہے کہ ان کے خیال میں اسرائیل امریکی صدر کے مشورے پر عمل نہیں کر رہا۔
،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو پر دباؤ
تیسرا ہم جانتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو پر بے انتہا دباؤ ہے۔ اسرائیل کے عسکری سربراہان کے برخلاف انھوں نے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اب تک اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کیا۔
گزشتہ اتوار، 29 اکتوبر کو، انھوں نے خفیہ اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن بعد میں اپنا سماجی رابطوں پر دیا جانے والا بیان ہٹا دیا اور معافی بھی مانگی۔
ایک بین الاقوامی جریدے میں تین اسرائیلی سابق حکام نے ایک مضمون میں کہا ہے کہ نتن یاہو کو اس جنگ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو ایک مخصوص طبقے کی حمایت تو حاصل ہے لیکن وہ اسرائیل کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں بااثر شخصیات کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
جن سابق اسرائیلی جنرل سے میری بات ہوئی انھوں نے نتن یاہو کا موازنہ سابق برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین سے کیا جنھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940 میں استعفی دیا اور چرچل نے ان کی جگہ لی۔
نوم ٹبون نے کہا کہ ’یہ اسرائیل کی ریاست کی تاریخ میں سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ ایک عسکری ناکامی تھی۔ یہ خفیہ اداروں کی ناکامی تھی اور یہ حکومت کی ناکامی تھی۔ جو انچارج ہے، سب اس کی غلطی ہے اور وہ شخص نتن یاہو ہے جو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کا انچارج ہے۔‘
’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘
چوتھی بات یہ واضح ہو چکی ہے کہ مشرق وسطی میں توازن بگڑ چکا ہے۔ 2005 میں آخری فلسطینی مزاحمتی تحریک کے بعد نتن یاہو کا ماننا تھا کہ اب ایسی صورتحال بن چکی ہے جسے دوام مل سکتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی تھی۔
اس وقت اسرائیل میں یہ سوچ پنپ چکی تھی کہ اب فلسطینی خطرہ نہیں رہے بلکہ صرف ایک مسئلہ ہیں۔ ان کے لیے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پرانی پالیسی استعمال کی جا رہی تھی۔
نتن یاہو اس دوران مسلسل کہتے رہے کہ امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں لیکن ایسا شراکت دار موجود تھا۔ فلسطینی اتھارٹی جو حماس کی مرکزی حریف ہے خامیوں سے پاک نہیں اور کئی لوگوں کا خیال ہے کہ صدر محمود عباس کو عمر کے اس حصے میں اب اقتدار چھوڑ دینا چاہیے لیکن اس تنظیم نے 1990 میں ہی اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو قبول کر لیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہReuters
’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا مطلب یہ تھا کہ حماس کو غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے مقابلے میں اپنی طاقت بڑھانے کا موقع دیا جائے۔
نتن یاہو ہمیشہ سوچ سمجھ کر عوامی بیانات دیتے ہیں لیکن ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ایک آزاد خودمختار ریاست قائم نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس کے لیے ان کو غرب اردن کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم بھی چھوڑنا پڑتا اور اسرائیلی دائیں بازو کا ماننا ہے کہ اس پر یہودیوں کا حق ہے۔
2019 میں اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ نتن یاہو نے اپنی پارٹی کے اراکین کو کہا ہے کہ اگر وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ قطر کی جانب سے فراہم کردہ مالی امداد غزہ کو دینے کی حمایت کریں۔ نتن یاہو کے مطابق حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تقسیم ریاست کے قیام کو ناممکن بنا دے گی۔
’ابھی اور خون بہے گا‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پانچویں بات یہ بھی واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل امریکہ کی مدد سے اب ایسا کوئی معاہدہ نہیں مانے گا جس میں حماس کو اقتدار میں رہنے دیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی اور خون بہے گا۔ ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ حماس کی جگہ کون لے گا؟ اور اس سوال کا جواب اب تک سامنے نہیں آیا۔
عرب اور یہودی آبادیوں کے درمیان تنازع 100 سال پرانا ہے لیکن اس طویل اور خونیں تاریخ سے ایک سبق یہ ضرور ملتا ہے کہ اس تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں۔
1990 میں اوسلو امن عمل نے مشرقی یروشلم میں دارالحکومت کے ساتھ فسلطینی ریاست قائم کر کے تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس عمل کو اوبامہ دور میں آخری بار دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک دہائی قبل یہ کوشش ناکام ہوئی اور اس تنازع کو زندہ رہنے دیا گیا۔
جیسا کہ صدر بائیڈن اور دیگر نے بارہا کہا ہے کہ مزید جنگیں روکنے کا واحد طریقہ اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے لیکن دونوں اطراف کے موجودہ رہنماؤں کے ہوتے ہوئے ایسا ہونا ممکن نہیں۔
اسرائیل اور فلسطین میں موجود شدت پسند ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کریں گے۔
ان میں سے کچھ کا ماننا ہے کہ وہ خدا کی مرضی پر عمل کر رہے ہیں اور اسی لیے ان کو قائل کرنا اور بھی مشکل ہے۔
لیکن اگر اس حالیہ جنگ نے دو ریاستی حل کا راستہ نہیں بنایا اور اس تنازع کو باہمی رضامندی سے ختم نہیں کیا گیا تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی اگلی نسلیں بھی لڑتی رہیں گی۔
Comments are closed.