اسرائیل اور حماس کی جنگ میں پھنسے ہوئے غزہ کے فلسطینیوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, ثقلین امام
- عہدہ, بی بی سی لندن
حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ شہر پر کی جانے والی بمباری سے شہریوں کا وہاں جینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ بمباری کے علاوہ پانی اور بجلی بند ہے، خوراک اور ادویات کا سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔
تنظیم برائے آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ میں فوری طور مداخلت کی جائے اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد پہنچائی جائے۔
یہ کہتے ہوئے کہ ’غزہ کو اس وقت بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے‘، پی ایل او کے سیکریٹری جنرل نے زور دے کر مطالبہ کیا کہ اس محصور علاقے میں امدادی سامان پہنچایا جائے، بجلی اور پانی کی سپلائی بحال کی جائے۔
اسرائیل کی بمباری کا نشانہ بننے والا غزہ کا پسماندہ شہر جہاں زندگی کسی نہ کسی طرح رواں دواں تھی، اس وقت کھنڈر میں بدل چکا ہے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے گذشتہ چھ دنوں سے غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ممکنہ زمینی حملے سے قبل ہزاروں فوجیوں کو سرحد کے قریب جمع کر رکھا ہے۔
اسرائیل میں ملک کی فوج کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہیلیوی نے جمعرات کو کہا، ’اب جنگ کا وقت آ گیا ہے۔‘
غزہ کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی حالیہ بمباری سے 1400 سے زیادہ فلسطینی، جن میں زیادہ تر عام شہری شامل ہیں، پہلے ہی ہلاک اور 6000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہReuters
بی بی سی کے غزہ میں نامہ نگار رُشدی ابو الوف بتاتے ہیں: کہ ’یہ میری زندگی اور میرے 25 برسوں کے صحافتی کیرئیر کی شدید ترین بمباری ہے۔ میں 20 خاندانوں کی ایک رہائش عمارت میں موجود تھا۔ یہ عمارت ساری رات دھماکوں سے لرزتی رہی۔ بچے خوف سے چیختے رہے۔‘
غزہ میں ایسی کئی عمارتوں پر بمباری ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اسلامک یونیورسٹی آف غزّہ کی عمارت پر بمباری کی گئی، اسرائیل نے کہا کہ یہ مسجد ٹریننگ کیمپ تھی اور اس میں اسلحہ بنایا جا رہا تھا۔
غزہ کی صورتحال تشویشناک ہے اور اس کے باشندوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسرائیلی بمباری اور ممکنہ زمینی چڑھائی کی صورت میں غزہ کے فلسطینی اپنے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
لیکن ان کے سامنے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے گھر اور محلے چھوڑ کر کہا جائیں۔ شدید ترین ہوائی بمباری اور زمینی حملے کی صورت میں حماس کے جنگجو بھی مزاحمت کریں گے۔ عام لوگوں کا دونوں کی لڑائی میں پھنسنے کا امکان ہے۔
گنجان آباد علاقے میں زمینی حملہ بھی بہت زیادہ نقصان کر سکتا ہے۔
یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطوں میں سے ایک ہے۔ اس پتلی سی ساحلی پٹّی پر 23 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ یہ 25 میل لمبی اور 10 میل چوڑی ہے۔
اتنے چھوٹے علاقے میں جنگ سے محفوظ رہنے کی ایک ہی صورت بنتی ہے کہ وہ نقل مکانی کر جائیں، جس کا اسرائیل انھیں بار بار انتباہ دے رہا ہے۔ لیکن عملی طور پر لاکھوں لوگوں کا نقل مکانی کرنا آسان کام نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
غزہ کی پٹی اسرائیل اور مصر کے درمیان سرحد جس پر دونوں جانب سے سخت نگرانی کی جا رہی ہے، اور حال ہی میں اسرائیل نے سخت بمباری بھی کی ہے، وہاں سے لوگوں کا سرحد کراس کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
مصر جانے والی رفح بارڈر کراسنگ بھی فلسطینیوں کے لیے بند کر دی گئی ہے اور اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان کراسنگ بند کر دی گئی ہیں جو غزہ اور جنوبی اسرائیل کے درمیان ایک راستہ تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور امدادی اداروں نے غزہ کی پٹی سے محفوظ راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن وہاں سے نکلنے کے آپشنز عملی طور پر موجود نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کا مشرق وسطیٰ کا ایلچی اس وقت دیگر اہم علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں اور مصری حکومت کے ساتھ مل کر غزہ تک ایندھن، خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے ایک انسانی راہداری کھولنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے مطابق، انسانی ہمدردی کی راہداری کھلے رکھنا مسلح تصادم میں فریقین کی ذمہ داری ہے جو ایک مخصوص جغرافیائی علاقے میں محدود مدّت کے لیے محفوظ گزرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
آئی سی آر سی نے کہا ہے کہ ’فریقین کے لیے یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اور اس کے حل کا کوئی آسان جواب نہیں۔‘
’تنازعات سے متاثر ہونے والوں کی حفاظت کو ترجیح دی جانی چاہیے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ایک پرامن حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘
Comments are closed.