- مصنف, عارف شمیم
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، لندن
- 36 منٹ قبل
ایران کے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں نے مشرقِ وسطیٰ میں پھر سے ایک بڑی جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ ایران کے حملوں میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن ایران نے دور تک مار کرنے والے اپنے میزائلوں اور ڈرونز کی اپنی صلاحیت دنیا کو ضرور دکھا دی ہے۔امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی جانب سے آنے والا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی نیا محاذ قائم ہو اور تجزیہ کاروں کے مطابق نہ ہی اسرائیل ایسا چاہے گا کیونکہ وہ پہلے ہی غزہ میں حماس کے خاتمے کی جنگ لڑ رہا ہے۔تاہم بدھ کی شب اسرائیل نے کہا کہ وہ اپنے اتحادیوں کے مشوروں کی قدر کرتا ہے مگر اس ضمن میں اپنا فیصلہ وہ خود لے گا۔ اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف ہرزی ہالیوی نے پیر کو کہا تھا کہ اُن کا ملک حملے کا جواب دے گا لیکن انھوں نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ جواب کب اور کیا ہو گا۔ دوسری طرف ایران کے نائب وزیرِ خارجہ علی باغیری کانی نے بھی پیر کی رات کو ہی ریاستی ٹی وی کو بتایا کہ اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ حملے کا جواب گھنٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں دیا جائے گا۔
اسرائیل، ایران کی طرف سے 200 سے زیادہ میزائل اور ڈرونز داغے جانے کے بعد بھی کوئی بڑا نقصان نہ اٹھانے پر اور ایران اپنے دیرینہ دشمن پر اتنا بڑا حملہ کرنے کے ذریعے، دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ پر بظاہر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ آخر اس معاملے میں کس کا پلڑہ بھاری رہا اور اسرائیل اور اس کی عوام جوابی اقدام کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟
اسرائیل جوابی حملے کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesتل ابیب یونیورسٹی سے منسلک مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھنے والے محقق ڈاکٹر ایرک روندسکی کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ملک میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے اپنی ناکامی قبول کی ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر طارق سلیمان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر اس جنگ کے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت اسرائیلی کابینہ میں جنگ کے حامی اراکین بھی موجود ہیں جو جنگ چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب بھی نتن یاہو سیاسی طور پر اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتے ہیں تو وہ فوراً ایران کارڈ استعمال کرتے ہیں۔‘یروشلم میں مقیم صحافی اور محقق ہریندر مشرا، جنھوں نے اسرائیلی سوسائٹی اور پولیٹکس پر پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ کافی عرصے تک یروشلم میں ہیبریو یونیورسٹی اور تل ابیب یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ نتن یاہو اس وقت تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ سخت گیر مؤقف رکھنے والوں کے ساتھ جائیں جو جنگ چاہتے ہیں یا پریگمیٹک لائین لیں جو بین الاقوامی برادری اور اُن کے باقی ساتھیوں کو بھی قبول ہو۔انھوں نے ہیبریو یونیورسٹی کی طرف سے کرائے گئے ایک دلچسپ سروے کا ذکر کیا جس میں تقریباً تین چوتھائی اسرائیلی عوام نے ایران پر جوابی حملے کی مخالفت کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ منگل کو جاری ہونے والے سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ نصف سے زیادہ عوام کا خیال ہے کہ اسرائیل اتحادیوں کے فوجی اور سیاسی مطالبات کا ’مثبت جواب دیتا ہے۔‘یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سروے 14-15 اپریل کو انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے ذریعے کیا گیا تھا، اور اس میں 1,466 مرد اور خواتین نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ سروے میں حصہ لینے والے افراد اسرائیلیوں، یہودیوں اور عربوں کی نمائندگی کرتے تھے۔اس سروے میں غلطی کا مارجن 4.2 فیصد کے طور پر دیا گیا تھا۔’سروے میں پایا گیا کہ 74 فیصد عوام نے جوابی حملے کی مخالفت کی۔ ’اگر اس سے اسرائیل کے اتحادیوں کے ساتھ سیکورٹی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے‘، جبکہ 26 فیصد حملے کے حق میں تھے چاہے اس سے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہی ہوں۔‘
ایران اور اسرائیل کی عسکری قوت کا تقابلی جائزہ
ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ جس میزائل پروگرام پر وہ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ایران کے میزائل پروگرام کو مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع سمجھا جاتا ہے ہے۔ سنہ 2022 میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس ’3000 سے زیادہ‘ بیلسٹک میزائل ہیں۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ میزائلوں کا یہ ذخیرہ اس نے گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یا اپنے طور پر ملک ہی میں تیار کیے ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔اسرائیل کے مشہور میزائیلوں میں ڈیلائلا، جبریئل، ہارپون، چریکو 1، جریکو 2، جریکو 3، لورا اور پوپیئی شامل ہیں۔ لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کہ کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کو متواتر فضا میں ہی تباہ کر کے وہ آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینیئر اوزی روبن نے بی بی سی کو بتایا کہ آئرن ڈون کی طرح کا دنیا میں کوئی اور دفاعی نظام نہیں ہے اور یہ بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل سے بہت زیادہ بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہو گا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24 ارب ڈالر سے ذرا زیادہ ہے۔جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔ ایران کے ایکٹیو (فعال) فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے ایکٹیو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس ایئر پاور ہے۔ اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیز حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں۔ جبکہ ایران کے پاس فائٹر جیٹس کی تعداد 186 اور صرف 13 اٹیک ہیلی کاپٹر ہیں۔دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تو نہیں کیا لیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پر نہ بھی ہو، پھر بھی ایران کی بحری فوج کے پاس 101 جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس 67 ہیں۔ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے۔ جو مبینہ طور پر اس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔اگرچہ ایران نے سینکڑوں میزائل اسرائیل پر داغے ہیں لیکن دوسرے کے ملک میں جا کر گوریلہ آپریشن کرنے کا زیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن جب بات ہوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی تو ایران کے رقبے اور فوج میں زیادہ تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیل ایسا نہیں کرے گا۔اس کی برتری فضائی طاقت، میزائل اور ڈرونز ہیں اور اگر اس نے ردِعمل ظاہر کیا تو ممکنہ طور پر ان ہی کے ذریعے ہی کرے گا۔ ویسے ماضی میں ایران کے ہائی پروفائل فوجی اور سویلین شخصیات بھی اسی طرح کے حملوں میں ہلاک کی گئی ہیں اگرچہ اسرائیل نے اکثر اوقات اس کا باقاعدہ اعتراف نہیں کیا لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔اس جنگ کا ایک اور پہلو سائبر اٹیک بھی ہو سکتا ہے اور اس جگہ اسرائیل کافی ولنر ایبل (کمزور) لگتا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ ایران کا دفاعی نظام اسرائیل کے دفاعی نظام جتنا ایڈوانس نہیں ہے، اس لیے اسرائیل کے نظام پر سائبر حملہ زیادہ آسان ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.