اسرائیل۔غزہ تنازع: امریکہ میں ’نوجوان نسل فلسطینیوں کے ساتھ کافی ہمدردی رکھتی ہے‘
- انتھونی زرچر
- نامہ نگار، بی بی سی، امریکہ
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تازہ ترین لڑائی اور جھڑپوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اِس بات کو ظاہر کیا ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ تنازع ان کی پارٹی کی سیاست میں کتنا اہم موضوع بن چکا ہے۔
متعدد دہائیوں سے مشرق وسطی کے بارے میں امریکہ میں عوامی رائے عامہ کاجائزہ لینے والے جان زوگبی کہتے ہیں کہ ’یہ تبدیلی ڈرامائی ہے۔ یہ ٹیکٹونک ہے‘ (یعنی اتنی بڑی تبدیلی جیسے کے ایک براعظم ہل گیا ہو)۔ خاص طور پر نوجوان نسل فلسطینیوں کے ساتھ کافی ہمدردی رکھتی ہے، اور نوجوانوں کی اس رائے میں تبدیلی کا فرق ڈیموکریٹک پارٹی کے میں واضح نظر آتا ہے۔
اگرچہ صدر جو بائیڈن نے اس تنازع پر ایک روایتی نقطہ نظر رکھا ہے، اور بار بار اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو حماس کے راکٹ حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق ہے، لیکن وہ خود اُس پارٹی گروپ سے ہم آہنگ نظر نہیں آرہے ہیں، جسے غزہ اور غرب اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کی حالت کے بارے میں شدید تشویش ہے۔ یہ گروہ اسرائیلی پالیسیوں کو فلسطینیوں کی موجودہ حالت زار میں معاون کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔
امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس ارکان کے مختلف پس منظر
اسرائیل اور فلسطینیوں کے معاملے کے بارے میں ڈیموکریٹک پارٹی میں ہونے والی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے امریکی عوام کے سیاسی طور پر سب سے بڑے نمائندہ ادارے کانگریس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تاریخی طور پر اس قومی مقننہ میں امریکی خارجہ پالیسی کی ہمدردیوں نے مشرق وسطی کے تنازعات میں اسرائیل کے نقطہ نظر کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے۔
چونکہ امریکی کانگریس ایک متنوع ادارہ بن چکی ہے یعنی جس میں مختلف پس منظر کھنے والے ارکان منتخب ہوتے ہیں، اس لیے اس تنوع کے اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی پر کچھ سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ پیو فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق، سنہ 2021 میں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے ریکارڈ 23 فیصد ممبران کا تعلق سیاہ فام، ہسپانوی، ایشین/پیسیفک کمیونیٹیز یا مقامی امریکی پس منظر رکھنے والوں سے تھا۔
دو دہائیاں قبل یہ تعداد 11 فیصد تھی۔ سنہ 1945 میں صرف ایک فیصد بنتی تھی۔
اب کانگریس اس طرح کا ایک متنوع نمائندگی والا ادارہ بن چکا ہے اور اس کے نتیجے میں اس میں مختلف رائے رکھنے والے اور مختلف موثر طبقوں کے نمائندے بھی شامل ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر نوجوان لبرل کانگریسی خواتین کے بااثر گروپ میں، جسے غیر رسمی طور پر ’دی سکواڈ‘ کا نام دیا جاتا ہے، مشیگن سے تعلق رکھنے والی فلسطینی نژاد امریکی راشدہ طلیب اور مینیسوٹا سے صومالیہ کی تاریکِ وطن امریکی الہان عمر بھی شامل ہیں۔
ایوان نمائندگان کی ارکان، الہان عمر، الیگزینڈریا اوکاژیو۔کورٹیز اور راشیدہ طلیب ‘دی سکواڈ’ کے نجام سے معروف ہیں
اس گروپ کی سب سے ممتاز رکن، نیو یارک کے الیگزینڈریا اوکاژیو۔کارٹیز نے ڈیموکریٹ پارٹی کے کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے ایک سینیئر ممبر جو کرولی کو، جو مقبوضہ علاقوں میں ماضی کے تنازعات میں مستقل طور پر اسرائیل کا ساتھ دیتے تھے، ہرانے کے بعد کانگریس کے انتخاب کے لیے اپنی جماعت کی ٹکٹ حاصل کی تھی اور پھر کانگریس کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
اقوام متحدہ کی قرارداد پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سفارتی جنگ شروع ہو گئی ہے۔
مجموعی طور پر، ڈیموکریٹ پارٹی اور اس کے ووٹرز زیادہ تر اسی انداز کے نظر آتے ہیں، جیسے پورٹو ریکا سے تعلق رکھنے والی ہسپانوی پس منظر رکھنے والی 31 برس کی اوکاژیو۔کارٹیز، 59 برس کے کرولی کو شکست دے کر پارٹی قیادت میں ممتاز ہوئیں، اور اس سے پارٹی میں فرق پڑ رہا ہے۔
زوگبی نے بی بی سی کے پوڈ کاسٹ ’امریکاسٹ‘ کی ایک ریکارڈنگ کے دوران کہا کہ ’خاص طور پر ڈیموکریٹس کے حامیوں میں ایک غیر سفید فام آبادی ہے، جو اپنے غیر سفید فام ساتھیوں کے ساتھ زیادتی کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہے۔ وہ اسرائیل کو ایک جارح ریاست سمجھتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی ابتدائی تاریخ اور ان مشکلات کو نہیں جانتے ہیں جن سے نمٹنے کے بعد وہ آج ایک کامیاب قوم بنے ہیں۔
’وہ انتفاضہ کے بعد کے حالات سے واقف ہیں، وہ غیر روایتی جنگوں، مختلف جگہوں پر بم دھماکوں کی تاریخ جانتے ہیں، جن میں بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔‘
برنی سینڈرز کا کردار
اگر کانگریس میں بڑھتی ہوئی تنوع کا حصہ بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک ہے جو اوکاژیو۔کارٹیز جیسے سیاستدانوں کو منتخب کرتی ہے، تو اس میں ترقی پسند تحریک کے ایک رہنما، ریاست ورمونٹ کے ڈیموکریٹ پارٹی کے سوشلسٹ، برنی سینڈرز کا بھی اہم کردار ہے۔
اپنے کیریئر کے اوائل میں برنی سینڈرز، جن کی یہودی طرز کے مطابق پرورش ہوئی تھی اور جنھوں نے سنہ ساٹھ کی دہائی میں اسرائیل میں کچھ وقت بھی بسر کیا تھا، عام طور پر اسرائیل کی پالیسیوں پر ہمدردی رکھتے تھے۔
تاہم جب وہ پہلی بار سنہ 2016 میں صدر کے عہدے کے انتخاب کے لیے پارٹی کے اندرونی انتخابات میں امیدوار بنے تو وہ اس وقت فلسطینیوں کے مسائل کی زیادہ حمایت کرتے نظر آئے۔ ان کا یہ سیاسی انداز ایسا تھا جس نے انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر امیدواروں سے ممتاز کر دیا تھا۔
مارچ سنہ 2016 میں جب اسرائیل پر حماس کے راکٹوں سے حملوں کیے گئے تھے تو ہیلری کلنٹن کے ساتھ ہونے والے ابتدائی سطح کے سیاسی مباحثوں کے دوران سینڈرز نے فلسطینیوں کی حالت زار، ان کی بے انتہا بے روزگاری، ’تباہ شدہ مکانات، تباہ شدہ صحت عامہ کے نظام، تباہ شدہ سکولوں‘ کے بارے میں براہ راست گفتگو کی تھی۔
جیسا کہ اس وقت گارڈین کے صحافی ایڈ پلنگٹن نے نوٹ کیا تھا کہ سینڈرز نے ایسی تقریر کر کے ایک ’غیر تحریری اصول‘ کو توڑ دیا تھا، یعنی امریکہ میں اعلیٰ عہدے کے خواہاں سیاستدانوں کے لیے فلسطینیوں کے دکھوں کے بارے میں بات کرنے کی روایت موجود ہی نہیں تھی۔
یقیناً سینڈرز نے اپنی صدارتی انتخاب کی ٹکٹ حاصل کرنے کے دونوں مواقع کھو دیے۔ تاہم ان کے خیالات کی مقبولیت نے ڈیموکریٹس میں کم ووٹوں والے حلقوں کے امیدواروں کے لیے اس مسئلے کو اٹھانے کا دروازہ کھول دیا۔ کیونکہ ان کے ان خیالات نے ترقی پسند پلیٹ فارم کے دیگر حصوں کو بھی حوصلہ دیا، جس میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام، مفت کالج کی تعلیم، کم سے کم اجرت کا معاملہ اور ماحولیاتی نظام میں اصلاحات شامل ہیں۔
اس کے بعد سے برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی مذمت کا سلسلہ مزید تیز کر دیا جسے انھوں نے ’مایوس، نسل پرست، آمریت پسند‘ کہا۔ اور پچھلے ہفتے انھوں نے نیو یارک ٹائمز میں ایک کالم میں لکھا: ’اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل ایک مقتدر خودمختار اتھارٹی ہے اور وہ امن اور انصاف کو فروغ دینے کے بجائے اس خطے پر غیر مساوی اور غیر جمہوری انداز سے اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے۔‘
’فلسطینی زندگی کی وقعت ہے‘
نیویارک ٹائمز کے اس کالم کا خاتمہ برنی سینڈرز نے امریکہ میں ’کارکنوں کی ایک نئی نسل‘ کے عروج کی نوید پر کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم نے گذشتہ موسم گرما میں امریکی ایکٹیویسٹوں کو جارج فلائیڈ کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے امریکی گلیوں میں دیکھا تھا۔ ہم انھیں اسرائیل میں دیکھتے ہیں۔ ہم انھیں فلسطینی علاقوں میں دیکھتے ہیں۔‘
مزید پڑھیئے
ان کے مضمون کے آخری الفاظ ’فلسطینی زندگی کی وقعت ہے‘ کا ’بلیک لائیوز میٹر‘ (سیاہ فاموں کی زندگی کی وقعت ہے) کی مہم سے براہ راستہ تعلق ہے۔
سینڈرز نے اس بات کو پہلے ہی سے دیکھ لیا تھا جو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اسرائیلی افواج اور فلسطینیوں کے مابین ہونے والی لڑائی کے دوران واضح ہوئی ہے۔ امریکی شہروں میں گذشتہ موسم گرما میں جارج فلائیڈ کے احتجاجی جلوسوں کے دوران جس امریکی سیاسی آواز کو پذیرائی مل تھی وہ اب اپنی توجہ اور اپنی بیان بازی کا رخ مشرق وسطیٰ میں اسی طرح کے سمجھے جانے والے جبر کے بے دریغ استعمال کی جانب مبذول کرا رہی ہے۔
بائیڈن نے اسرائیل کے بارے میں پوچھے جانے پر گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھا دی۔
’امریکی ریاست سینٹ لوئس کی کانگریس کی خاتون رکن کوری بش نے، جنھوں نے گذشتہ سال ایک پرائمری میں طویل عرصے سے کامیاب ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان کو شکست دی تھی، جمعرات کو ایوانِ نمائندگان کے اجلاس کے دوران کہا کہ ’سینٹ لوئیس نے مجھے یہاں زندگیاں بچانے کے لیے منتخب کرکے بھیجا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ ہم فوجی طور پر نگرانی، قبضے اور پرتشدد جبر اور ظلم کے نظام کے لیے کی جانے والی مالی امداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم جنگ کے مخالف ہیں، ہم قبضے کے مخالف ہیں، اور ہم نسل پرستی کے خلاف ہیں۔ بس۔‘
اس کو اسرائیل کے لیے امریکی فوجی امداد منقطع کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی آواز کی نمائندگی کے طور پر دیکھا گیا ہے، یا کم از کم ایسا کرنے کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے نتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے طور پر کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنی جارحانہ پالیسیوں سے باز آجائیں۔
’پولیس کا فنڈ بند کرو‘ کے نعرے کا اب خارجہ پالیسی میں ایک ساتھی پیدا ہو گیا ہے: ’اسرائیلی فوج کی فنڈنگ بند کرو۔‘
ٹرمپ اور نتن یاہو
ڈیموکریٹک پارٹی میں اسرائیل کی روایتی حمایت کرنے والوں کے لیے پیچیدہ معاملات یہ ہیں کہ قومی سیاست میں تقریباً ہر معاملے کی طرح یہودی ریاست کے بارے میں بھی امریکہ کی متفق اسرائیل پالیسی اب تیزی سے دھڑوں میں منقسم ہوتی جا رہی ہے۔
اس سلسلے کو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے آگے بڑھایا ہے جنھوں نے امریکہ کے دائیں بازو سے اسرائیلی تعلقات کے رشتے کو مزید قریب کیا ہے۔ اوباما دور کے ڈیموکریٹس سنہ 2015 میں ریپبلکن کی دعوت پر کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں نتن یاہو کے خطاب کو نہیں بھولتے، جس میں انھوں نے اوباما انتظامیہ کے ایران سے جوہری معاہدے کی کانگریس سے منظوری کی کوشش کو ناکام کروانے کی کوشش کی تھی۔
ادھر، ڈونلڈ ٹرمپ نے نتن یاہو اور اسرائیل سے اپنے قریبی تعلقات کا چرچا کرنے میں چار سال گزارے۔ ٹرمپ نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے انسانی امداد منقطع کی، امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم (القدس) منتقل کیا، اور مشرق وسطی کے سفارتی مذاکرات میں فلسطینیوں کو نظر انداز کیا۔
کچھ سینٹرسٹ ڈیموکریٹس کے لیے ٹرمپ اور نتن یاہو کا کبی کبھار ناراضی کا سیاسی اظہار بھی فلسطین کی صورتحال پر اُن کے اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کے لیے کافی تھا۔
یہ رجحان کچھ حد تک جاری رہ سکتا ہے کیونکہ، زوگبی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مفادات کو پورا کرنے کے لیے ٹرمپ کی کوششوں نے ریپبلکن امیدواروں کے لیے یہودی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد نہیں دی تھی۔
زوگبی کا کہنا ہے کہ ’یہ ان کی طرف سے ایک خیالی پلاؤ ہے۔ امریکی یہودی بنیادی طور پر ایک لبرل ترقی پسند ووٹنگ گروہ ہے۔‘
اگر ڈیموکریٹس اپنے روایتی یہودی ووٹروں کو الگ یا ناراض کیے بغیر اپنے ترقی پسند گروہوں کی خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں تو یہ ایک بہت ہی آرام دہ اور پرسکون سیاسی حکمتِ عملی بن جاتی ہے۔
روایتی مکتبہِ فکر کے بائیڈن
اگر واشنگٹن میں ڈیموکریٹس کے اندرونی حلقوں میں اسرائیل پر بحث میں تبدیلی آرہی ہے، تو وائٹ ہاؤس میں اس کی کچھ جھلک بھی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔
بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے اعلی عہدے دار اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ڈھیلے تھے۔ یہاں تک کہ وہ سینیٹ میں اسرائیل کے حامی ریپبلکن پارٹی کے لیڈر چک شومر سے بھی زیادہ ڈھیلے نکلے۔
غزہ کے آسمان پر بلند ہوتا ہوا دھواں۔
انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کو منظور ہونے سے روکا جس میں جنگ بندی کی بھی حمایت کی گئی تھی۔ نتن یاہو کے ساتھ بائیڈن کی کالوں کے متن کے مطالعے میں بار بار یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ صدر نے تنقید کا بہت کم اشارہ دیتے ہوئے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق پر زور دیا۔
اسرائیل کو امریکی فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور حقیقت میں حالیہ تشدد سے پہلے بائیڈن نے یہودی ریاست کو پونا ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے کئی ترقی پسند ارکان مایوس ہوئے۔
سنہ 2020 کے صدارتی انتخابات کی ابتدائی کی بحث کے دوران جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اسرائیل کو امریکی امداد میں شرائط شامل کرنے کا برنی سینڈرز کا مطالبہ ’نامعقول بات‘ ہے۔
تاہم اس معاملے پر بائیڈن کے لیے خطرہ واضح ہے۔ اگر صدر اپنا قانون سازی کا ایجنڈا پاس کروانا چاہتے ہیں تو ان کو بائیں بازو کے ترقی پسندوں کی حمایت کی ضرورت بھی ہو گی، بشمول ایک بہت ہی بڑے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سوشل سیفٹی نیٹ پیکیج کے۔
اب تک بائیڈن کو بائیں بازو کے لبرلز سے مدد مل رہی ہے۔ لیکن اگر ڈیموکریٹک بائیں بازو کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ بائیڈن اسرائیل کی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو در گزر کر رہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کرنا بند کر سکتے ہیں۔
زوگبی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا دیکھا ہے، لیکن یہ کبھی بھی انتہائی شدت والا معاملہ نہیں بنا۔ یہ اب بن رہا ہے۔ خاص طور پر ڈیموکریٹس کے اندر یہ ایک بڑا تقسیم کرنے والا مسئلہ بن رہا ہے، جسے غیر سفید فام اور کم عمر ووٹرز اور ترقی پسند عموماً زیادہ فعال بنا رہے ہیں۔’
خارجہ پالیسی کے حوالے سے بائیڈن کے لیے ان کے دورِ صدارت میں مشرق وسطی اب تک کم ترجیح والا مسئلہ رہا ہے جو کہ تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے اور کئی وجوہات میں سے اس کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں اسرائیل کے حامیوں کو یہ خدشہ ہے کہ بائیڈن کی حمایت، جو دہائیوں سے پبلک سروس میں کام کرنے کی وجہ سے کم نہیں ہوئی، کمزور پڑ سکتی ہے۔
سیاستدان صرف ایک حد تک ہی اپنی سیاسی حلقے کے اثر سے دور رہ سکتے ہیں۔
Comments are closed.