اسرائیلی وزیر نے فلسطینیوں کے بارے میں ایسا کیا کہہ دیا کہ امریکہ نے بھی مذمت کر دی؟

اتمار بین گویر

،تصویر کا ذریعہREUTERS

  • مصنف, ٹام بیٹ مین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم

امریکہ نے اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بین گویر کے اس دعوے کی مذمت کی ہے کہ مقبوضہ غرب اردن میں ان کے حقوق فلسطینیوں کے حقوق سے زیادہ اہم ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وہ اس ’اشتعال انگیز تبصرے‘ اور ’تمام نسل پرستانہ بیان بازی‘ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

اتمار بین گویر نے غرب اردن کے لیے بائبل کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا، میری بیوی کا، میرے بچوں کا، جوڈییہ اور سماریہ کی سڑکوں پر گھومنے کا حق عربوں کی نقل و حرکت کے حق سے زیادہ اہم ہے۔‘

اس کے بعد انھوں نے سٹوڈیو میں ایک عرب اسرائیلی صحافی محمد مجادلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’معذرت کے ساتھ، لیکن یہ حقیقت ہے، یہ سچ ہے۔ میرا زندگی کا حق ان کے نقل و حرکت کے حق سے پہلے آتا ہے۔‘

یہ ویڈیو کلپ وائرل ہو گیا جس کے بعد ان پر فلسطینیوں اور اسرائیلی حزب اختلاف کی شخصیات کی جانب سے تنقید شروع ہو گئی۔

بین گویر نے اس کے بعد سے اس کوریج کو ’فیک نیوز‘ کہا ہے اور ’بنیاد پرست بائیں بازو‘ سے تعلق رکھنے والوں کو غلط بیان ان سے منسوب کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس، جسے پہلے ٹوئٹر کہا جاتا تھا، پر اتمار بین گویر نے فلسطینی نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید پر بھی شدید تنقید کی جنھوں نے ان کی متنازع ویڈیو اپنے انسٹاگرام پر شیئر کی اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ ’نہ ہی کسی جگہ، نہ ہی کسی وقت پر۔۔۔ کوئی ایک زندگی دوسروں کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہونی چاہیے۔‘

بیلا حدید کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے چھ کروڑ فالورز ہیں۔

اتمار بین گویر انتہائی قوم پرست پارٹی ’اوزما یہودت‘ کے رہنما ہیں جو نسل پرستانہ اور عرب مخالف پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔ ان کو ماضی میں نسل پرستی کو بھڑکانے اور دہشت گردی کی حمایت کرنے کے لیے سزائیں مل چکی ہیں۔

دسمبر میں انھیں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے وزیر بنایا۔ وزیر اعظم نے انھیں اپنی سکیورٹی کابینہ میں جگہ دی اور انھیں عام پولیس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی عسکری سرحدی پولیس فورس کا بھی انچارج بنایا۔ یہ فورس مقبوضہ مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں کام کرتی ہے۔

اتمار بین گویر کا بیان بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب الگ الگ حملوں میں فلسطینی حملہ آوروں نے تین اسرائلیوں کو ہلاک کردیا۔ ان میں سے ایک واقعہ حیبرون شہر کے قریب ہوا جہاں اتمار بین گویر ایک یہودی آبادی میں رہتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں لگ گئیں کیونکہ اسرائیلی فورسز حملہ آوروں کی تلاش میں تھیں۔

فلسطینیوں کو غرب اردن میں چوکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

فلسطینیوں کو غرب اردن میں چوکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے لیے ان چوکیوں کی ضرورت ہے

’سب سے زیادہ نسل پرست‘ حکومت کا نمائندہ

فلسطینی قیادت نے ’اسرائیل کے فاشسٹ وزیر اتمار بن گویر کے نسل پرستانہ اور گھناؤنے ریمارکس‘ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔

انھوں نے کہا یہ بیان ’اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی یہودی بالادستی اور فلسطینی عوام کے خلاف نسلی دہشت گردی کی تصدیق کرتا ہے‘۔

حزب اختلاف کی یش عطید پارٹی میں اسرائیلی رکن پارلیمنٹ کیرین الہرار نے اتمار بین گویر کو ’اب تک کی سب سے زیادہ نسل پرست،‘ اور ’کاہانسٹ‘ حکومت کا مستند نمائندہ قرار دیا۔

اتمار بین گویر کا سیاسی پس منظر ’کاہانزم‘ میں مضمر ہے۔ کانزم ایک متشدد نسل پرست تحریک ہے جو فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی حمایت کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسرائیلی صحافی کے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو کہا ’ ہم غرب اردن میں فلسطینی باشندوں کی نقل و حرکت کی آزادی پر اسرائیلی وزیر بن گویر کے اشتعال انگیز تبصروں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘

’ہم تمام نسل پرستانہ بیان بازی کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ اس طرح کے پیغامات خاص طور پر نقصان دہ ہوتے ہیں جب قیادت کے عہدوں پر فائز لوگوں کی طرف سے انھیں بڑھایا جاتا ہے اور یہ انسانی حقوق کے احترام سے متضاد ہوتے ہیں۔‘

بعد ازاں جمعے کو یورپی یونین نے بھی اتمار بین گویر کے بیان کی ’سخت مذمت‘ کرتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت کے اقدار اور انسانی حقوق کا احترام یورپی یونین-اسرائیل شراکت داری میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘

غرب اردن میں پہلے سے ہی فلسطینیوں کی نقل و حرکت کے حق پر سخت پابندیاں ہیں۔ وہ اجازت کے بغیر یروشلم یا اسرائیل کے اندر اپنی آبائی زمینوں تک آزادانہ سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایسا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔

عرب اسرائیلی، یا اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی قبضے کے مخالف تنظیموں نے اتمار بین گویر کی مذمت کی ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے غرب اردن کے دیرینہ حقائق کو محض بیان ہی کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ردعمل پر بات کرتے ہوئے عرب اسرائیلی رکن پارلیمنٹ احمد تبی نے کہا ’بین گویر نے دو ٹوک الفاظ میں، ایک اعلیٰ اسرائیلی وزیر کے طور پر، 1967 سے لے کر اب تک کی اسرائیلی پالیسی کو بیان کیا۔‘

اسرائیل کے فوجی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کی حمایت کرنے والی ایک اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم بتسیلم نے کہا ’یہ وہ حقیقت ہے جو ہم زمین پر، ہر روز، پانچ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہودیوں کے حقوق عربوں کے حقوق سے زیادہ اہم ہیں۔ نسلی امتیاز کا نظام ایسا نظر آتا ہے۔‘

وہ مقام جہاں 40 سالہ نرسری ٹیچرپر گولیاں چلائی گئیں

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

پیر کو حملہ آوروں نے ایک 40 سالہ نرسری ٹیچر اور تین بچوں کی ماں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا

عالمی ردعمل کے بعد اتمار بین گویر نے جمعرات کو ایک انگریزی بیان میں اسرائیل کی بائیں بازوں کی جماعتوں پر تنقید کی کہ وہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹا کر استعمال کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’فیک نیوز ایسے پھیلتی ہے: میں نے کل ایک ٹی وی نشریات کے دوران کہا تھا کہ یہودیوں کا جینے اور دہشت گردی کے حملوں میں قتل نہ ہونے کا حق جوڈییہ اور سماریہ میں عربوں کے بغیر حفاظتی پابندیوں کے سڑکوں پر سفر کرنے کے حق پر غالب ہے۔

اس لیے ان سڑکوں پر چوکیاں لگائی جانی چاہییں جہاں یہودیوں کے خلاف باقاعدہ دہشت گردی اور جہادیوں کی طرف سے فائرنگ کی جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ بالکل اسی طرح بائیں بازو (کی طاقتیں) اسرائیلی حکومت کے خلاف دنیا میں اشتعال انگیزی کے شعلے بھڑکا رہی ہیں۔‘

سفارتی نقصان کو کم کرنے کی کوشش میں جمعے کو وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے اپنے وزیر کی باتوں کی وضاہت کرنے کے لیے بیان سامنے آیا۔

اس بیان میں کہا گیا کہ ’ان گھناؤنے قتل کو روکنے کے لیے، اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے ان علاقوں (غرب اردن) میں خصوصی حفاظتی اقدامات نافذ کیے ہیں۔ وزیر بین گویر کا یہی مطلب تھا جب انھوں نے کہا کہ ‘زندگی کا حق نقل و حرکت کی آزادی سے پہلے آتا ہے‘۔

پیر کے حملے کے بعد اسرائیلی فورسز نے حیبرون کے داخلی اور خارجی راستوں پر چوکیاں قائم کر دیں جہاں وہ فلسطینیوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ وہ ان حملہ آوروں کی تلاش کر رہے تھے جنھوں نے ایک 40 سالہ نرسری ٹیچر اور تین بچوں کی ماں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اسی روز نابلس کے قریب ایک گاؤں میں اسرائیلی فوج کی گولی لگنے سے ایک فلسطینی شخص شدید زخمی ہو گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو میں انھیں بغیر کسی اسلحے کے ساتھ ایک زخمی شخص کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد انھیں ایک گولی لگتی ہے۔

گذشتہ ہفتے مشرقی یروشلم میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک 15 سالہ فلسطینی لڑکا سر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا کہ اُس نے ایک چھاپے کے دوران ان پر پیٹرول بم پھینکنے کی کوشش کی تھی۔

اسی دن ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک غیر مسلح شخص کو احتجاج کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ زخمی شخص ذہنی صحت کے مسائل کا شکار تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ