اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی قیدیوں سے بدسلوکی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا سلسلہ جاری
- مصنف, مرلن تھامس، جیمی ریان، پال براؤن
- عہدہ, بی بی سی ویریفائی
- ایک گھنٹہ قبل
اسرائیلی فوجی مقبوضہ غربِ اردن میں زیرِ حراست فلسطینیوں کی ویڈیوز آن لائن شیئر کر رہے ہیں جو کہ قانونی ماہرین کے مطابق جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔اس سے قبل بھی بی بی سی نے اسرائیلی حراست میں موجود فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی نشاندہی کی تھی جس کے بعد اسرائیلی ڈیفینس فورس نے اس پر کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔بی بی سی نے حال ہی میں 45 تصاویر اور ویڈیوز کا تجزیہ کیا، جن میں اسرائیلی پرچم میں لپٹے ہوئے فلسطینی قیدیوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔اسرائیلی ڈیفینس فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا کہ ’ناقابل قبول رویوں‘ کے مرتکب فوجیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے اور انھیں معطل بھی کیا گیا تاہم انھوں نے کسی بھی انفرادی واقعے یا فوجی پر تبصرہ نہیں کیا۔
بین الاقوامی قانون زیر حراست افراد کو غیر ضروری تذلیل کا نشانہ بنانے سے روکتا ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران لی گئی ویڈیوز اور تصاویر کو آن لائن شیئر کرنے کا مقصد زیرِ حراست افراد کی تذلیل ہے۔رواں سال فروری کے مہینے میں بھی بی بی سی ویریفائی نے 7 اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر آئی ڈی ایف اہلکاروں کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی۔بی بی سی کی پچھلی تحقیق کےدوران بھی سامنے آیا تھا کہ غربِ اردن میں اسی عرصے کے دوران تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔اوری گیواتی ایک سابق اسرائیلی فوجی ہیں اور اب ’بریکنگ دی سائلنس‘ نامی تنظیم کے ترجمان ہیں۔ سابق اور حاضر سروس اسرائیلی فوجیوں پر مشتمل یہ تنظیم آئی ڈی ایف میں مبینہ طور پر غلط کاموں کو بے نقاب کرتی ہے۔گیواتی کہتے ہیں ان کو یہ سن کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کی آئی ڈی ایف کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود زیادتیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ان کے خیال میں اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاسی بیان بازی اس رویے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو ان اقدامات کا جواب نہیں دینا پڑتا۔ ’انھیں حکومت کے اعلیٰ ترین وزرا کی طرف سے حوصلہ افزائی اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔‘گیواتی کہتے ہیں یہ اسرائیلی فوج کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔’جب فلسطینیوں کی بات آتی ہے تو اسرائیل فوج کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ صرف ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ وہ انسان نہیں ہوتے۔ فوج آپ کو اس طرح برتاؤ کرنا سکھاتی ہے۔‘سنہ 1967 میں غربِ اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے اب تک 160 بستیاں آباد کی ہیں جہاں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت کی نظر میں یہ آبادیاں غیر قانونی ہیں لیکن اسرائیل اس سے متفق نہیں۔،تصویر کا ذریعہINSTAGRAMبی بی سی نے جن 45 سوشل میڈیا ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا، وہ سب کفیر بریگیڈ کے 11 سپاہیوں نے پوسٹ کی تھیں۔ یہ آئی ڈی ایف کی سب سے بڑی انفینٹری بریگیڈ ہے جو بنیادی طور پر غربِ اردن میں کام کرتی ہے۔ ان تمام سپاہیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ان سپاہیوں میں سے چار کا تعلق کفیر بریگیڈ کی ریزروسٹ بٹالین سے ہے۔ ان کی سوشل میڈیا کی ویڈیو کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بٹالین غربِ اردن کے شمالی حصے میں کام کرتی ہے۔جب آئی ڈی ایف سے پوچھا گیا کہ آیا ان فوجیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔بی بی سی نے ان فوجیوں سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کے سامنے تحقیقات کے نتائج رکھے جا سکیں تاہم ان میں ایک نے بظاہر ہمیں بلاک کر دیا جبکہ دیگر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ان فوجیوں میں سے سب سے زیادہ پوسٹیں یوہائی وازانا نامی ایک سپاہی نے شیئر کی ہیں۔وازانہ کی بیشتر ویڈیوز رات کے اوقات میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ان ویڈیوز میں ان کی بٹالین کو رات کے وقت فلسطینیوں کے گھروں میں داخل ہوتے اور انھیں حراست میں لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیوز میں سپاہیوں کو ان افراد کے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں پر پٹی باندھتے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ خواتین کو ان کے سروں پر سکارف کے بغیر فلمایا جا رہا ہوتا ہے جس کے باعث ان میں سے اکثر گھبراہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔یوہائی وازانا نے فیس بک اور ٹک ٹاک پر ایسی 22 ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں، جن میں فلسطینیوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ٹک ٹاک نے تصدیق کی ہے کہ دو ویڈیوز، جن کی ہم نے نشاندہی کی تھی اور جنھیں اس پلیٹ فارم سے نہیں ہٹایا گیا تھا، اب گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر ہٹا دی گئی ہیں۔ ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’ہم ایسے مواد کو برداشت نہیں کرتے جس میں پرتشدد واقعات کے متاثرین کی تذلیل کی گئی ہو۔‘فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے وضاحت کی ہے کہ وہ اس مواد کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والی ایسی کسی بھی ویڈیو کو ہٹا دیا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہFACEBOOK
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.