اسرائیلی فلسطینی کون ہیں اور اسرائیل میں اُن کی زندگی کیسی ہے؟
تقریباً ایک ہفتے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرتشدد تنازع جاری ہے جس میں اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 39 بچوں سمیت 139 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ حماس کے جوابی راکٹ حملوں کے نتیجے میں 10 اسرائیلیوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
اسرائیل نے تل ابیب کے قریبی شہر لود میں نسلی فسادات کے بعد ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔
یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازعے میں ایک اہم موڑ ہے کیونکہ سنہ 1966 کے بعد سے پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی برادری کے خلاف ہنگامی حالت کا نفاذ کیا ہو۔
آپ نے سنا ہوگا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے لیکن یہاں پر غیر یہودی افراد بھی رہتے ہیں اور یہ عرب اقلیتیں ہیں، ایسے فلسطینی جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔
اسرائیل کی آبادی 90 لاکھ سے کچھ ہی زیادہ ہے اور اس میں تقریباً 19 لاکھ افراد عرب ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
لبنان میں پناہ گزین فلسطینی یومِ نکبہ کی یاد میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یومِ نکبہ (یومِ المیہ) فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کی یاد میں 15 مئی کو منایا جاتا ہے
یہ وہ فلسطینی ہیں جو سنہ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد اپنے گھر اسرائیلی ریاست کی حدود میں آ جانے کے بعد یہیں پر رہ گئے۔
دیگر ساڑھے سات لاکھ کے قریب فلسطینی یا اپنے گھروں سے نکال دیے گئے یا وہ خود چھوڑ کر بھاگ گئے۔
جو لوگ نکال دیے گئے یا بھاگ گئے وہ یا تو مقبوضہ غربِ اُردن (مغربی کنارہ) اور غزہ میں بس گئے یا پھر قریبی عرب ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔
وہ عرب افراد جو اب اسرائیل کے اندر رہتے ہیں اُنھیں اسرائیلی عرب، اسرائیلی فلسطینی یا صرف فلسطینی کہا جاتا ہے۔
اسرائیل میں موجود زیادہ تر فلسطینی مسلمان ہیں مگر ان میں دوسرا بڑا مذہبی گروہ مسیحی فلسطینی ہیں۔
ان کے پاس 25 جنوری 1949 کو ہونے والے پہلے عام انتخابات سے ہی ووٹ ڈالنے کا حق ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ اُنھیں کئی دہائیوں سے اسرائیل میں منظم تفریق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گھلنا ملنا؟
اسرائیل میں عرب اور یہودی برادریاں شاذ و نادر ہی گھلتی ملتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود حالیہ مہینوں میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران ان کے درمیان تعاون دیکھنے میں آیا ہے۔
فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان اسرائیل میں گھلنا ملنا صحت کے شعبے میں بھی نظر آتا ہے جہاں 20 فیصد ڈاکٹر، 25 فیصد نرسیں اور 50 فیصد فارماسسٹس عرب ہیں۔
مگر اسرائیلی یہودیوں اور یہاں کی شہریت کے حامل فلسطینیوں کے درمیان مشترکہ قومی اقدار اور احساسات ڈھونڈنا مشکل ہے جو انھیں متحد کر سکیں۔
مثال کے طور پر اسرائیلی معاشرے میں فوج ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور فوج میں خدمات انجام دینا تمام اسرائیلی یہودیوں اور دروز افراد کے لیے لازم ہے، جبکہ اسرائیلی شہریت رکھنے والے فلسطینیوں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے۔
تفریق کی شکایت
اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک میں منظم تفریق کے شکار ہیں۔
انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیمیں اُن کے اس دعوے کی تائید کرتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے ملک میں بسنے والے فلسطینیوں سے منظم انداز میں تفریق روا رکھتا ہے۔
اپریل 2021 میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نسلی بنیادوں پر اپنے شہریوں کے ساتھ جداگانہ سلوک کرتا ہے۔
ایسا کرنا انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے پھر چاہے ایسا اسرائیل کے اندر رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف کیا جائے یا پھر مقبوضہ غربِ اردن اور غزہ میں اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف کیا جائے۔
اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ‘مضحکہ خیز اور جھوٹی’ قرار دیا۔
اسرائیل میں رہنے والے عربوں کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے اُن کی زمینیں اسرائیلی حکومت چھین رہی ہے۔
وہ اسرائیلی حکومت پر قومی بجٹ میں اُن کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنے کا بھی الزام لگاتے ہیں۔
‘دوسرے درجے کے شہری’
اسرائیل میں مختلف گروہوں پر مختلف قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اسرائیلی شہریت کے حصول کے قوانین میں یہودیوں کو ترجیح دی جاتی ہے جنھیں صرف یہودی ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ مل جاتا ہے پھر چاہے اُن کی پیدائش کہیں بھی ہوئی ہو۔
اس کے برعکس اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے فلسطینیوں اور اُن کے بچوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔
سنہ 2018 میں اسرائیل کی پارلیمان کنیسیٹ نے متنازع ‘ریاستی شہریتی قانون’ منظور کیا جس کے تحت عربی زبان کو حاصل سرکاری زبان کا درجہ ختم کر دیا گیا جبکہ عبرانی زبان کا سرکاری زبان کا درجہ باقی رہا۔
اس کے علاوہ قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘قومی خود ارادیت کا حق صرف یہودی لوگوں کے لیے ہے۔’
کنیسیٹ کے رکن ایمن عودہ نے اس وقت کہا تھا کہ اسرائیل نے ‘یہودی بالادستی’ کا قانون منظور کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ عربوں کو اسرائیل میں ہمیشہ ‘دوسرے درجے کا شہری’ تصور کیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے شہری حقوق کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا مگر کہا تھا کہ ‘فیصلہ اکثریت کرتی ہے۔’
Comments are closed.