اسرائیلی اور فلسطینی والد جو اپنی بیٹیوں کی ہلاکت کے بعد ’بھائیوں جیسے دوست‘ بن گئے

Bassam's daughter Abir and Rami's daughter, Smadar

،تصویر کا ذریعہBassam Aramin / Rami Elhanan

فلسطینی مسلمان بسام ارامین اور اسرائیلی یہودی رامی ایلہنان نے اسرائیل حماس جنگ کے دوران اپنی جوان بیٹیوں کو کھویا ہے۔

دونوں اسرائیل میں رہتے ہیں جہاں اکثر افراد یہی سمجھیں گے کہ اس سانحے کے بعد وہ ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہوں گے لیکن بدلہ لینے کی بجائے بسام اور رامی نے ایک مختلف راستہ ڈھونڈا ہے، دوستی اور امن کا۔

ایک اسرائیلی فوجی نے بسام کی بیٹی ابیر کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا تھا جب ان کی عمر صرف 10 سال تھی جبکہ رامی کی بیٹی سمادر 14 سال کی عمر میں حماس کی جانب سے کیے گئے خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

بسام اور رامی کا کہنا ہے کہ ’ناقابلِ برداشت درد‘ کے باعث دونوں ’بھائیوں‘ کے درمیان انتہائی مضبوط دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔

رامی نے سوال کیا کہ ’ہم جانور نہیں ہیں ہم اپنا ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ اور پھر آپ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ کیا کسی کو مارنے سے میری بیٹی واپس آ جائے گی؟‘

بسام کہتے ہیں کہ ’اگر آپ زمین سے صرف اسرائیلیوں کو ہی نہیں تمام یہودیوں کو بھی مٹا دیں تو مجھے میری بیٹی واپس نہیں مل سکتی۔‘

Bassam Aramin (left), and Rami Elhanan (right) sitting and holding a picture of their daughters

،تصویر کا ذریعہRami Elhanan

والدین کا سرکل

جب ان کی بیٹی ہلاک ہوئیں تو دونوں نے والدین کے لیے بنائے گئے ایک ایسے سرکل کا حصہ بنے جس میں ایسے افراد شامل تھے جنھوں نے اس تنازع میں اپنے بچے کھوئے تھے۔

رامی اسرائیلی فوج میں ایک سابق فوجی تھے اور بسام کو ایک لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

رامی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اس دنیا میں جس شخص کے سب سے قریب ہوں وہ بسام ہیں۔۔۔ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں ان سے متاثر ہوں اور ان سے ہمت حاصل کرتا ہوں۔‘

بسام کو جوانی میں اسرائیلیوں پر گرینیڈ پھینکنے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا تاہم ان کا رامی کے ساتھ رویہ اپنے بھائیوں جیسا ہے۔

بسام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم دونوں بھائی ہیں۔ ہمارا رشتہ اس تنازع سے بالاتر ہے کیونکہ ہمارے اقدار ایک جیسے ہیں۔ ہمیں انسانوں اور عام شہریوں کا خیال ہے، ہمیں جمہوریت اور آزادی کا خیال ہے۔‘

 Rami with his daughter laughing while looking at her birthday cake

،تصویر کا ذریعہRami Elhanan

تشدد کا دائرہ

اسرائیل غزہ پر سات اکتوبر سے بمباری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے مطابق ایک ماہ پہلے ہونے والے حماس کے حملے میں 1400 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔

بسام اور رامی اس مسلسل جاری رہنے والے تنازع کو ’تشدد کا دائرہ‘ قرار دیتے ہیں۔

Bassam Aramin standing in a doorway with photos of his daughter and Ram's daughter hanging on his wall

،تصویر کا ذریعہBassam Aramin

سمادر کی ہلاکت کا واقعہ

یہ چار ستمبر 1997 کی بات ہے۔ سمادار یروشلم میں اپنے دوستوں کے ساتھ شاپنگ کر رہی تھیں جب ایک دھماکہ ہوا۔ رامی اور ان کی اہلیہ نوریت نے کئی گھنٹے تک اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔

رامی اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہیں، پولیس تھانوں میں جاتے ہیں۔ پھر آخرکار اس رات گئے آپ ایک مردہ خانے میں کھڑے ہوتے ہیں اور پھر بس۔۔۔ آپ ایک ایسا نظارہ دیکھتے ہیں جسے آپ اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی نہیں بھلا سکتے۔

’آپ کو جس قسم کا غصہ آتا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ اور اصل یہی درد ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ ہر منٹ کے 59 سیکنڈ آپ کے ساتھ رہتا ہے۔‘

اسرائیلی گولی بسام کی بیٹی کو کیسے لگی؟

رامی اور بسام کی پہلی مرتبہ سنہ 2005 میں ملاقات ہوئی تھی جو ایک امن قائم کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے کی تقریب میں ممکن ہو سکی۔

چھ جنوری 2007 کو بسام کی 10 سالہ بیٹی ابیر کو مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیلی فوجی کی جانب سے چلائی گئی ربر کی گولی لگی اور اور وہ بری طرح سے زخمی ہو گئیں۔

Mourners at the funeral for Bassam's daughter, holding pictures of her

،تصویر کا ذریعہBassam Aramin

وہ دو روز بعد ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔ بسام کہتے ہیں کہ ’مجھے غصہ آتا ہے اور میں آج تک اس بارے میں غصے میں ہوں کیونکہ ہم سب انسان ہیں اور غصہ آنا ایک فطری عمل ہے۔‘

’بدلہ لینے سے درد کم نہیں ہوتا‘

بسام کہتے ہیں کہ ’لیکن میرا ماننا ہے اور میں یہ جانتا ہوں کہ بدلہ لینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سے میری بیٹی واپس نہیں آئے گی۔‘

رامی اور ان کی اہلیہ بسام اور ان کے خاندان کے ساتھ ہسپتال میں موجود تھے اور وہاں والدین کے سرکل کی نمائندگی کر رہے تھے۔

Bassam and Rami (right)

،تصویر کا ذریعہRami Elhanan

رامی کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ تجربہ ایسا تھا جیسے میں نے اپنی بیٹی کو دوسری مرتبہ کھو دیا ہے۔‘

دو روز بعد بسام نے دی پیرنٹس سرکل میں شمولیت اختیار کر لی۔

’تشدد کے دائرے‘ کو توڑنے کی ضرورت

بسام اور رامی اب ایک ٹیم بن کے کانفرنسز اور ریلیوں میں بات کرتے ہیں۔ بسام کہتے ہیں کہ ’اگر قبضہ نہ کیا جاتا تو ہمیں ایک دوسرے کو مارنے کی ضرورت نہ ہوتی اور یہ نسل در نسل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ خون کا ایک سمندر بہہ چکا۔ اب بہت ہو چکا۔‘ یہاں بسام دراصل سنہ 1948 میں اس خطے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت تک فلسطین تھا۔

اسرائیلی یہودی کے لیے ’قبضے کرنے والی قوم‘ کا ذکر کرنا غیر معمولی ہے تاہم رامی اسرائیل کو ایسے ہی پکارتے ہیں۔

’ایک نسل کے لوگوں کا دوسری پر حاوی ہونا غیر معمولی ہے۔ اس کے علاوہ اس صورتحال میں قابض اسرائیلی غیر معمولی قوت ہیں۔ ہم نے اس صورتحال کے باعث اپنے بچے کھو دیے اور ہمیں اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

David Ben Gurion Standing alongside the Star of David reading from a piece of paper

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دونوں عموماً نوجوانوں سے بات کرتے ہیں، دونوں اطراف میں ہائی سکول کے بچوں سے۔ رامی کے مطابق ’یہ کسی آتش فشاں کے دہانے پر قدم رکھنے کے مترادف ہے۔۔۔ ان دونوں قوموں کے درمیان ایک خون کا سمندر موجود ہے اور بہت زیادہ جذبات بھی۔

’اس دوران ہمیں بہترین ردِ عمل ملا ہے۔ کبھی کبھار یہ بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ الزامات لگائے جاتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں اور انتہائی جارحانہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس کلاس کے آخر میں اگر صرف ایک بچہ بھی اس پیغام کے حق میں اپنا سر ہلا رہا ہو تو یہ معجزے سے کم نہیں۔

’ہم نے خون کا ایک قطرہ بچا لیا۔ آپ کو پتا ہے کہ یہودی مذہب میں ایک خون کا قطرہ پوری دنیا کے برابر سمجھا جاتا ہے۔‘

معاف کر دینا

حماس کے حملے کے بعد اسرائیل جوابی کارروائی کے بعد سے رامی کے مطابق امن کی بات کرنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت فضا غم سے بہت بوجھل ہے۔‘

رامی بتاتے ہیں کہ انھیں لوگوں کی جانب سے نفرت انگیز پیغامات موصول ہوتے ہیں۔

’حماس کو کسی مکھی یا مچھر کی طرح نہیں ختم کیا جا سکتا۔ حماس ایک نظریے کا نام ہے۔ آپ کو جوہڑ کی صفائی کرنی ہے، مچھروں کو مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

Bassam and Rami (right)

،تصویر کا ذریعہRami Elhanan

دیرپا امن

رامی اور بسام دونوں ہی اپنی زندگیوں میں دیرپا امن دیکھنے کے متمنی ہیں۔ بسام کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی بیٹی کے قاتل سے عدالت میں ملا۔ میں اسے بھی ایک متاثرہ شخص کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میں اس سے کہا کہ۔۔۔ ’تم نے کسی دشمن یا دہشتگرد کو قتل نہیں کیا، تم نے ایک 10 سالہ معصوم بچی کو ہلاک کیا۔‘

’وہ اپنی تعلیم، اپنے نظریے اور اپنی تاریخ کا شکار ہوا۔‘

انھوں نے یہ پیغام صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام ایسے لوگوں کو دیا جو کسی تنازع یا جنگ کا حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب آپ خود کو اس نفرت اور بدلے کی آگ سے آزاد کر لیتے ہیں تو آپ ایک آزاد شخص بن جاتے ہیں۔ آپ کو کوئی قید نہیں کر سکتا اور آپ کا کوئی دشمن نہیں ہوتا جس پر آپ نے فتح حاصل کرنی ہو۔

’میں کوئی بزدل شخص نہیں ہوں۔ مجھے اگر بدلا لینا ہو تو میں کسی بھی رحم کے بغیر ایسا کر سکتا ہوں۔ لیکن اس سے کیا تبدیل ہو گا؟ کچھ بھی نہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ