اسرائیلی اور اطالوی خفیہ ایجنٹوں کی کشتی کے حادثے کا معمہ جس میں زندہ بچ جانے والے غائب ہو گئے
- مصنف, صوفیہ بٹیزا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، روم
28 مئی کو سوئٹزر لینڈ کی ایک جھیل میں ڈوبنے والی کشتی کی کہانی کسی جاسوسی ناول جیسی ہے۔
اس خوبصورت جھیل پر ہونے والے اس حادثے میں چار افراد ڈوب گئے تھے جن میں سے ایک اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا سابق ایجنٹ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے دو اطالوی انٹیلیجنس افسران تھے جبکہ ایک روسی خاتون تھیں۔
اس جھیل کی سیر کرنے والی اس چھوٹی سی کشتی میں مجموعی طور پر 23 افراد سوار تھے۔ ان تمام افراد کے لیے یقینا یہ ایک ہولناک تجربہ تھا لیکن اس کیس سے جڑے چند حقائق نے افواہوں کو جنم دیا ہے کہ دراصل ہوا کیا۔
واضح رہے کہ لیگ میگیوری نامی جھیل شمالی اٹلی اور جنوبی سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر موجود ہے۔
اٹلی کا لومبارڈی خطہ اس جھیل سے متصل ہے جہاں ایسی متعدد کمپنیاں موجود ہیں جو عسکری ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہیں۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ کو خفیہ ایجنسیوں سے منسلک افراد یورپ میں سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کشتی پر سوار بہت سے افراد اطالوی اور سوئس شہریت رکھتے تھے۔ مقامی اخبار کوریری ڈیلا سیرا کے مطابق اس علاقے میں اطالوی اور اسرائیلی حکومت کو نقل وحرکت کی آزادی ہے۔
ایک جانب جہاں چند خبروں کے مطابق اس کشتی پر سوار افراد صرف سیاحت کے لیے آئے تھے، وہیں متعدد اطالوی خبررساں اداروں نے کہا ہے کہ دراصل اس کشتی پر اطالوی اور اسرائیلی جاسوسوں کی خفیہ ملاقات ہو رہی تھی۔
’ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی‘
اس حادثے میں لوگوں کی کافی دلچسپی ہے اور اطالوی پبلک پراسیکیوٹر کارلو نوکیرینو کو تفتیش کا کام سونپا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشتی پر سوار 13 افراد اطالوی خفیہ ایجنٹ تھے جبکہ آٹھ افراد اسرائیلی ایجنٹ تھے۔
ان کے مطابق صرف کشتی کے کپتان کلاڈیو کارمیناٹی اور ان کی روسی بیوی کسی خفیہ ادارے کے لیے کام نہیں کرتے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ اس کشتی پر کسی کی سالگرہ منانے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اچانک 70 کلومیٹر کی رفتار سے آنے والا ایک طوفان اس سے ٹکرایا۔
اطالوی اخبار کوریری ڈیلا سیرا کو کشتی کے کپتان نے بتایا کہ ’30 سیکنڈ میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ کشتی الٹ گئی اور ہم سب پانی میں جا گرے۔‘
کلاڈیو کارمیناٹی نے تفتیش کرنے والوں کو بتایا ہے کہ اس دن برے موسم کی کوئی پیش گوئی نہیں تھی۔ تاہم کشتی کی واپسی کا وقت ہو جانے کے باوجود وہ کیوں نہیں لوٹے؟
ان کے خلاف کشتی کو ڈبونے اور قتل کے الزام کے تحت تفتیش ہو رہی ہے۔ ان کی 50 سالہ اہلیہ، اینا بوزخووا، کے پاس اٹلی میں مستقل رہائش کا پرمٹ تھا۔
ہلاک ہونے والے دیگر افراد میں 53 سالہ تیزیانا بارنوبی اور 62 سالہ کلاڈیو الونزی شامل ہیں۔ دونوں ہی اطالوی خفیہ ایجنسی کے رکن تھے۔
50 سالہ سیمونی ایریز بھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔ وہ موساد، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی، کے سابق رکن تھے۔ ان کا نام اطالوی میڈیا نے شائع کیا جبکہ اسرائیلی میڈیا میں ان کا نام شائع نہیں کیا گیا۔
کشتی میں سوار چند افراد تیر کر ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ چند کو دوسری کشتیوں نے بچایا۔ ہلاک ہونے والوں کی موت کی وجہ پانی میں ڈوبنا بتایا گیا ہے اگرچہ اطالوی میڈیا کے مطابق پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔
بچ جانے والے غائب ہو گئے
اطالوی میڈیا کے مطابق اس پراسرار کہانی میں ایک معمہ یہ بھی ہے کہ حادثے میں زندہ بچ جانے والے اس جگہ سے جانے کی جلدی میں تھے۔
اطالوی میڈیا کے مطابق ان افراد نے ہوٹل کے کمروں یا ہسپتال سے اپنا سامان اٹھایا اور روانہ ہو گئے۔ ہسپتال میں ان افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جن کا علاج کیا گیا۔
اسرائیلی شہریت رکھنے والوں نے اپنی کرائے کی گاڑیاں بھی پیچھے ہی چھوڑ دیں اور سوموار کو انھیں ایک خصوصی اسرائیلی طیارے کے ذریعے واپس لے جایا گیا۔
ان اسرائیلی خفیہ ایجنٹوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تاہم پبلک پراسیکیوٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی شناخت ظاہر نہ کرنا معمول کی بات ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے آفس نے بدھ کے دن تصدیق کی کہ ہلاک ہونے والا اسرائیلی شخص موساد کا سابق رکن تھا۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ’موساد نے ایک دوست کھو دیا، ایک ماہر رکن جس نے اپنی زندگی دہائیوں تک اسرائیل کی ریاست کی سکیورٹی کے لیے وقف کی۔‘
بیان میں مذید کہا گیا کہ ’ایجنسی کے لیے ان کی خدمات کی وجہ سے ان کی شناخت پر زیادہ بات کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
کیا کشتی میں زیادہ لوگ سوار تھے؟
متاثرہ کشتی کو اب تک جھیل سے نہیں نکالا گیا۔ پبلک پراسیکیوٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسی وجہ سے تفتیش بھی شروع نہیں ہو سکی۔
انھوں نے بتایا کہ فی الحال کشتی جھیل میں پھنسی ہوئی ہے اور اسے باہر نکالنے میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیں۔
ان کے مطابق کشتی پر 15 افراد کی جگہ تھی لیکن مقررہ تعداد سے آٹھ افراد زیادہ اس پر سوار تھے۔
میڈیا کے مطابق اسی وجہ سے کشتی کے کپتان کے لیے اچانک سے جنم لینے والے موسمی حالات میں اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
اس بات کی بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ افراد کو کشتی میں سوار ہونے کی اجازت کیوں دی گئی اور کیا ایسے موس میں اسے جھیل میں جانا چاہیے تھا۔
Comments are closed.