جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

’اسرائیلیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ٹک ٹاک اتنا مؤثر پلیٹ فارم ثابت ہوگا‘

فلسطین اسرائیل تنازع کو سوشل میڈیا پر پھیلانے میں ٹک ٹاک نے کیسے کردار ادا کیا؟

  • ٹوبی لاکہرسٹ
  • بی بی سی نیوز

فلسطین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جہاں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع شدت اختیار کر رہا ہے وہاں ٹک ٹاک صارفین اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

وائرل ڈانس کلپس کے باعث مقبول ہونے والی یہ ویڈیو ایپ اب خبروں کے پھیلاؤ کا ایک بڑا پلیٹ فارم بن گئی ہے۔

اس چینی ایپ پر بے شمار صارفین موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر نوجوان ہیں۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس ایپ پر ماہانہ تقریباً 73 کروڑ متحرک صارفین موجود ہوتے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے ہونے والی تباہی، اسرائیل پر حماس کی جانب سے فائر کیے گئے راکٹوں اور فلسطین کے حق میں مظاہروں کی تصاویر اس ایپ پر بڑے پیمانے پر شائع کی گئیں۔

اس تنازعے نے فلسطین اور اسرائیل کے لوگوں کو پوری دنیا میں صارفین کی سکرینوں تک پہنچا دیا ہے۔

تاہم یہاں یہ خدشات ضرور پائے جاتے ہیں کہ ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کو جھوٹ یا انتہا پسندی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حالیہ لڑائی سے قبل ٹک ٹاک پر تناؤ

غزہ اور اسرائیل میں تشدد کی حالیہ لہر سنہ 2014 کے بعد سے بدترین تصور کی جا رہی ہے۔

تشدد کے یہ واقعات مشرقی یروشلم میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے کچھ ہی ہفتوں بعد سامنے آئے ہیں۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تنازع میں شدت آنے سے قبل فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ٹک ٹاک پر تناؤ میں اضافہ ہو چکا تھا۔

اپریل میں مشرقی یروشلم میں نوجوانوں کی ایک ویڈیو کلپ ٹک ٹاک پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک بس میں دو یہودی لڑکوں کو تھپڑ مارتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پولیس نے اگلے ہی ہفتے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد ٹک ٹاک پر بھی فلسطینیوں کے احتجاج کی ویڈیوز آنی شروع ہو گئیں اور پوری دنیا کے صارفین نے #SaveShekhJarrah کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے مشرقی یروشلم سے فلسطینی خاندانوں کے انخلا سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کیں۔

کتاب ‘دی سوشل میڈیا بوم: دی ریس بٹوین چائنا، امیریکہ اینڈ گریٹ پاورز ٹو کنٹرول اٹ’ کے مصنف سٹوکلی واکر کا ماننا ہے کہ ٹک ٹاک کے استعمال میں آسانی اور اس کی بے حد مقبولیت کے باعث یہ مواد کو تیزی سے پھیلانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

واکر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس ایپ کے ذریعے ویڈیو بنانا انتہائی آسان ہے، چاہے آپ 12 سال کے ہیں یا 90 برس کے، آپ خود بہت آرام سے ویڈیو بنا سکتے ہیں اور اس کے لیے تکنیکی مہارت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔’

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اس کی وجہ اس پر موجود صارفین کی بڑی تعداد بھی ہے۔ اس ایپ میں تقریباً 73 کروڑ ماہانہ متحرک صارفین موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ مواد شائع کرتے ہیں تو ظاہر ہے بہت سارے لوگ اسے دیکھ پائیں گے۔’

ٹِک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹوئٹر کے صارفین اسرائیل، فلسطین کشیدگی سے متعلق فوٹیج ہیش ٹیگ سیو شیخ جراح کے ساتھ شائع کر رہے ہیں اور ساتھ ہی غزہ میں زمینی صورتحال سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر بھی شائع کر رہے ہیں۔

اسی ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم مسلم نیوز ویب سائٹ نے ایک ویڈیو کلپ شائع کیا ہے جسے ٹک ٹاک پر اب چار کروڑ 40 لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔ اس ویڈیو میں کیے گئے دعووں کے مطابق لوگ غزہ میں اسرائیلی حملوں سے فرار ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

صبرینہ ابو خدیر نامی ایک صارف کی ویڈیو کو 15 لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں اور اس میں غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو تباہ ہوتے اور فلسطینی بچوں کو روتے دیکھا جا سکتا ہے۔

صبرینہ نے لوگوں کو ویڈیو شیئر کرنے کی تاکید کرتے ہوئے لکھا: ‘آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔’

دوسری جانب اسرائیل کے حامیوں نے بھی ٹک ٹاک کا سہارا لیا اور ایک ویڈیو شیئر کی جس میں مبینہ طور پر ایک اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی خاتون کو فلسطینی مظاہرین کے پتھراؤ سے بچا رہا ہے۔

اس کلپ کو 15 لاکھ سے زیادہ افراد دیکھ چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے انٹرنیٹ پر خاصے مقبول اکاؤنٹس ہیں۔ ان کے ٹوئٹر پر 13 لاکھ اور ٹک ٹاک پر 70 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں، جہاں وہ اسرائیل کے اندر سے اپنی افواج کی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔

فلسطین

،تصویر کا ذریعہReuters

ایک ویڈیو جسے ٹِک ٹاک پر تین لاکھ سے زیادہ افراد نے دیکھا اس پر دیکھنے والوں سے پوچھا گیا، ‘اگر یہ آپ کا شہر ہوتا تو آپ کیا کرتے؟’

اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر گیبریئل ویمین کا کہنا ہے کہ یہ انٹرنیٹ صارفین کے ‘دلوں اور دماغوں’ کو مسخر کرنے کی جنگ بھی ہے لیکن یہ ‘برابری کی جنگ نہیں ہے۔’

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘اسرائیل کی طرف سے بھی آپ کو جوابی ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تاہم میرے نزدیک یہ کم طاقتور اور غیر منظم ہے، اور اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو اس کے ذریعہ لوگوں کو اپنی بات پر قائل نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اس لیے کہ اسرائیل میں کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ٹک ٹاک ایک طاقتور اور اہم پلیٹ فارم ثابت ہو گا۔’

اس ماہ ٹک ٹاک اور ٹوئٹر دونوں پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوئی جس میں مسجد الاقصیٰ میں ایک درخت جل رہا ہے اور مبینہ طور پر یہودی ناچ رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں۔ دونوں ہی ایپس پر موجود صارفین کے مطابق یہ دراصل اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یہودی ہیں جو مسجد کی تباہی پر جشن منا رہے ہیں۔

جبکہ حقیقت میں وہ یوم یروشلم منانے جمع ہوئے تھے اور اس آگ کے باعث مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ مظاہرین کے مطابق یہ آگ اسرائیلی پولیس کے استعمال کیے گئے دستی بم کی وجہ سے لگی جبکہ اسرائیلی پولیس کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ فلسطینی مظاہرین کی طرف سے کی جانے والی آتش بازی تھی۔

گذشتہ جمعرات کی شام، اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے فیس بک اور ٹِک ٹِک سے ایسی پوسٹس ہٹانے کا مطالبہ کیا جو ان کے مطابق صارفین کو تشدد پر اکسا رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘ان اقدامات سے براہِ راست تشدد کی کارروائیوں کو روکا جا سکے گا، جو ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کے خواہاں انتہا پسند عناصر کی جانب سے جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جاتے ہیں۔ ہم ہنگامی صورتحال میں ہیں اور ہمیں آپ سے مدد کی توقع ہے۔’

اسرائیل نیشنل نیوز ویب سائٹ کے مطابق دونوں کمپنیوں کے سربراہان نے ‘اشتعال انگیزی کو روکنے کے لیے جلد اور مؤثر طریقے سے کام کرنے کا وعدہ کیا۔’

شیدانے اربانی فرسٹ ڈرافٹ نیوز کے لیے کام کرتے ہیں جو انٹرنی پر غلط اور گمراہ کُن معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جو چیزیں ہم نے دیکھی ہیں ان میں سے بہت ساری پرانی ویڈیوز ہیں جن کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا۔ ماضی میں لکھی گئی ایسی تحریریں جو کسی اور ملک کے بارے میں تھیں انھیں بھی ابھی پھیلایا جا رہا ہے۔’

نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کی ایک مثال ایسی ویڈیو ہے جس میں فلسطینیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک جعلی جنازے میں شریک ہیں۔

ٹک ٹاک پر اس ویڈیو ٹک ٹاک پر اس ویڈیو کو لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا جس میں دکھایا گیا کہ سائرن بجتے ہی جنازے میں شریک افراد میت کو پھینک کر وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا، اور میت کے طور پر دکھایا گیا شخص بھی ان کے ساتھ بھاگنے لگا۔

جبکہ نیو یارک ٹائمز کے مطابق، اصل ویڈیو ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی ہے، اور اس کو یوٹیوب پر یہ کہہ کر شائع کیا گیا ہے کہ ’اردن کا ایک خاندان جعلی جنازے میں شریک ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.