اسرائیل، حماس جنگ بندی کا ثالث: قطر کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عارف شمیم
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، لندن
اسرائیل اور حماس کے مابین ثالثی کے کردار ادا کرنے والے ملک قطر نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں عارضی جنگ بندی میں مزید ایک روز کی توسیع کی گئی ہے۔
قطری حکام نے کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری بات چیت اگلے 24 گھنٹے کے دوران بھی جاری رہے گی جبکہ سیزفائر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی یعنی عارضی جنگ بندی جاری رہے گی۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی قطر کی ثالثی ہی کے باعث ممکن ہو پائی تھی۔ تاہم یہ پہلا ایسا موقع نہیں ہے کہ قطر کسی بڑے تنازع میں ثالث بن کر اُبھرا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا یہ چھوٹا سا ملک گذشتہ دو عشروں سے ایشا اور افریقہ میں ہونے والے تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اس چھوٹے سے ملک جس کے مجموعی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، کی ’سفارتی‘ فتوحات کی فہرست تو کافی لمبی ہے لیکن یہاں چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔
قطر کی سفارتی فتوحات
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قطر کی ثالثی میں ہونے والی عارضی جنگ بندی کے دوران اب تک 97 یرغمالیوں جبکہ 200 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہائی مل چکی ہے، جبکہ امدادی سامان سے لدے سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے
قطر نے سنہ 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا، یہ اور بات ہے کہ اس ثالثی کے بعد یمن کی لڑائی میں شدت آئی اور اب بھی کسی نہ کسی انداز میں یہ لڑائی جاری ہے۔
اسی طرح قطر نے لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی ثالثی کی جس کے نتیجے میں سنہ 2009 میں لبنان میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ سنہ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات بھی قطر کی ثالثی میں ہوئے جبکہ جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری، جسے افریقی اتحاد نے بھی بہت سراہا۔
یہی نہیں بلکہ سنہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی قطر نے ’دارفور معاہدہ‘ کروایا جسے ’دوحہ معاہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
سنہ 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر کا بڑا ہاتھ تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی دوحہ میں ہی ہوئے لیکن جس ثالثی کا آج کل سب سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔
اسرائیل اور حماس میں ثالثی سے قبل قطر نے طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ بھی اپنی ثالثی میں کروایا جس کی وجہ سے افغانستان میں دو عشروں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوا ۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت امریکہ نے مقررہ تاریخ تک افغانستان سے نکلنا تھا۔ اگرچہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ امریکہ کے جانے کے بعد کابل پر کون حکومت کرے گا۔ امریکی افواج کی افغانستان کی سرزمین سے باہر جاتے ہیں طالبان نے ایک بار پھر کابل پر اپنا تسلط جما لیا۔
قطر کامیاب ثالث کیسے بنا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ بھی قطر کی ثالثی میں ہوا تھا
عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق قطر ایک ایسا ملک ہے جو سنی اور شیعوں دونوں سے بات کر سکتا ہے۔ ’قطر سعودی عرب سے بات کر سکتا ہے ، امریکہ اور اسرائیل سے بھی کر سکتا ہے حتیٰ کہ نان سٹیٹ ایکٹرز سے بھی بات کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ قطر نے اپنے لیے ایک ایسی پوزیشن بنائی ہے کہ وہ ہمیشہ امن کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور دنیا کو بھی قطر کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق آنے والے برسوں میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں قطر کا اثرو رسوخ بڑھے گا۔
صحافی خدائے نور ناصر کا کہنا ہے کہ قطر کے موجودہ حکمران شیخ تمیم بن حماد الثانی کی کوشش ہے کہ وہ نہ صرف خطے میں ثالث کا کردار ادا کریں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کریں۔ خدائے نور کے مطابق ثالثی کی کوششوں کے سلسلے میں قطر کو امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے۔
امریکی اتحادی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قطر امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور قطری دارالحکومت دوحہ میں سینٹکوم یا سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر بننے کے بعد مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑے امریکی اڈے کا قیام ہوا جہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی رہ رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے علاوہ قطر امریکہ کا سب سے بڑا دوست ہے جس کا مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جیسا کہ سعودی عرب، کویت، عمان، اور متحدہ عرب امارات نہیں کر سکتے تھے۔
سعودی قیادت میں گلف کوآپریٹو کونسل کا رکن ہونے کے باوجود قطر کے ایران کے ساتھ تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے جبکہ اس کے حماس اور اخوان المسلیمن کے ساتھ بھی نظریاتی تعلقات ہیں۔
ثالثی کی انھی کوششوں کے دوران ماضی میں قطر ایسی تنظمیوں کے رہنماؤں کی میزبانی بھی کرتا رہا ہے جنھیں امریکہ اور یورپی ممالک دہشتگرد تنظمیں گردانتے ہیں۔
قطر غزہ کو مالی امداد فراہم کرنے کے علاوہ دوحہ میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کی میزبانی بھی کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسا اس نے افغان طالبان کے لیے کیا تھا۔ اگرچہ قطر کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، لیکن باضابطہ تجارتی اور ثقافتی رابطے ضرور ہیں۔
تاہم ایسا نہیں کہ سب اچھا ہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو قطر کی سفارتی معاونت پر اعتماد تو ہے لیکن انھیں قطر کے حماس کے ساتھ تعلقات ناپسند ہیں جس کا ماضی میں اظہار بھی کیا گیا۔
قطر کا اصل امتحان اپنے مفادات اور دیگر ممالک سے تعلقات میں احتیاط سے توازن قائم رکھنا ہے کیونکہ یہ خطہ غیر مستحکم اور پیچیدہ ہے۔
Comments are closed.