کلاسیکی موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے 48 برس بیت گئے ہیں آج بھی ان کی موسیقی کانوں میں رس گھولتی ہے۔
ابن انشاء کی غزل ’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا‘ گانے کے بعد جب وہ خود اس جہان فانی سے کوچ کرگئے تو ان کی موت لوک داستان کا روپ اختیار کر گئی۔
اُن کے چاہنے والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پریاں اور اپسرائیں اُن کی موسیقی پر عاشق ہو جایا کرتی تھیں۔
استاد امانت کی حسین زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے جب انھیں محسوس ہوا کہ ان کے سامعین جنات اور پریاں ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل انہوں نے اپنے باقاعدہ فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا اور کم عمری ہی میں ٹھمری اورغزل میں مہارت حاصل کرلی۔
وہ بھارتی پنجاب کے مشہور شہر پٹیالہ میں 1922 میں پیدا ہوئے تھے اور پھر قیام پاکستان کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئے۔
استاد امانت علی خان کو فنی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
فن موسیقی کے استاد 17 ستمبر 1974 کو 52 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ استاد امانت علی خان کی موت ایک ثقافتی سانحہ تھا۔
وہ اپنے فن کی وجہ سے آج بھی اپنے لاکھوں پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
Comments are closed.