بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اسامہ ستی قتل کیس، دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کا فیصلہ کالعدم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے اسامہ ستی قتل کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

عدالتِ عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل بینچ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ جاری کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو ٹرائل میں شواہد ریکارڈ کرنے اور دائرۂ اختیار طے کرنے کی ہدایت کر دی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے پولیس کے انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ کی فائرنگ سے قتل ہونے والے 21 سالہ نوجوان اسامہ ستی کے کیس کے ملزمان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

مقتول اسامہ ستی کے والد نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا 12 اپریل کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کو چاہیئے تھا کہ وہ عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ شواہد ریکارڈ کرنے تک مؤخر کرتی۔

جاری کیئے گئے فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست زیرِ التواء تصور کی جائے، پٹیشنر کے مطابق نوجوان کو پولیس اہلکاروں نے 17 گولیاں ماریں۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے طالب علم اسامہ ستّی کے قتل کے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات خارج کر دیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ اسامہ ستی غیر مسلح تھا، جوڈیشل انکوائری میں بھی پولیس اہلکاروں کے خلاف فائنڈنگز دی گئیں۔

تحریری فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللّٰہ نیازی نے بھی دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی مخالفت کی ہے، ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق تفتیشی افسر اور جوڈیشل انکوائری افسر نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق پولیس اہلکاروں کا قتل کے واقعے سے ایک روز قبل مقتول سے جھگڑا بھی ہوا تھا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.