
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا جبکہ اسپیشل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ کی سرزنش کی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے پبلک کی؟ پتہ کریں کہ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث ہے؟
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بغیر تصدیق پبلک کر دی گئی، کسی نے یہ رپورٹ جان بوجھ کے پبلک کی ہے، پاکستان میں تحقیقات میں غلطیاں ہوئی ہیں۔
سپریم کورٹ نے سربراہ جے آئی ٹی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جو کام آپ کے ذمے لگایا تھا وہ ہوا یا نہیں؟ کینیا سے قتل کے متعلق کوئی مواد ملا ہے یا نہیں؟ جے آئی ٹی کے باقی ارکان کہاں ہیں؟
جے آئی ٹی نے دوسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔
اسپیشل جے آئی ٹی کے سربراہ اویس احمد نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ کینیا میں حکام سے ملاقاتیں کیں، کینیا نے شواہد تک رسائی نہیں دی، ارشد شریف قتل کے حوالے سے کینیا سے کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا، مقتول کے موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہیں، جبکہ ان کا باقی سامان موصول ہو چکا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ عدالت نے رپورٹ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہوا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اگر کسی ملک سے تعلقات بہت اچھے نہ ہوں تو تحقیقات کے لیے تعاون کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کینیا آزاد ملک اور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے، جو بھی حالات ہوں دوسرے ملک کے بارے میں احترام سے بات کیجیئے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اسپیشل جے آئی ٹی کو اب تک کیا ملا ہے؟ بتایا جائے کہ اسپیشل جے آئی ٹی آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ ارشد شریف قتل کا قبل ازقت کسی پر الزام عائد نہیں کر سکتے۔
Comments are closed.