اردوغان کا یہ اقدام بہت سے لوگوں کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر پر اس لیے خاموش رہا کیونکہ وہ برکس گروپ میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔برکس گروپ میں برازیل، روس، انڈیا ، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں اور انڈیا اس گروپ کا بانی رکن ملک ہے۔آج کل اس گروپ کی توسیع کی بات ہو رہی ہے اور کئی ممالک نے اس میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ترکی بھی شامل ہے۔منگل کو اقوام متحدہ کی 79ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے کہا تھا کہ ہم برکس ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ’ہم اس سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے قریب آ سکیں گے۔‘مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات اس سال جنوری میں برکس میں شامل ہوئے تھے۔ اگلے ماہ 22 سے 24 اکتوبر تک روس میں برکس کا سالانہ سربراہی اجلاس ہو رہا ہے اور توقع ہے کہ تمام رکن ممالک اس میں شرکت کریں گے۔،تصویر کا ذریعہ@CMShehbaz
ترکی کے اس اقدام پر پاکستان میں لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کے علاوہ ترکی واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ لیکن اس بار پاکستان بھی ترکی کے اقدام سے حیران ہے۔پاکستانی صحافی ماریانہ بابر نے ایکس پر لکھا کہ ’اردوغان نے اقوامِ متحدہ سے خطاب میں کشمیر کا ذکر نہ کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے۔‘ وہ پوچھتی ہیں کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وزیر شیریں مزاری نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’یہ ہماری سفارت کاری کی ناکامی ہے۔ 2019 سے ترک صدر ہر سال یو این جی اے میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اٹھاتے تھے کیونکہ اس وقت کی حکومت پاکستان عالمی سطح پر فرنٹ فٹ پر تھی۔ ’اب صورتحال سب کے سامنے ہے۔‘
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے لکھا ہے کہ ’سالوں سے پاکستانی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ’کشمیر تنازع‘ کو حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کو چھوڑیں، یو این جی اے کے 193 ممبران میں سے کسی نے بھی کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔‘ وہ پوچھتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے جذبات کتنے حقیقی ہیں؟صحافی راضی طاہر نے اسے ’پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’اقوام متحدہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہی نہیں ہوئی، 2019 کے بعد پہلی بار ترکی کے صدر رجب طیب اردون نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں کیا۔ گذشتہ پانچ سالوں میں اردوغان پاکستان کے علاوہ واحد سربراہ مملکت تھے جنھوں نے لگاتار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تھا۔‘Twitter پوسٹ نظرانداز کریںTwitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتاممواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک گئے ہیں۔ وہاں انھوں نے اس ہفتے ترک صدر سے ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے شہباز شریف نے کیپشن لکھی ’پاکستان کے بہترین دوست اور میرے بھائی صدر اردوغان سے ملاقات۔ ہم دونوں نے عالمی مسائل پر ایک دوسرے کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔‘پاکستان کی سابقہ سفارت کار ملیحہ لودھی نے بھی کشمیر پر اردوغان کی خاموشی کو پاکستان کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ملیحہ لودھی نے لکھا کہ ’گذشتہ پانچ سالوں کے برعکس صدر اردوغان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ اردوغان نے 2019، 2020، 2021، 2022 اور 2023 میں اس پلیٹ فارم سے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
اردوغان اس بار خاموش کیوں رہے؟
متعدد خلیجی ممالک میں انڈیا کے سفیر تلمیز احمد سے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا ’اردغان کا رویہ بدل گیا ہے۔ پہلے وہ سیاسی اسلام والے نظریے کی حمایت کرتے تھے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ آج کل وہ علاقائی مسائل کو سیاسی اسلام کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘احمد نے کہا ’سعودی، متحدہ عرب امارات اور مصر سیاسی اسلام کے نظریے کی حمایت نہیں کرتے۔ اردوغان ان تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ اگر آپ ان تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہیں تو ان کے اپنے نظریات ہیں۔ ایسے میں انھیں اپنی پرانی سیاست چھوڑنی پڑے گی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے ساتھ قربت بھی اردغان کے سیاسی اسلام کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ پالیسی کمزور ہوتی ہے تو پاکستان بھی ترکی کے لیے زیادہ موزوں نہیں رہے گا۔‘تو کیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا تذکرہ نہ ہونا انڈیا کی کامیابی نہیں ہے؟تلمیز احمد کہتے ہیں ’میں ایسا نہیں مانتا کیونکہ اس سے انڈیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اردوغان نے ایسا انڈیا کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے کیا ہے۔ انڈیا کی موجودہ حکومت ملکی مسائل کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ انڈیا کا موقف ہے کہ ہم ایسے کسی بیان کو اہمیت نہیں دیتے۔‘تلمیز احمد کہتے ہیں کہ ’اردوغان نے 2021 سے اپنا رویہ بدل لیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہییں۔ ان کے لیے معیشت زیادہ اہم ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ترکی کے بینکوں میں بہت پیسہ رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے خود کو سیاسی اسلام سے دور رکھا ہے اور ترکی بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔‘’ظاہر ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کرتے اور ان کا زور انڈیا کے ساتھ تجارت پر زیادہ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.