ارب پتی کی بیوی ہونے کی غلط فہمی میں اغوا اور قتل ہونے والی خاتون کی تلاش کا معمہ: ’ہم دن میں ہزار بار مر رہے تھے‘
اپنے خاندانی گھر میں واپسی کے بارے میں بتاتے ہوئے جہاں ان کے ساتھ ان کے والد، ایلک اور بہنیں ڈیان اور جینیفر بھی شامل تھے ایئن میکے نے کہا ’مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے اپنی ماں کی موجودگی کو محسوس کیا تھا۔‘’میں یہ سب بیان نہیں کر سکتا۔ ‘میکے نے صحافیوں، اجنبیوں اور مذاقاً کی گئی ان گنت کالز کے بارے میں بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام کالوں کا جواب دیا گیا ’ہم بے چین تھے۔ ہمیں ہر طرح کے احمق لوگ فون کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔‘فون کرنے والے بہت سے اجنبیوں نے پیسے مانگے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ’یہ یقین کرنا واقعی مشکل ہے کہ لوگ خوفناک طریقے سے برتاؤ کر سکتے ہیں۔‘’ہم دن میں ہزار بار مر رہے تھے کیونکہ ہر کال ایک امید تھی۔ یہ سب سے ناقابل یقین، اذیت ناک تجربہ تھا جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں اور یہ صرف چند دن نہیں بلکہ ہفتوں تک جاری رہا۔‘آرتھر اور نظام الدین حسین کو سات فروری 1970 کو گرفتار کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر کنگسٹن پولیس سٹیشن میں رکھا گیا تھا کیونکہ صحافیوں کا ہجوم ومبلڈن میں پولیس سٹیشن کے باہر جمع تھا۔میکے نے گرفتاری کے فورا بعد اپنے گھر کے ڈائننگ روم میں کیس کے انچارج افسر ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ بلاسمتھ اور ڈیٹیکٹیو سارجنٹ جان مائنرز کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے بتایا ’انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ پولیس سٹیشن جانا چاہتے ہو تو ہم آپ کو قید خانے میں جانے دیں گے، آپ ان کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔‘میکے کا کہنا تھا کہ ’میں کافی حیران تھا، میں ایسا کچھ سوچ بھی نہیں رہا تھا ۔‘آج تک میکے یہ سمجھ نہیں پائے کہ آیا یہ پیشکش حقیقی تھی یا ’بہادری ، مایوسی (کہ ملزم بھائی سوالات کا جواب نہیں دے رہے تھے) اور خاندان کے ساتھ ’وفاداری‘ کے احساس کا مرکب تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں وہ ہمارے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انھوں نے ہر ممکن کوشش کی اور مجھے لگتا ہے کہ انھیں(پولیس) ہمارا درد نظر آ رہا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہMARK DYER
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.