- مصنف, لوسی والیس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
کان کنی کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے انڈونیشیا کے جنگل میں سونے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ملا ہے اور اس دعوے کے بعد سے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ہلچل مچ گئی ہے۔لیکن ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی، یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوا کیونکہ کمپنی کے چیف جیولوجسٹ (ماہر ارضیات) کی پراسرار موت کے بارے میں آج بھی سوالات باقی ہیں۔19 مارچ 1997 کو کینیڈا کی ایک کان کنی کی کمپنی بری ایکس منرلز کے چیف جیولوجسٹ مائیکل ڈی گزمین نے انڈونیشیا کے جنگل میں ایک دور دراز مقام پر جانے کے لیے ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے تھے۔وہ یہ سفر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کر چکے تھے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے انھوں نے سونے کے بڑے ذخائر دریافت کرنے سے متعلق دعویٰ کیا تھا۔
لیکن اس بار وہ اس سفر پر روانہ تو ہوئے تھے لیکن کبھی اپنی منزل پر پہنچ نہ سکے۔اس سفر کے دوران 20 منٹ ہی گزرے تھے کہ ہیلی کاپٹر کا بائیں جانب کا پچھلا دروازہ کھلا اور مائیکل ڈی گزمین گھنے جنگل میں گر کر موت کے منھ میں چلے گئے۔کان کنی والی کمپنی کے سی ای او نے اس واقعے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ’ڈی گزمین نے خودکشی کی کیونکہ ان میں ہپاٹائٹس بی کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ بار بار ملیریا کی بیماری سے لڑ کر تھک چکے تھے۔‘اس واقعے کے دس سال بعد کیلگری ہیرلڈ نامی اخبار نے کینیڈین صحافی سوزین ولٹن کو ڈی گزمین کی موت کی تحقیقات کرنے کے لیے بھیجا۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس تحقیق کے لیے بہت دور بھیجا گیا لیکن اس خبر نے مجھے شروع سے ہی پریشان کر رکھا تھا۔‘وہ اب دوبارہ سے اس معاملے کی چھان بین کر رہی ہیں کہ اس بدقسمت ہیلی کاپٹر کے سفر کے دوران ایسا کیا ہوا تھا؟،تصویر کا ذریعہRichard Beharمائیکل ڈی گزمین 1956 میں ویلنٹائن ڈے والے دن یعنی 14 فروری کو فلپائن میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ دن ان کی شخصیت سے بھی مطابقت رکھتا تھا کیونکہ انھیں زندگی میں متعدد بار محبت ہوئی اور ان کی مختلف ممالک میں ایک ہی وقت میں ممکنہ طور پر تین سے چار بیویاں تھیں۔ایک ایسا شخص جسے موسیقی اور شراب پینا، نائٹ کلبز میں جانا اور سونا پہننا پسند تھا۔ وہ ایک تجربہ کار جیولوجسٹ تھے جنھیں یقین تھا کہ وہ انڈونیشیا جا کر اپنی قسمت بدل لیں گے۔ولٹن کہتی ہیں کہ سنہ 1990 کی دہائی میں قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال انڈونیشیا کو سونے کے حصول کے لیے ایک سہنری موقع کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ایک ڈچ شہری جان فیلڈرہاف جنھیں ارضیات کا انڈیانا جونز بھی کہا جاتا ہے کا ماننا تھا کہ انڈونیشیا کے مشرقی صوبے کالیمنتن میں بورنیو کے جزیرے پر ایک دور افتادہ مقام بوسانگ پر ایک سونے کی کان موجود ہے لیکن انھیں اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے رقم درکار تھی۔اپریل 1993 میں فیلڈرہاف نے بری ایکس منزلز کمپنی کے سی ای او ڈیوڈ والش کے ساتھ سونے کے یہ ذخائر دریافت کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا۔ والش خزانے سے بھرے اس مقام کو ممکنہ سرمایہ کاروں کو بیچنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ فیلڈرہاف نے اس جگہ کا انتظام سنبھالا اور یہ واضح کیا کہ انھیں خزانے کی تلاش کے لیے ایک ساتھی درکار ہے اور اس کے لیے انھوں نے اپنے ساتھی جیولوجسٹ اور دوست مائیکل ڈی گزمین کا نام دیا۔لیکن فیلڈرہاف، ڈی گزمین اور ان کی ٹیم کے پاس اس علاقے میں کھدائی کرنے اور یہ جاننے کے لیے کہ آیا وہاں واقعی سونا دفن ہے صرف 18 دسمبر تک کا وقت تھا کیونکہ انڈونیشیا کی حکومت سے ان کی کھدائی کرنے کے لیے دیے گئے لائسنس کی معیاد ختم ہو رہی تھی۔یہ ڈیڈلائن ختم ہونے سے صرف چند دن قبل اس مقام پر دو جگہ کھدائی کی گئی لیکن سونے کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ولٹن کا کہنا ہے کہ پھر اچانک ڈی گزمین نے والش کو بتایا کہ وہ ٹھیک اس مقام کو جانتے ہیں جہاں انھیں کھدائی کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مقام انھیں خواب میں آیا تھا۔ٹیم نے ڈی گزمین کے بتائے ہوئے مقام پر تیسری کھدائی کی اور انھیں سونا مل گیا اور اسی طرح جب چوتھی جگہ پر کھدائی کی گئی تو مزید سونا ملا۔اس کے بعد اگلے تین سال تک اس مقام پر کھدائی اور سونا نکالنے کا کام جاری رہا۔ اس دوران نہ صرف سونے کے ذخائر کا تخمینہ بڑھتا رہا بلکہ سرمایہ کاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بری ایکس منرلز کے حصص کی قدر بھی بڑھنے لگی اور اس کا شیئر 25 سینٹ سے 280 کینیڈین ڈالر کا ہو گیا اور کمپنی کی مالیت چھ ارب کینیڈین ڈالر تک جا پہنچی۔اس کے بعد کینیڈا کے چھوٹے قصبوں میں بسنے والے بھی سونے کی اس دوڑ میں شامل ہو گئے اور انھوں نے لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سونے کی چمک ماند پڑنے لگی۔،تصویر کا ذریعہGenie de Guzmanسنہ 1997 کے اوائل میں اس وقت کے انڈونیشیا کے صدر سوہارتو نے فیصلہ صادر کیا کہ بری ایکس منرلز جیسی چھوٹی کمپنی اس مقام کی اکیلی مالک نہیں ہو سکتی اور اکیلے اس کا منافع حاصل نہیں کر سکتی۔ اس کو انڈونیشیا کی حکومت کے ساتھ اسے بانٹنا ہو گا اور اس کی معاونت ایک بڑی کان کنی کی کمپنی کرے گی۔لہٰذا ان شرائط پر ایک امریکی کمپنی فریپورٹ میک موران کے ساتھ معاہدہ ہو گیا۔قیمتی دھاتوں کی کان کنی سے وابستہ تمام مالیاتی خطرات سے نمٹنے پر اتفاق کرنے سے پہلے، فریپورٹ میک موران کو خود کچھ چیزوں کو پرکھنے کی ضرورت تھی۔ اس کے ماہرین ارضیات کو بوسانگ میں ملنے والے سونے کے ذخائر میں کھدائی کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دو اکٹھے جگہ کھدائی کر کے کان کنی کرنا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں جس جگہ پر سونا پایا جاتا ہے وہاں اس کے موجود ہونے کی دہری جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔یہ کان کنی میں ایک روایتی طریقہ کار ہے لیکن بری ایکس منرلز نے اس طریقہ کو اب تک استعمال نہیں کیا تھا۔امریکی کپمنی سے حاصل کردہ نمونوں کو دو مختلف لیبارٹریوں میں جانچ کے لیے بھیجا گیا اور ان کے نتائج ایک جیسے نکلے تھے۔ ان پتھروں میں سونے کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔اس سب کا ان لوگوں کے لیے کیا مطلب تھا جنھوں نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی اس پراجیکٹ میں لگا دی تھی؟والش اور فیلڈرہاف کو فریپورٹ میک موران کمپنی کی تحقیق کے ان نئے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ انھوں نے ڈی گزمین، جو اس وقت ٹورنٹو میں ایک کنونشن میں تھے کو ہدایت کی کہ وہ فریپورٹ میک موران ٹیم سے ملاقات کے لیے بوسانگ واپس جائیں اور اس معاملے پر وضاحت دیں۔ڈی گزمین نے کینیڈا سے انڈونیشیا کے لیے سفر بذریعہ سنگاپور کیا جہاں انھوں نے اپنی بیوی جینی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی اس بیوی سے ان کا ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔ان کی زندگی کے آخری لمحات کے متعلق معلومات کو ایک اور کینیڈین صحافی جینیفر ویلز نے یکجا کیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ڈی گزمین نے اپنی آخری شام بالکپاپن کے شہر میں بری ایکس منرلز کے ایک ملازم روڈی ویگا کے ساتھ گزاری تھی۔ یہ شہر بوسانگ کی کان سے تقریباً 100 میل دور تھا۔ویگا اس کمپنی کی فلپائنی کان کنی کی ٹیم کا حصہ تھے اور وہ بھی فری پورٹ میک موران کو جواب دینے کے لیے ڈی گزمین کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ویگا کے انڈونیشیائی پولیس کو بعد میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق وہ دونوں ایک کیروکی میں گئے تھے۔ ویگا کا کہنا تھا کہ اس رات ہوٹل واپس آنے کے بعد ڈی گزمین نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔اگلی صبح ڈی گزمین اور ویگا نے ساماراندا جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا سفر کیا۔ یہ شہر بوسانگ کے قریب تھا۔ ڈی گزمین پھر کان پر جانے کے لیے ہیلی کاپٹر پر دوبارہ سوار ہوئے لیکن اس وقت ویگا ان کے ہمراہ نہیں تھے۔اس دن ہیلی کاپٹر کی پرواز میں ان کے ساتھ دو افراد اور بھی تھے، ایک ہیلی کاپٹر کا پائلٹ اور دوسرا ہیلی کاپٹر کا مینٹینسن انجینئیر۔ لیکن اس سفر کی دو باتیں بہت عجیب تھیں۔ پہلی یہ کہ اس ہیلی کاپٹر کو اس دن عام طور پر بوسانگ کان پر جانے والے پائلٹ کی بجائے انڈونیشا فضائیہ کا پائلٹ اڑا رہا تھا اور دوسرا یہ کہ ڈی گزمین کا ساماراندا میں پڑاؤ بھی معمول سے ہٹ کر تھا کیونکہ عموماً ڈی گزمین بالکپاپن سے براہ راست بوسانگ تک کا سفر کرتے تھے۔،تصویر کا ذریعہWarren Irwinاپنے ابتدائی بیان کے بعد سے اس پائلٹ نے اس واقعے کے بارے میں بہت کم بات کی۔ لیکن ولٹن کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈی گزمین کے ساتھ اس دن جو کچھ بھی ہوا اس میں کسی طور پر ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے ہمیشہ یہ ہی کہا کہ انھوں نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوا تھا۔19 مارچ 1997 کو مقامی وقت کے مطابق صبح 10:30 بجے تک ڈی گزمین کی موت ہو چکی تھی۔ہیلی کاپٹر میں ہاتھ سے لکھا گیا خودکشی نوٹ ملا اور چار دن بعد گھنے جنگل میں ایک لاش برآمد ہوئی۔ ڈی گزمین کی موت کے چھ ہفتے بعد، بوسانگ سونے کا خواب سب کے لیے ختم ہو گیا، جس سے سرمایہ کار مایوس ہو گئے۔ اور اس کے بعد بری ایکس منرلز کی مالیت چھ ارب کینیڈین ڈالر سے گر کر صفر ہو گئی۔اس کے بعد ایک آزادانہ رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ بوسانگ میں کبھی کوئی سونا نہیں تھا۔ سنہ 1995 سے سنہ 1997 کے دوران حاصل کردہ پتھروں کے نمونے کی جانچ سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں بیرونی مداخلت کر کے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی اور سالٹنگ کہلائے جانے والے ایک طریقے سے ان پر سونے کے ذرات کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا تاکہ نتائج کو تبدیل کیا جا سکے۔30 سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک کسی کو بھی اس گھپلے کے لیے جوابدہ نہیں کیا گیا۔والش نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا کہ انھیں اس بارے میں کچھ علم نہیں اور سنہ 1998 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی تھی۔ سنہ 2007 میں ایک کینیڈین جج نے فیصلہ دیا کہ فیلڈرہاف اس تمام فراڈ سے بے خبر تھے تاہم انھیں انسائڈر ٹریڈنگ کا مرتکب پایا گیا۔فیلڈرہاف کی موت سنہ 2019 میں ہوئی تھی۔لیکن اگر واپس ڈی گزمین کی موت کے حالات پر آئیں تو بہت سے سوالات کے جوابات آج بھی حل طلب ہیں۔ کیا انھوں خودکشی اس لیے کی تھی تاکہ دھوکے کا علم ہونے کی شرمندگی سے بچ سکیں؟ولٹن کا کہنا ہے کہ ان کے خود کشی کے نوٹ نے خدشات کو جنم دیا ہے۔بی بی سی کی پوڈکاسٹ کے لیے بات کرتے ہوئے فیلڈرہاف کی کزن سوزین فیلڈرہاف کا کہنا ہے کہ فیلڈرہاف کو اس بارے میں شک تھا کہ یہ نوٹ ڈی گزمین نے خود لکھا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ اس خط میں ان بیماریوں کے بارے میں لکھا تھا جن کے بارے میں ان کے رشتہ داروں نے ان سے کبھی شکایت کرتے نہیں سنا تھا۔ولٹن کا کہنا ہے کہ ڈی گزمین نے ایک اور نوٹ بری ایکس منرلز کے فنانس مینیجر کو بھی لکھا تھا مگر ڈی گزمین اسے جانتے تک نہیں تھے۔ اس نوٹ میں ڈی گزمین کی بیویوں کے ناموں میں سے ایک کے ہجے بھی غلط لکھے گئے تھے۔ڈاکٹر بینیٹو مولینو فلپائنی تفتیشی ٹیم کے رکن تھے جسے ڈی گزمین کے اہل خانہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹس کے جاری ہونے کے بعد شواہد کا جائزہ لینے کے لیے کام پر رکھا تھا۔مولینو کا کہنا ہے کہ جنگل سے ملنے والی لاش کی تصاویر میں انھوں نے ڈی گزمین کی گردن پر نشانات دیکھے تھے اور انھوں نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ڈی گزمین کی موت گلا دبنے سے ہوئی تھی۔انھوں نے پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ ’جب وہ گلا دبنے سے مر گئے تھے ممکن ہیں انھیں تب ہیلی کاپٹر سے باہر جنگل میں پھینک دیا گیا ہو گا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ انھوں نے خودکشی کی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’بڑے جرائم میں ہمیشہ ایک آدمی کو پیادہ بنایا جاتا ہے، اس لیے ہمیں یقین نہیں ہے کہ اصل ماسٹر مائنڈ کی کبھی شناخت ہو سکے گی؟ یا یہ کہ ملنے والی لاش گزمین ہی کی تھی۔‘فرانزک ماہر بشریات ڈاکٹر رچرڈ تاڈوران کہتے ہیں کہ ’ابتدائی معلومات کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ اس شخص کو مرے ہوئے چار دن سے زیادہ ہو چکے تھے اور ڈی گزمین کی لاش کی تلاش میں بھی اتنا ہی وقت لگا تھا۔‘ڈی گزمین کی بیوی جینی کا بھی کہنا ہے کہ ملنے والے شخص کے منھ میں دانت موجود تھے جبکہ ان کے شوہر کے مصنوعی دانت تھے۔ ولٹن کا کہنا ہے کہ ڈی گزمین کے دانتوں کے ریکارڈ ان کے خاندان نے کبھی جاری نہیں کیے ہیں۔جینی ڈی گزمین کے دوست اور ماہر ارضیات منصور گیگر کا کہنا ہے کہ جینی نے انھیں بتایا تھا کہ اس کا شوہر ابھی زندہ ہے اور وہ جنوبی امریکہ فرار ہو گیا ہے۔ گیگر کا خیال ہے کہ وہ اب جزائر کیمین میں کہیں رہ رہے ہیں۔کیا ڈی گزمین اپنی جعلی موت کے لیے کسی میت کا انتظام کر سکتا تھا؟ کیا وہ راستے میں پڑاؤ کے بعد ہیلی کاپٹر پر سوار بھی ہوا تھا؟جینی سے پیدا ہونے والے ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے انھیں بتایا تھا کہ ان کہ والد زندہ ہیں۔وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک ماہر ارضیات ہیں اور اپنے والد کی میراث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ سیدھے راستے پر ہیں۔مائیکل ڈی گزمین جونیئر کا کہنا ہے کہ ’شاید میں خود اپنا کان کنی کا کاروبار شروع کر دوں، شاید کچھ سرمایہ کار مل جائیں اور میں ایک بہتر مائیک ڈی گزمین بن سکوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.