اربوں ڈالر سے بنایا جانے والا چین کا تجارتی راستہ جو خانہ جنگی کی زد میں ہے،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBC
،تصویر کا کیپشنچین اور میانمار کی سرحد پر اب سخت پہرا لگا رہتا ہے

  • مصنف, لورا بکر
  • عہدہ, چینی امور کی نامہ نگار، روئیلی- چین میانمار سرحد
  • ایک گھنٹہ قبل

چین اپنے کاروبار اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سڑکوں، پلوں اور پٹڑیوں کا جال بچھانے کے لیے دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ پاکستان میں اربوں ڈالر کا چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا منصوبہ ہو یا پھر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیوٹیو جو گذشتہ ایک دہائی کے دوران یوریشیائی براعظم سے افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے۔چین کا یہ ترقی کا سفر تسلسل سے جاری ہے مگر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں اسے کچھ رکاوٹوں اور سکیورٹی جیسے مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے چین جانی اور مالی نقصان بھی برداشت کرتا آ رہا ہے جس کی حالیہ مثال چین کے پڑوس میں جاری ایک منصوبہ ہے جو خانہ جنگی کی شکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔چین کے جنوبی کنارے پر واقع علاقے ینجنگ کے متعلق ٹیگ لائن ہوا کرتی تھی ’ایک گاؤں اور دو ملک‘۔

چین کی میانمار کے ساتھ سرحد پر ایک پرانا سیاحتی نشان لگا ہوا ہے۔ یہ سرحد صرف ’بانس کی باڑ‘ گڑھے اور مٹی کی گھاٹیوں پر مشتمل ہے۔ یہ اس بات کی بھی نشانی ہے کہ بیجنگ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ کیسے آسان اقتصادی تعلقات چاہتا ہے۔اب سرحد پر ایک اونچی دھات کی باڑ لگی ہوئی ہے جو صوبہ یونان میں روئیلی کاؤنٹی سے گزرتی ہے۔ کچھ جگہوں پر خاردار تاروں اور نگرانی کے کیمروں کے ساتھ، یہ چاول کے کھیتوں کو کاٹتی ہوئی ان گلیوں میں سے گزرتی ہے جو کبھی ملحق ہوتی تھیں۔شروع میں اس علیحدگی کی وجہ کووڈ کے دنوں میں چین کا سخت لاک ڈاؤن بنا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے یہ علیحدگی میانمار میں سنہ 2021 میں ایک خونی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے مزید مضبوط ہو گئی تھی۔ فوجی حکومت اب چین کی سرحد کے ساتھ واقع ملک کے بڑے حصے بشمول شان سٹیٹ، پر کنٹرول کے لیے لڑ رہی ہے، جہاں اسے کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔بحران اب دہلیز پر آ گیا ہے اور تقریباً 2000 کلومیٹر (1240 میل) سرحد، چین کے لیے مہنگی ثابت ہو رہی ہے، جس نے ایک اہم تجارتی راہداری کے لیے میانمار میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔اس پرعزم منصوبے کا مقصد چین کے خشک جنوب مشرق کو میانمار کے راستے بحر ہند سے جوڑنا ہے۔ لیکن یہ راہداری میانمار کے باغیوں اور فوج کے درمیان میدان جنگ بن چکی ہے۔بیجنگ دونوں رستے اختیار کر رہا ہے۔ اس نے جنوری میں جو جنگ بندی کی تھی وہ ناکام ہو چکی ہے۔ اب اس کا رخ سرحد پر فوجی مشقوں اور سخت الفاظ کی طرف ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ وانگ یی نے حال ہی میں میانمار کے دارالحکومت نیپیدا کا دورہ کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے حکمران من آنگ ہلینگ کو وارننگ بھی دی تھی۔غریب الحال شان سٹیٹ کے لیے تنازع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میانمار کی سب سے بڑی ریاست دنیا میں افیون اور میتھ ایمفیٹامائن پیدا کرنے والی ایک بڑی ریاست ہے، اور ان نسلی گروہوں کا گھر بھی جو طویل عرصے سے مرکزی حکومت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔لیکن چینی سرمایہ کاری سے بنائے گئے متحرک اقتصادی زونز اس وقت تک پروان چڑھتے رہے جب تک خانہ جنگی نہیں ہوئی۔

ایک لاؤڈ سپیکر پر روئیلی کے لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ باڑ کے زیادہ قریب نہ جائیں۔ لیکن اییی وارننگز ایک چینی سیاح کو سیلفی لینے کے لیے گیٹ کی سلاخوں کے درمیان اپنا بازو گھسانے سے نہیں روک سکتیں۔آئس کریم کے گلابی سکوپ چاٹتی ہوئی ڈزنی ٹی شرٹس میں ملبوس دو لڑکیاں سلاخوں کے درمیان سے آواز لگا رہی ہیں۔ ’ارے دادا، ہیلو، ادھر دیکھو!‘۔ دوسری طرف ننگے پاؤں چلتا ​​ہوا معمر شخص مشکل سے ہی منھ اٹھاتا ہے اور پھر مڑ جاتا ہے۔

روئیلی میں پناہ

لی میانزن کہتی ہیں کہ ’برمی لوگ کتوں کی طرح رہتے ہیں۔‘ ان کا سٹال روئیلی شہر میں سرحدی چوکی سے چند قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹے بازار میں ہے جہاں وہ میانمار لائی ہوئی کھانے پینے کی اشیا جیسے دودھ والی چائے، فروخت کرتی ہیں۔ لی، 60 کے پیٹے میں ہیں اور سرحد کے پار میوز ٹاؤن میں چینی کپڑے فروخت کرتی تھیں جو کہ چین کے ساتھ تجارت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب ان کے شہر میں شاید کسی کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBC

،تصویر کا کیپشنروئیلی لی میانزین کے لیے آخری امید ہے جو اب میانمار میں کام نہیں کر سکتیں
میانمار کی فوج اب بھی اس قصبے کو کنٹرول کرتی ہے جو شان سٹیٹ میں اس کے آخری باقی ماندہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ لیکن باغی افواج نے دیگر سرحدی گزرگاہوں اور میوز کی سڑک پر ایک اہم تجارتی زون کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔لی کا کہنا ہے کہ صورتحال نے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے۔ وہ کچھ ایسے لوگوں کو جانتی ہیں جنھوں نے کم از کم 10 یوآن کمانے کے لیے سرحد پار کی ہے، جو کہ تقریباً ایک پاؤنڈ اور ایک ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ وہ واپس میانمار جا سکیں اور ’اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔‘،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBC
،تصویر کا کیپشنلوگ سرحد پار جا کر جو بھی بیچ سکتے ہیں بیچتے ہیں
جنگ نے میانمار کے اندر اور باہر سفر کو سخت متاثر کیا ہے اور زیادہ تر ان لوگوں کے قصے سامنے آئے ہیں جو بھاگ گئے ہیں یا سرحدوں کے پار جانے کے راستے تلاش کر چکے ہیں، جیسا کہ لی۔لی کا خاندان منڈالے میں پھنسا ہوا ہے کیونکہ انھیں چین میں کام کرنے کے لیے پاس چاہیے جو انھیں نہیں مل سکا اور اس دوران باغی افواج میانمار کے دوسرے سب سے بڑے شہر کے قریب پہنچ گئی ہیں۔لی کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے جیسے بے چینی مجھے مار رہی ہے۔ یہ جنگ ہمارے لیے بڑی بدقسمتی لائی ہے۔ یہ سب کب ختم ہوگا؟‘اکتیس سالہ زن آنگ (فرضی نام) ان لوگوں میں شامل ہیں جو روئیلی کے مضافات میں ایک صنعتی پارک میں کام کرتے ہیں، جہاں کپڑے، الیکٹرانکس اور گاڑیوں کے پرزے تیار کر کے دنیا بھر میں بھیجے جاتے ہیں۔ان جیسے مزدوروں کو میانمار سے بڑی تعداد میں بھرتی کیا جاتا ہے اور انھیں سستے مزدور ڈھونڈنے والی چینی حکومت کی حمایت یافتہ فرمیں بھرتی کرتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق وہ ماہانہ تقریباً 2400 یوآن کماتے ہیں، جو ان کے چینی ساتھیوں سے کم ہے۔،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBCزن آنگ کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ہمارے لیے میانمار میں کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ چاول اور کوکنگ آئل سمیت ہر چیز مہنگی ہے۔ ہر جگہ شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ہر ایک بھاگ کر جان بچا رہا ہے۔ ان کے والدین بہت ضعیف ہیں اور وہ کہیں نہیں جا سکتے۔ زنگ آہنگ گھر چھوڑ کر خود یہاں آ گئے ہیں اور جب بھی ممکن ہوتا ہے کہ اپنے والدین کے لیے پیسے بھیج دیتے ہیں۔وہ اپنے گھر سے چند کلومیٹر دور ہی روئیلی میں سرکاری کمپاؤنڈ میں کام کرتے ہیں۔ زن آنگ کے مطابق یہ نئی جگہ ان کے لیے ایک پناہ گاہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میانمار میں حالات اچھے نہیں ہیں اس وجہ سے اب ہم یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔وہ میانمار کی فوج میں لازمی بھرتی کی شرط سے بھی موقع پا کر ننگے پاؤں دشوار گزار رستوں سے ہوتے ہوئے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ میانمار کی فوج اس طرح کی بھرتیاں جنگ میں اٹھائے جانے والے نقصان کے خمیازے کے طور پر کرتی ہے۔،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBC

بیجنگ کی پریشانی

دونوں قصبے چین کے قیمتی تجارتی راہداری کے ساتھ واقع ہیں اور بیجنگ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی نے لاشیو کو ’جنتا‘ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں باغی فورسز قصبے میں داخل ہو گئی ہیں جو کہ ان کی اب تک کی سب سے بڑی فتح ہے۔ فوج نے ان کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے بمباری کی، چھاپے مارے اور ڈرون حملے کیے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون نیٹ ورک کی رسائی بھی محدود کر دی گئی۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے میانمار کے مشیر رچرڈ ہارسی کہتے ہیں کہ ’لیشیو کا زوال فوج کی تاریخ کی سب سے ذلت آمیز شکستوں میں سے ایک ہے۔‘رچرڈ ہارسی کا کہنا ہے کہ باغی گروپوں کے میوز میں داخل نہ ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس سے چین ناراض ہو جائے گا۔ وہاں لڑائی سے سرمایہ کاری پر اثر پڑے گا جو چین کو کئی ماہ سے دوبارہ شروع ہونے کی امید ہے۔ حکومت نے تقریباً شان ریاست کے پورے شمالی حصے کا کنٹرول کھو دیا ہے۔ اب اس کے پاس یہی میوز کا علاقہ ہی بچا ہے، جو روئیلی کے بالکل قریب واقع ہے۔روئیلی اور میوز خصوصی تجارتی زون ہیں۔ یہ دونوں مقامات بیجنگ کی مالی اعانت سے چلنے والے 1,700 کلومیٹر تجارتی راستے کے لیے اہم ہیں، جسے چین-میانمار اقتصادی راہداری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ راستہ چین کے دیگر معاشی مفادات جیسا کا توانائی، بنیادی ڈھانچے اور الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے نایاب زمینوں سے ہونے والی کان کنی کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔لیکن اس کے اہم مقام پر ایک ریلوے لائن بچھی ہوئی ہے جو کنمنگ کو یوننان صوبے کے دارالحکومت ’کیاؤکفیو‘ سے جوڑے گی۔ کیاؤکفیو ایک گہری سمندری بندرگاہ ہے جسے چین میانمار کے مغربی ساحل پر تعمیر کر رہا ہے۔ہہ بندرگاہ خلیج بنگال کے ساتھ روئیلی اور اس سے باہر کی صنعتوں کو بحر ہند اور پھر عالمی منڈیوں تک رسائی فراہم کرے گی۔ یہ بندرگاہ تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کا نقطہ آغاز بھی ہے جو میانمار کے راستے یونان تک توانائی کی ترسیل کرے گی۔مگر یہ پلان ابھی خطرے میں ہیں۔ آنگ سن سوچی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے وسائل والے پڑوسی ملک سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کئی برس محنت کی ہے۔صدر شی نے فوجی بغاوت کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور چین نے میانمار کی فوج کو اسلحے کی فروخت جاری رکھی تھی۔ تاہم چین نے من آنگ ہیلنگ کو ریاست کا سربراہ تسلیم کیا اور نہ کبھی انھیں چین کے دورے کی دعوت دی۔ ان تین برسوں میں لڑائی میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے مگر اس تنازع کا ابھی بھی خاتمہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ نئے محاذوں پر لڑنے پر مجبور فوج تب سے میانمار کے نصف سے دو تہائی کے درمیان حصے پر منقسم اپوزیشن کے ہاتھوں شکست کھا چکی ہے۔ نئے محاذوں پر لڑنے پر مجبور فوج منقسم اپوزیشن کی وجہ سے میانمار کا نصف سے دو تہائی حصہ کھو چکی ہے۔رچرڈ ہارسی کا کہنا ہے کہ ’بیجنگ کو اس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ چین اس صورتحال کو بالکل پسند نہیں کرتا اور وہ میانمار کے حکمران من آنگ ہیلنگ کو ’نالائق‘ سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق چین اس وقت میانمار پر انتخابات کے حوالے سے دباؤ ڈال رہا ہے جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ وہاں پر جمہوریت کا خواہاں ہے بلکہ اس ملک کو اس خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے یہی راستہ ہے۔ میانمار کی حکومت کو یہ شک ہے کہ بیجنگ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہا ہے۔ ایک طرف عوام کی حمایت اور دوسری طرف اس نے شان کی ریاست میں نسلی گروہوں سے بھی تعلقات استوار رکھے ہوئے ہے۔ تازہ ترین لڑائیاں پچھلے سال کی مہم کی بحالی بھی ہیں جو تین نسلی گروہوں نے شروع کی تھی جو خود کو اخوان الائنس کہتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اتحاد بیجنگ کی خاموشی سے منظوری کے بغیر اپنا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت متعدد باغی گروپ چینی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ تازہ ترین لڑائیاں پچھلے سال کی مہم کی بحالی بھی ہیں جو تین نسلی گروہوں نے شروع کی تھی جو خود کو ’برادرہُڈ الائنس‘ یعنی اخوان اتحاد کہتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اتحاد بیجنگ کے بغیر پر بھی نہیں مار سکتا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/ BBC

،تصویر کا کیپشن تجارت اور مزدوری کو محدود کرنے والی سرحدی چوکیاں
جنگ کے میدان میں باغیوں کی کامیابیوں کی وجہ سے ہزاروں چینی کارکنوں کو جال میں پھانسنے والے بدنام مافیا خاندانوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی اپنی سرحد کے ساتھ بڑھتی ہوئی لاقانونیت سے مایوس، بیجنگ نے ان مافیاز کے زوال کا خیر مقدم کیا اور ہزاروں مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا جنھیں باغیوں نے بیجنگ کے حوالے کیا تھا۔برسوں سے جاری خانہ جنگی بیجنگ کے لیے بدترین صورت حال سہی لیکن اس سے فوجی حکومت کے خاتمے کا بھی خدشہ ہے جو مزید افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔چین کسی بھی منظر نامے پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کرے گا اور امن مذاکرات پر راضی ہونے کے لیے دونوں فریقوں پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔

ادھورے منصوبے

روئیلی میں میلوں پر پھیلی ان دکانوں کا بند ہو جانا ایک پریشان کن صورت حال ہے۔ ایک ایسا شہر جو کبھی سرحد اور محل وقوع سے فائدہ اٹھاتا تھا اب میانمار سے قربت کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔چین میں کووڈ کے سخت ترین لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب سرحد پار ٹریفک اور تجارت بحال نہ ہو پائیں۔ گزر بسر کے لیے ان کا انحصار دوسری جانب سےملازمتوں پر بھی تھا جس کا سلسلہ اب رک گیا ہے۔برمی کارکنوں کو ملازمتیں تلاش کرنے میں مدد دینے والے کئی ایجنٹ چین پریہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ اس نے سرحد پار سے مزدوروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے نہ صرف پابندیاں سخت کر دی ہیں بلکہ ایسے سینکڑوں افراد کو بھی واپس بھیج دیا ہے جو وہاں غیر قانونی طور پر کام کر رہے تھے۔،تصویر کا ذریعہXiqing Wang/BBC

،تصویر کا کیپشنروئیلی میں میلوں پر پھیلی ان دکانوں کا بند ہو جانا پریشان کن صورت حال ہے
ایک چھوٹی فیکٹری کے مالک نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملک بدری کا مطلب ہے کہ ’میرا کاروبار یہیں رہ جائے گا اور میں اس صورتحال میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘چیک پوائنٹ کے آگے والا چوک نوجوان کارکنوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس ہجوم میں بہت سی مائیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ سائے میں انتظار کر رہی ہیں۔وہ اپنی دستاویزات اس آس میں تیار ک وا رہے ہیں کہ نوکری حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس ضروری کاغذات مکمل ہوں۔کامیاب ہونے والوں کو ایک پاس دیا جاتا ہے جس کی مدد سے وہ ایک ہفتے تک کام کر سکتے ہیں، یا لی کی طرح دونوں ممالک کے درمیان آنے اور جانے کی اجازت حاصل کر لیتے ہیں۔ لی اس حوالے سے کہتی ہیں ’مجھے امید ہے کہ کچھ اچھے لوگ تمام فریقوں کو لڑائی بند کرنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا میں ہمارے لیے کوئی نہیں بول رہا تو یہ واقعی افسوسناک ہے۔‘لی کہتی ہیں کہ انھیں اکثر اپنے آس پاس کے لوگوں کی طرف سے یقین دلایا جاتا ہے کہ لڑائی چین کے زیادہ قریب نہیں پھیلے گی۔ لیکن وہ اس پر یقین نہیں رکھتیں۔’کوئی بھی مستقبل کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔‘فی الحال روئیلی لی میانزن اور زن آنگ کے لیے ایک محفوظ آپشن ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل چینیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ایک چینی سیاح میانمار کے قیمتی پتھر جیڈ فروخت کرنے والے سے کہتا سنائی دے رہا ہے ’تمھارا ملک جنگ میں ہے۔ تم بس وہی (قیمت) لو جو میں تمہیں دے رہا ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}