اربعین: ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کربلا کی جانب پیدل سفر کیوں کرتے ہیں؟
’اربعین‘پر کیا کیا جاتا ہے یہ فاطمہ کرنیب کو تب تک معلوم نہیں تھا جب تک کہ وہ پہلی بار سنہ 2012 میں عراق اس میں شرکت کے لیے نہیں گئی تھیں۔
فاطمہ نے بتایا کہ ’اس ایک دورے نے میری زندگی بدل دی اور مجھے معلوم ہوا کہ دنیا بس امام حسین کی محبت کے سوا کچھ نہیں۔‘
عراق سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نے بتایا کہ ’یہ ایک شاندار، ناقابل بیان روحانی احساس ہے۔۔۔ یہاں آ کر ایسا محسوس ہوا جیسے پوری دنیا میرا خاندان بن گئی ہے اور یہ سوچ مجھ پر اتنی غالب ہوئی کہ میں اپنے اصل خاندان سے رابطہ کرنا ہی بھول گئی۔‘
تو ’اربعین‘ ہے کیا؟
اربعین شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم دن ہے۔ یہ اس واقعے کے چالیس روز مکمل ہونے کی یاد ہے جب امام حسین، ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کو کربلا کے مقام پر یزیدی افواج نے قتل کیا تھا۔
اسلام کی تاریخی روایات کے مطابق امام حسین، لوگوں کی طرف سے دعوتیں ملنے کے بعد یزید بن معاویہ کی حکومت کے خلاف حجاز سے اپنے اہلخانہ اور ساتھیوں کے ہمراہ عراق کے اہم شہر کوفہ کی جانب جانے کے لیے روانہ ہوئے مگر کربلا کے مقام پر انھیں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا جبکہ خاندان کی خواتین اور بچوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
شیعہ عقیدے کے مطابق ’اربعین‘ کے موقع پر اُس مقام کی زیارت کرنا باعثِ ثواب ہے۔
اربعین کا سلسلہ شروع کب ہوا؟ اگر اس روایت کے تاریخی حوالوں کی بات کی جائے تو پہلی مرتبہ کربلا میں پیش آئے واقعے کے چالیس دن مکمل ہونے پر پیغمبر اسلام کے اصحاب میں سے ایک، جابر بن عبداللہ الانصاری، اُس مقام پر پہنچے تھے اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
عراق میں سیاسی جماعت ’بعث‘ کی حکمرانی کے دوران اربعین کے لیے آنے والوں اور اربعین واک میں ان کی شمولیت کو روکنے کی کوششوں کی وجہ سے زیادہ تعداد میں زائرین عراق کا رخ کرنے سے گریز کرتے تھے۔
سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور میں، اس زیارت کی غرض سے دنیا بھر سے آنے والوں کے لیے حالات کشیدہ تھے کیونکہ زائرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بار بار ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے معاملات خراب رہے۔
زیارت کے لیے جانے والوں کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے ماضی میں متعدد اقدامات اُٹھائے گئے تاہم اس سفر کے لیے نکلنے والے زائرین نے وہ راستہ اپنایا جسے ’علما کا راستہ‘ کہا جاتا ہے اور یہ راستہ نجف شہر میں دریائے فرات کے کنارے کھجور کے باغات سے گزرتا تھا۔
سنہ 2003 میں بعث پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور اسی کے ساتھ اربعین کے زائرین کی تعداد میں بڑا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
اور آج اربعین کی زیارت صرف شیعہ مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی شرکت کرتے ہیں۔
متعدد راستے اور طویل فاصلہ
زائرین اربعین کے دن کربلا شہر میں حسین بن علی اور ان کے بھائی حضرت عباس کے روضوں تک پہنچنے کے لیے متعدد راستوں سے طویل فاصلے طے کر کے مطلوبہ مقام تک پہنچتے ہیں۔
امام حسین اور حضرت عباس کے علاوہ عراق میں ائمہ اہل بیت کے پانچ مزارات ہیں جو نجف، سامرہ اور کاظمیہ کے علاقوں میں واقع ہیں۔
زائرین کو اس مقام تک لے کر جانے والے سب سے نمایاں راستوں میں سے ایک نجف سے کربلا جانے والی سڑک ہے۔ یہ سٹرک 80 کلومیٹر طویل ہے۔ زائرین کو فاصلے کا تعین کرنے میں مدد کے لیے، سڑک کے ساتھ ساتھ متعدد ایسے نشانات یا تختیاں موجود ہیں جو انھیں یہ بتاتی ہیں کہ مطلوبہ مقام تک کتنا فاصلہ رہ گیا ہے۔ 80 کلومیٹر طویل سٹرک پر یہ نشانات ہر 50 میٹر کے فاصلے پر نصب ہیں۔
اس فاصلے کو تہہ کرنے کے لیے تقریباً تین دن مسلسل پیدل چلنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کو پیدل راستہ مکمل کرنا مشکل ہو وہ نقل و حمل کے دیگر ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔
زائرین کے کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو چہلم سے چند ہفتے قبل ہی پیدل چلنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کربلا جانے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جو 600 کلومیٹر طویل ہے۔
جنوبی عراق میں راس البیشا سے شروع ہو کر ملک کے وسط میں واقع کربلا تک پہنچتا ہے۔
اس کے علاوہ زائرین دارالحکومت بغداد، ہلہ، بصرہ اور کوفہ کے شہروں سے بھی کربلا پہنچنے کے لیے پیدل سفر کرتے ہیں۔
’اس مقام میں ایسا منفرد کیا ہے‘
فاطمہ رواں برس تیسری مرتبہ اربعین میں شریک ہوئی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اربعین کے لیے اس مقام پر بار بار آنے کی وجہ بتائی۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’یہاں سب برابر ہیں۔ تمام قومیتوں، نسلوں اور سماجی طبقات کے لوگ سب برابر ہیں اور عقیدت اور احترام کا جذبہ سب میں ایک سا ہے۔‘
نجف اور کربلا کے شہروں کے درمیان راستے کے ساتھ ہوسٹل یا رہائشگاہیں بھی موجود ہیں، جو زائرین کے استقبال کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہاں زائرین کو مفت کھانا اور رہائش فراہم کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر عراقی اپنے گھر اربعین کے زائرین کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اس راستے پر ہر عمر کے لوگ اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیا پکڑے کھڑے ہوتے ہیں جو وہ زائرین کو بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔
اس علاقے کے لوگ نہایت محبت اور احترام سے ان زائرین کی خدمت کرتے ہیں، وہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے زائرین کے سر پانی سے دھلواتے ہیں، اربعین کے لیے جانے والے شاید اس بات کا اندازہ لگا سکیں کیونکہ عراق کی اس سرزمین پر درجہ حرارت ان دنوں میں بعض اوقات چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔
اربعین میں ایک سے زیادہ مرتبہ شرکت کرنے والے محمد حمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ میزبان کے پاس پہنچتے ہیں، تو آپ کو اپنا شناختی کارڈ دکھانے یا کوئی بدیسی زبان بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس آپ اس سڑک پر چلتے جائیں اور خدمت، حفاظت اور آرام حاصل کرتے جائیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ زائرین کی خدمت کرنے والے ’یہ وہ لوگ ہیں جو سال بھر اپنی کمائی سے پیسے بچا کر عارضی رہائش گاہیں جنھیں ’معکب‘ کہا جاتا ہے، اور آرام گاہوں کا انتظام کرتے ہیں جہاں زائرین رہتے ہیں اور اگر کسی کی اتنی ہمت اور استطاعت نہ ہو کہ وہ ہاسٹل بنائے تو وہ زائرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ یہ منظر پوری دنیا میں ہم اور کہاں دیکھتے ہیں؟ یہ ایک عجیب بات ہے جس کے بارے میں بات کرنا اور اس دوران اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مُشکل ہے۔‘
عراقی قانون کے مطابق ائمہ اہل بیت کے روضوں اور مقدس مقامات کی دیکھ بھال عراقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہی زائرین کو مفت کھانا بھی فراہم کرتی ہے۔
سڑک کے کنارے مجالس ہوتی ہیں جن میں اُس وقت اور اِس زمین پر ہونے والے ظلم کو یاد کیا جاتا ہے، اُس وقت کو یاد کیا جاتا کہ امام حُسین اور ان کے اہلخانہ پر کیا گُزری تھی۔ اس سب کے دوران روایتی ماتمی اشعار پڑھے جا رہے ہوتے ہیں اور ہر جانب یہی سماں ہوتا ہے۔
سامعین اور زائرین سینہ کوبی کرتے اور روتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ایک طویل اور پیدل سفر کے بعد جب زائرین کربلا پہنچتے ہیں تو حسین اور عباس کے روضوں کے سنہری گنبد انھیں دور سے دکھائی دیتے ہیں اور اس کے بعد بس آنسو ہی بولتے ہیں۔‘
ان مقدس روضوں میں انفرادی طور پر داخل ہونے کے علاوہ زائرین کو عراق کے اندر اور باہر سے ’جلوسوں‘ کی صورت میں بھی منظم کیا جاتا ہے اور زائرین مخصوص اوقات میں روضوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ہر سال، عراق میں مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ انڈیا، پاکستان، آذربائیجان اور دنیا بھر سے لاکھوں زائرین آتے ہیں۔
عراقی وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس پیر (5 ستمبر) تک 35 لاکھ سے زائد زائرین عراق میں داخل ہو چکے تھے۔ صرف نجف میں واقع ہوائی اڈے کے ذریعے گذشتہ 16 دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زائرین کی آمد ہوئی ہے۔
عراقی حکام کے مطابق گذشتہ سال زائرین کی تعداد دو کروڑ سے تجاوز کر گئی تھی، جن میں پچاس لاکھ غیر ملکی زائرین شامل تھے۔
مختصر مدت میں آنے والوں کی یہ بڑی تعداد سخت حفاظتی اقدامات کا تقاضہ بھی کرتی ہے کیونکہ زائرین کو گذشتہ برسوں کے دوران شدت پسند تنظیموں کی جانب سے بم دھماکوں کا سامنا کرنا پڑا۔
زائرین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کربلا جانے والی سڑک پر فوجی دستے تعینات ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق میں بنیادی انفراسٹرکچر کے ڈھانچے کی خرابی کے باعث سڑکوں پر ٹریفک حادثات بھی پیش آتے ہیں اور حالیہ واقعات میں ایسے واقعات میں 18 زائرین کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
اربعین کے موقع پر ملک کے بیشتر وسطی اور جنوبی علاقوں میں 10 دن کی سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔
Comments are closed.