ادھورے جملے، ’آوارہ بِلّا‘ اور عمر سے جڑے خدشات: ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان صدارتی مباحثے میں کون حاوی رہا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, انتھونی زرچر
  • عہدہ, شمالی امریکہ نامہ نگار
  • ایک گھنٹہ قبل

جمعرات سے پہلے بھی بہت سے امریکیوں کو صدر جو بائیڈن کی عمر اور ان کی صحت کے بارے میں بہت سے خدشات لاحق تھے تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے مباحثے نے ان خدشات کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت بخش دی ہے۔جمعرات کی شام ہونے والے صدارتی مباحثے میں صدر بائیڈن ایک واضح اور آسان ہدف کے ساتھ داخل ہوئے تھے تاہم وہ اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے۔ پوری بحث کے دوران وہ ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیے اور ان کی باتیں بھی مبہم تھیں۔بحث کے دوران بائیڈن کی ٹیم نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر زکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی آواز خراب اور مبہم سنائی دی رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی لیکن بظاہر یہ ایک بہانہ لگ رہا تھا۔

تقریباً 90 منٹ تک جاری رہنے والے مباحثے کے دوران مسلسل ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے جو بائیڈن اپنی باتوں پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔ ان کی جانب سے دیے جانے والے کچھ جوابات تو انتہائی بےتکے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمباحثے کے دوران ایک سوال کا جواب انھوں نے یہ کہہ کر ختم کردیا کہ، ’ہم نے آخرکار میڈیکیئر کو ہرا دیا۔‘ قابلِ ذکر بات یہ ہے میڈیکیئر امریکی حکومت کے زیر انتظام بزرگوں کی صحت کی دیکھ بھال کا پروگرام ہے۔اس مباحثے کے فوراً بعد جو بائیڈن کی سابقہ کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ سی این این پر موجود تھیں۔ انھوں نے صاف الفاظوں میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ بحث کسی بھی صورت جو بائیڈن کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوئی۔ان کے مطابق جو بائیڈن کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ثابت کرنا تھا کہ بطورِ صدر کام کرنے کے لیے ان میں نہ صرف توانائی ہے بلکہ وہ صحت مند بھی ہیں لیکن بائیڈن ایسا کرنے میں ناکام رہے۔جیسے جیسے بحث آگے بڑھی، اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش میں کسی شکست خوردہ باکسر کی طرح جو بائیڈن نے بھی کھیل کی رفتار میں تبدیلی لانے کی کوشش کی اور اپنے حریف پر تیزی سے وار کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ وار تو اپنے ہدف پر لگے جنھوں نے شاید سابق صدر کو غصہ بھی دلا دیا۔

مباحثے میں زیرِ بحث آنے والے ابتدائی چند موضوعات میں معیشت اور امیگریشن جیسے اہم مسائل شامل تھے۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بیشتر امریکی جو بائیڈن سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتماد کرتے ہیں اور اس بات نے امریکی صدر کے لیے مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ٹرمپ نے بائیڈن کے ایک اور جواب کے بعد طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’مـجھے نہیں سمجھ آئی کہ انھوں نے اس جملے کے آخر میں کیا کہا ہے، اور میرے خیال میں شاید یہ خود بھی نہیں جانتے۔‘

’منظم‘ ٹرمپ

بحث کے دوران سابق صدر ٹرمپ بڑی حد تک نظم و ضبط کے ساتھ کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے اور انھوں نے ایسے کسی بھی موضوع میں پڑنے سے اجتناب کیا جس سے بحث پٹڑی سے اتر سکتی تھی جیسا ان کے ساتھ سنہ 2020 میں ہونے والے مباحثوں کے دوران ہوا۔ ٹرمپ کافی حد تک تمام گفتگو کو صدر بائیڈن کے ریکارڈ پر مرکوز رکھنے میں کامیاب رہے۔دوران بحث ٹرمپ نے کئی بار ایسے دعوے کیے جن کو وہ حقائق کے ساتھ ثابت نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ کئی مواقع پر انھوں نے جھوٹ کا بھی سہارا لیا لیکن جو بائیڈن ان کی غلط بیانیوں کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمثال کے طور پر جب اسقاطِ حمل پر بات ہوئی تو سابق صدر نے اسے بارہا ڈیموکریٹس کی انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے یہ غلط دعویٰ بھی کیا کہ ڈیموکریٹس بچوں کی پیدائش کے بعد اسقاط حمل کی حمایت کرتے ہیں۔اسقاط حمل کا موضوع ہمیشہ سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ریپبلکنز کی کمزوری رہی ہے تاہم صدر بائیڈن اس پر بھی پوائنٹ سکور نہ کر سکے اور فقط اتنا ہی کہہ سکے کہ ’آپ نے جو کیا ہے وہ بہت غلط ہے۔‘

’آوارہ بلّا‘

بحث کے دوران بعض اوقات صدر بائیڈن مؤثر طریقے سے ریپبلکن امیدوار پر وار کرنے اور انھیں غصہ دلانے میں کامیاب رہے۔ایک ایسے ہی موقع پر جو بائیڈن نے ٹرمپ کو سابق پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کیس میں ہونے والی سزا کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کسی ’آوارہ بِلے‘ جیسے ہیں۔اس پر ٹرمپ نے غصے سے جواب دیا کہ ’میں نے کسی پورن سٹار کے ساتھ سیکس نہیں کیا ہے۔‘جب ڈونلڈ ٹرمپ سے 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے پر ان کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو اس پر وہ بیک فٹ پر نظر آئے۔ اںھوں نے ابتدائی طور پر کیپیٹل ہل فسادات کے متعلق اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال کو صدر بائیڈن کے ریکارڈ کی مذمت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، تاہم صدر بائیڈن نے انھیں اس بار ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا۔جو بائیڈن نے کہا کہ ’انھوں [ٹرمپ] نے لوگوں کو کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی۔ وہ تین گھنٹے تک بیٹھے رہے جب کہ ان کے معاونین نے ان سے کچھ کرنے کی التجا کرتے رہے لیکن انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘

آگے کیا ہوگا؟

یہ مباحثہ امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں الیکشن سے کہیں پہلے منعقد ہونے والے مباحثوں میں سے یہ ایک تھا۔بائیڈن کی ٹیم کی خواہش تھی کہ اس بحث کی ساری توجہ ٹرمپ پر مرکوز رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال اور افراتفری کے بارے میں امریکی ووٹرز کو یاد دلایا جا سکے۔تاہم اس بحث کے بعد لگتا ہے کہ سابق صدر کی نسبت اب لوگ جو بائیڈن کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ بات کریں گے۔بائیڈن ٹیم کی جانب سے مباحثے کے جلد آغاز کی ایک اور وجہ یہ تھی اگر ان کا امیدوار اس میں بری کارکردگی دکھائے تو ان کے پاس اس دھچکے سے باہر نکلنے کے لیے زیادہ وقت ہو۔ شاید یہ واحد بات ہے جس سے ان کو کچھ ریلیف ملے۔ڈیموکریٹس کا کنونشن اگست میں ہوگا اور اس وقت شاید وہ امریکیوں کو بائیڈن کا مزید سکرپٹڈ وژن پیش کر سکیں۔ستمبر کے مہینے میں صدارتی امیدواروں کے مابین ایک اور مباحثہ ہوگا۔ اور شاید امریکی جب نومبر میں اگلے صدر کے انتخاب کے لیے رائے شماری میں حصہ لیں تو ان کے ذہنوں میں ستمبر کے مہینے کے مباحثے کی یادیں زیادہ تازہ ہوں گی۔اس سے شاید ڈیموکریٹس کو کچھ حد تک تو اطمینان ملے لیکن وہ اب بھی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے آیا دوسرا موقع ملنے پر ان کا امیدوار ٹرمپ کے خلاف بہتر کارکردگی دکھا پائے گا یا نہیں۔کچھ ڈیموکریٹس کو شاید یہ امید ہو کہ اگست کے کنونشن میں ان کا امیدوار ہی تبدیل ہو جائے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}