کیا آپ جانتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ نے اللہ کے عظیم گھر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اس کی چھت تھی اور نہ ہی دروازہ، تاہم گزشتہ 5 ہزار برسوں میں اب تک خانہ کعبہ کے کُل 6 دروازے تبدیل ہوچکے ہیں اور سب سے آخری دروازہ شاہ خالد بن عبدالعزیز کے حکم پر احمد بن ابراہیم بدر نےتیار کیا۔
مورخین کے مطابق خانہ کعبہ کا سب سے پہلا دروازہ ’تبع‘ بادشاہ نے لگایا۔ سیرت ابن ھشام کے مطابق یہ واقعہ بعثت نبوی سے صدیوں پہلے کا ہے۔
الارزوقی نے اخبار مکہ میں ابن جریر کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ تبع ہی وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کو پاک صاف کیا، اس کا باب بنایا اور لگایا، اس کی چابی تیار کی ، اس پر غلاف چڑھایا اور اپنی اولاد میں جرہم کو اس کی وصیت کی۔
مورخین کے مطابق تبع بادشاہ کا تیار کردہ بابِ کعبہ لکڑی سے بنایا گیا تھا جو پورے دور جاہلیت میں موجود رہا۔ بعثت نبوی اور عہد اسلامی کے ابتدائی دور کے بعد 64 ھ میں اسے حضرت عبداللہ بن زبیر کے دور میں تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے 11 ہاتھ لمبا بابِ کعبہ تیار کیا جسے خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا۔
اس کے بعد حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر والا باب کعبہ تبدیل کرکے دوبارہ 6 ہاتھ والا دروازہ لگایا۔
اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے بادشاہ مراد رابع یا مراد چہارم کے دور 1045ھ میں بابِ کعبہ دوبارہ تبدیل کیا گیا، جو 1356ھ تک قائم رہا۔ اس بار اس پر چاندی کی قلعی کی گئی اور 200 رتل سونا چڑھایا گیا۔ خانہ کعبہ کا یہ پہلا باب تھا جس پ قلعہ کاری کی گئی۔
اس دروازے کے دو پاٹ ہیں جن پر تاریخی فن تعمیر کے نقش ونگار بنائے گئے ہیں۔ اس کی تیاری میں دھاتی پلیٹوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ باب کعبہ بھی اپنے معیار میں اعلیٰ ترین ہے یہ دروازہ خانہ کعبہ کی مشرقی دیوار پر مسلسل 300 سال تک حجاج و معتمرین کا استقبال کرتا رہا۔
سعودی سلطنت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1363ھ میں خاص طورپر ایک نیا باب کعبہ ذاتی دلچسپی کے تحت تیار کیا۔ نیا دروازہ اس لیے بھی تیارکیا گیا کیونکہ پرانا باب کعبہ طویل عرصہ گزرجانے کے باعث کمزور ہوگیا تھا۔
شاہ عبدالعزیز کے حکم پر خانہ کعبہ کے لیے نیا دروازہ تین سال کی محنت سے تیار کیا گیا۔ اس کی بنیاد فولاد سے بنائی گئی، اس دو پاٹ پر مشتمل لکڑی سے تیار کردہ دروازے پر سونے اور چاندی کی ملمع کاری کی گئی۔
اس کے بعد شاہ خالد بن عبدالعزیز کے حکم پر موجودہ دروازہ احمد بن ابراہیم بدر نے مسلسل 12 ماہ کی محنت سے تیار کیا گیا جو 1398ھ میں خانہ کعبہ کی زینت بنایا گیا اور آج تک قائم ہے۔ اس کی تیاری میں 280 کلوگرام سونے کے ساتھ ساتھ 10 لاکھ 43 ہزار 20 ریال خرچ ہوئے۔
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر سعد الراشد نے کہا کہ جب شاہ عبدالعزیز نے مملکت کو متحد کیا تو ان کی پہلی فکر حرمین شریفین کی توسیع تھی۔ انہیں مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر، دیکھ بھال اور ترقی میں گہری دلچسپی تھی۔
چنانچہ حرمین شریفین کی ترقی اور توسیع کا جو سلسلہ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز آل سعود کےدور میں شروع ہوا وہ آج کے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بھی جاری و ساری ہے۔
واضح رہے کہ ابواب کعبہ زمین پر موجود کسی عمارت کے سب سے پرانے دروازے ہیں۔ خانہ کعبہ کے پرانے دروازے آج بھی سعودی عرب کے قومی ثقافتی ورثے میں محفوظ ہیں اور سعودی عرب کی شان دار تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
آج بھی خانہ کعبہ کے ان دیرینہ دروازوں کا دنیا طواف کرتی ہے۔ حال ہی میں ابوظہبی میں لوور میوزیم (Louvre Museum) میں دیگر تاریخی اور نادرو نایاب اشیاء کے ساتھ باب کعبہ بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
Comments are closed.