- مصنف, ولید بدران
- عہدہ, بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
13 جون 1325 کو ایک مراکشی نوجوان ابو عبداللہ محمد ابن بطوطہ نے ایک تاریخی اور غیر معمولی سفر شروع کیا۔ آئندہ تین دہائیوں کے دوران انھوں نے شمالی افریقہ کے وسیع علاقوں سے لے کر چین کا دورہ کر لیا۔ انھوں نے 14ویں صدی کے حوالے سے وہ اہم باتیں بتائیں جو اس سے قبل لوگ نہیں جانتے تھے۔انسائیکلوپیڈیا برٹینیا کے مطابق ابن بطوطہ 24 فروری 1304 کو مراکش میں پیدا ہوئے۔ انھیں قرون وسطیٰ کا عظیم مسلم ایکسپلورر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک لاکھ 20 ہزار مربع کلو میٹر طویل سفر کیا اور ایک مشہور سفر نامہ بھی تحریر کیا۔اس سفر میں قریب تمام اسلامی ممالک کے علاوہ چین اور سوماترا (موجودہ انڈونیشیا) شامل تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ابن بطوطہ کی ابتدائی زندگی اور سفر کا آغاز
وہ مراکش کے شہر طنجہ میں اسلامی سکالروں کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں ابتدائی طور پر اسلامی قوانین اور قرآن کی تعلیم دی گئی۔ تاہم وہ ایک جگہ بیٹھ کر اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتے تھے۔ انھیں زندگی کا مقصد تلاش کرنے کا جنون تھا اور شاید اسی لیے ان میں حج کی ادائیگی کی خواہش پیدا ہوئی۔21 سال کی عمر میں ابن بطوطہ طنجہ سے حج کی نیت سے نکلے۔ اس وقت تک انھیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی آگے کی زندگی سفر میں گزر جائے گی۔ان کا ابتدائی ہدف مقدس شہر مکہ تھا مگر مذہبی عقیدت، ادبی دلچسپی اور جذبے کی بدولت یہ سفر انھیں کہیں آگے لے گیا۔شمالی افریقہ میں ابن بطوطہ کے سفر کا آغاز خطرے سے بھرپور تھا جہاں انھیں مشکل صحرا اور ڈاکوؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مغربی خطے سے گزرے جہاں انھوں نے کئی قبصوں اور شہروں کا دورہ کیا جیسے تلمسان اور بجایہ جو موجوہ الجزائر میں واقع ہیں۔ انھوں نے تیونس اور طرابلس (موجودہ لیبیا کے دارالحکومت) کا بھی دورہ کیا۔مصر آمد پر ابن بطوطہ قائرہ کے عظیم شہر کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ یہ قدیم دور کے ان شہروں میں شمار ہوتا تھا جہاں سب سے زیادہ چہل پہل تھی۔ وہاں وہ سلطنت مملوک کی عظیم مساجد، مصروف بازاروں اور علمی اداروں میں گئے۔ انھوں نے سکندریہ کا بھی دورہ کیا۔شروع میں وہ صرف حج کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد مصر، شام اور حجاز کے معروف مذہبی سکالر اور صوفی بزرگوں کے حوالے سے تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس علم نے انھیں عدالتی پوزیشن کے لیے اہل بنایا۔ اسلامی تعلیم کے سابق طالبعلم کی حیثیت نے انھیں کئی مواقع فراہم کیے۔ وہ حکمرانوں کے درباروں میں قابل احترام مہمان بنتے تھے۔مصر میں اپنے سفر کے دوران ان میں مزید جنون پیدا ہوا۔ انھوں نے دنیا کے کئی حصے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھی وہاں تجارت، زیارت یا تعلیم کے لیے سفر کرتے تھے۔ مگر ابن بطوطہ کے اندر نئے ملکوں اور نئے لوگوں کو جاننے میں دلچسپی تھی۔کئی سلطانوں، حکمرانوں اور گورنروں نے ان کا استقبال کیا اور ان کی مدد کی جس کی بدولت وہ یہ سفر جاری رکھ پائے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حج کے بعد بھی سفر نہ تھما
قاہرہ سے ابن بطوطہ بالائی مصر کی طرف چل پڑے اور بحیرہ احمر سے لوٹ کر شام کا دورہ کیا جہاں وہ مکہ جانے والے ایک قافلے میں شامل ہوگئے۔1326 میں حج ادا کرنے کے بعد وہ شمال میں عراق گئے۔ انھوں نے بغداد کا دورہ کیا جو کہ خلافت عباسی کا سابقہ گڑھ تھا۔ ایران میں وہ آخری منگول ابوسعید سے ملے۔ انھوں نے اصفہان اور شیراز شہروں کا دورہ کیا جن کی ثقافت اور ادبی زندگی سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ابن بطوطہ نے 1327 سے 1330 تک مکہ اور مدینہ میں خاموش زندگی گزاری مگر یہ وقفہ مزید طویل نہ ہوسکا۔حج ان کے لیے ایک روحانی سفر تھا۔ اس دوران وہ اسلامی دنیا کی مختلف ثقافتوں اور لوگوں سے ملے۔ اس نے ان میں مزید سیاحت کا جذبہ پیدا کیا۔وہ جدا سے ایک بحری جہاز پر سوار ہوئے۔ انھوں نے بحیرہ احمر سے یمن کا سفر طے کیا پھر دوبارہ عدن کے لیے روانہ ہوئے۔وہ جدہ سے ایک بحری جہاز پر سوار ہوئے۔ اپنے پیروکاروں کے ایک دستے کے ساتھ بحیرہ احمر کے دونوں ساحلوں سے یمن کی طرف روانہ ہوئے، اسے زمینی راستے سے عبور کیا۔ عدن سے دوبارہ روانہ ہوئے اور اس بار انھوں نے افریقہ کے مشرقی ساحل سفر سے کیا۔ انھوں نے تجارتی شہروں جیسے کِلوا (تنزانیہ) کا دورہ کیا۔ واپسی کا سفر انھیں جنوبی عرب، عمان، ہرمز، جنوبی فارس اور خلیج کے پار 1332 میں مکہ واپس لے گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہندوستان کا سفر
مکہ میں ان کے ذہن میں ایک نیا منصوبہ بنا۔ جب انھوں نے دہلی کے سلطان محمد بن تغلق اور مسلم علما کی شاندار سخاوت کے بارے میں سنا تو انھوں نے اس دربار میں اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ایک بالواسطہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو کر ابن بطوطہ شمال کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ مصر اور شام سے گزر کر دوبارہ ایک جہاز لے کر ایشیا مائنر (اناطولیہ) پہنچے جہاں انھوں نے کئی سمتوں سے ’ترکوں کی سرزمین‘ کو ایک ایسے وقت میں عبور کیا جب اناطولیہ بہت سی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم تھا۔تاریخ کی کتابوں میں وہ سلجوق سلطنت کے خاتمے اور سلطنت عثمانیہ کے عروج کے بارے میں قابل اعتماد ذرائع بن گئے۔ تمام مقامی حکمرانوں نے ابن بطوطہ کا فراخدلی سے استقبال کیا۔انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق بازنطینی دارالحکومت کے بارے میں ابن بطوطہ کا حوالہ واضح اور درست ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنے ساتھی مسلمانوں کے غیر مسلموں کے بارے میں سخت خیالات ظاہر کیے تاہم دوسرے روم کے بارے میں ان کا بیان انھیں کسی حد تک متجسّس آدمی کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ تاہم وہ ہمیشہ غیر مسلم ممالک کی نسبت عالم اسلام میں زیادہ خوش محسوس کرتے تھے، چاہے وہ مسیحی، ہندو یا بت پرست ہوں۔قسطنطنیہ سے واپسی پر انھوں نے ہندوستان کی سمت میں اپنا سفر جاری رکھا۔ انھوں نے ایک قافلے کے ساتھ وسطی ایشیا کا سفر کیا جہاں انھوں نے بخارا، سمرقند اور بلخ کے قدیم شہروں کا دورہ کیا۔ ان سبھی پر منگول حملے کے اثرات موجود ہیں۔ انھوں نے خراسان اور افغانستان سے ہوتے ہوئے کچھ پیچیدہ راستے اختیار کیے اور ہندوکش پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد ہندوستان اور دہلی سلطنت پہنچے۔وہاں وہ سلطان محمد بن تغلق کے سامنے حاضر ہوئے جنھوں نے انھیں قاضی مقرر کیا۔ ابن بطوطہ نے ہندوستان میں کئی سال گزارے جہاں انھوں نے اس معاشرے کی پیچیدگیوں اس کی انتظامیہ اور مختلف مذہبی روایات کے درمیان تعلق کا مشاہدہ کیا۔ابن بطوطہ نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں ان کی حیثیت خطرے سے خالی نہیں۔ سخاوت اور ظلم کے ایک غیر معمولی مرکب سلطان محمد بن تغلق نے ہندوستان کے زیادہ تر حصے کو مسلمانوں اور ہندوؤں پر ایک آہنی ہاتھ سے کنٹرول کیا۔ ابن بطوطہ نے سلطان اور اس کی حکمرانی کی تمام شان و شوکت اور ناکامیوں کا مشاہدہ کیا اور اپنی زندگی کے لیے روزانہ خوفزدہ رہے کیونکہ انھوں نے بہت سے دوستوں کو اس کا شکار ہوتے دیکھا۔ ابن بطوطہ کی جانب سے سلطان محمد ابن تغلق کے کردار کی عکاسی نفسیاتی بصیرت کا ایک غیر معمولی نمونہ تھا جس میں ان کا خوف اور ہمدردی دونوں عیاں تھا۔ سلطان نے ابن بطوطہ کو 1342 میں چینی حکمران کے لیے اپنا سفیر مقرر کیا۔ ابن بطوطہ نے بغیر کسی افسوس کے دہلی چھوڑ دیا لیکن یہ سفر مزید خطرات سے بھرا ہوا تھا کیونکہ سفارتخانے پر ہندو باغیوں نے حملہ کیا تھا۔ وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر نکلے۔ جنوب مغربی ہندوستان کے مالابار ساحل پر انھوں نے خود کو مقامی جنگوں کے درمیان پایا۔ان کا جہاز آخر کار کالی کٹ (اب کوزی کوڈ) کے قریب تباہ ہو گیا۔ وہ اپنی قیمتی اشیا اور چینی شہنشاہ کو پیش کیے جانے والے تحائف سے محروم ہوگئے۔ سلطان کے غضب سے خوفزدہ ہو کر ابن بطوطہ نے مالدیپ جانے کا انتخاب کیا جہاں انھوں نے تقریباً دو سال بطور جج گزارے۔ مالدیپ سے انھوں نے سری لنکا کا سفر جاری رکھا جہاں انھوں نے سرسبز مناظر اور بدھ مت کے مندروں کی سیر کی۔ جنوب مشرقی ہندوستان میں کورومینڈیل ساحل پر اپنے جہاز کے تباہ ہونے کے بعد وہ دوبارہ مالدیپ پھر بنگال اور آسام گئے۔ اس وقت انھوں نے چین کے لیے اپنا مشن دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور سماترا کی طرف روانہ ہوئے۔وہاں مسلمان سلطان نے انھیں ایک نیا جہاز دیا اور وہ چین کے لیے روانہ ہوئے۔ ابن بطوطہ جہاں بھی گئے، انھوں نے ان جگہوں، لوگوں اور ثقافتوں کو تفصیل سے درج کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین کا دورہ اور واپسی
ابن بطوطہ کے سفر کا سب سے نمایاں مرحلہ ان کا چین کا سفر تھا۔ 1345 میں وہ کوانزو کے ہلچل سے بھرے تجارتی مرکز میں پہنچے۔چین کے بارے میں ابن بطوطہ کی تحریر ایسی دنیا کی جھلک پیش کرتی ہے جسے اس سے قبل محض چند ہی یورپی یا عربوں نے خود دیکھا ہوگا۔وہ بیجنگ میں شاہی دربار کی شان و شوکت، چینی تہذیب کی ترقی اور چینی طرز حکمرانی پر حیران رہ گئے۔ انھوں نے نوٹوں میں تجارت کے وسیع نیٹ ورک کی تفصیل لکھی۔ ابن بطوطہ کا چین کا سفر ہمیں قرون وسطیٰ میں باہمی روابط کے بارے میں بتاتا ہے جس میں تجارت اور سفارتکاری کا عمل دخل رہتا تھا۔ مشرق بعید میں اپنے وسیع سفر کے بعد ابن بطوطہ نے 1346 میں سماترا، مالابار اور خلیج کے راستے بغداد اور شام کے ذریعے مراکش واپسی کا سفر شروع کیا۔شام میں انھوں نے 1348 میں بلیک ڈیتھ کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ وہاں اور مصر کے کئی شہروں کا دوبارہ دورہ کیا۔ اسی سال انھوں نے مکہ جا کر اپنا آخری حج کیا۔ وہاں سے وہ مصر چلے گئے جہاں سے وہ سکندریہ، تیونس، سارڈینیا اور الجزائر کی طرف روانہ ہوئے۔ نومبر 1349 میں وہ مراکش کے شہر فاس پہنچے۔ لیکن اب بھی دو مسلم ممالک ہیں جن کا انھیں ابھی تک علم نہیں۔ واپسی کے فوراً بعد وہ غرناطہ کی بادشاہی میں گئے جو موریش سپین کی آخری باقیات تھی۔ دو سال بعد (1352 میں) وہ مغربی سوڈان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آخری سفر (صحارا کے پار مغربی افریقہ تک) سلطان کے حکم سے غیر ارادی طور پر کیا گیا تھا۔ صحارا کو عبور کرنے کے بعد انھوں نے ایک سال مالی سلطنت میں گزارا جو طاقت کے عروج پر تھی۔ ان کی تحریر میں منسا سلیمان کے دور کا حوالہ تاریخی اعتبار سے کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔ 1353 کے آخر میں ابن بطوطہ مراکش واپس آئے اور سلطان کی درخواست پر مصنف ابن جوزی کو اپنی یادداشتیں لکھیں جنھوں نے ابن بطوطہ کے سادہ نثر کو آرائشی انداز اور اشعار کی آیات سے مزین کیا۔ اس کے بعد ابن بطوطہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی موت سے قبل مراکش کے ایک قصبے میں قاضی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق غالباً ان کی وفات 1368، 1369 یا 1377 میں ہوئی اور انھیں ان کے آبائی شہر تانگیر میں دفن کیا گیا۔ ،تصویر کا ذریعہFACEBOOK
ابن بطوطہ نے دنیا میں مثال قائم کی
ابن بطوطہ کا سفر ایک اندازے کے مطابق 120,000 مربع کلومیٹر پر محیط تھا۔ انھوں نے اس اعتبار سے مشہور اطالوی ایکسپلورر مارکو پولو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ان کے تفصیلی مشاہدات اور وضاحتیں 14ویں صدی کی دنیا میں ایک منفرد تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں مختلف خطوں کے جغرافیہ، ثقافتوں، معیشتوں، مناظر اور سیاسی حالات کے بارے میں قیمتی خیالات ہیں۔ان کی تحریر قرون وسطی کے عروج کے زمانے میں اسلامی دنیا کے بارے میں بتاتے ہیں۔اس میں وسیع تجارتی نیٹ ورک، فکری تبادلے اور ثقافتی روابط کے بارے میں خاص معلومات ہے۔ ابن بطوطہ کے سفر سے ظاہر ہوا کہ حج اسلامی دنیا میں ایک ایسی چیز ہے جو مسلمانوں کو متحد کرتی ہے۔ اس دوران خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور مسلمانوں کو مشترکہ شناخت کا احساس ہوتا ہے۔ابن بطوطہ کے سفر نے جغرافیہ، تاریخ اور بشریات کے شعبوں پر دیرپا اثرات مرتب کیے کیونکہ انھوں نے ان مقامات اور ثقافتوں کے بارے میں بتایا جن سے مغرب لاعلم تھی۔ انھوں نے مورخین اور محققین کو معلومات کا ایک خزانہ فراہم کیا۔ ان کی کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے سکالرز اب بھی اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور حوالہ دیتے ہیں۔اپنے سفر کے دوران انھوں نے کم از کم 60 حکمرانوں اور بہت سے وزیروں، گورنروں اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور اپنی کتاب میں ان 2000 سے زائد لوگوں کا ذکر کیا جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے تھے یا جن کی قبروں پر وہ جاتے تھے۔ان لوگوں کی اکثریت کی شناخت آزاد ذرائع سے کی جا سکتی ہے اور ابن بطوطہ کے مواد میں ناموں یا تاریخوں میں حیرت انگیز طور پر کچھ غلطیاں بھی ہیں۔ان کی کتاب میں خود ان کی شخصیت کے حوالے سے دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ قارئین کو 14صدی کے ایک مڈل کلاس مسلمان کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے جو خود شریعت اور صوفی راستے کے بیچ جھول رہا ہے اور ایک وقت میں دونوں میں مہارت رکھتا ہے۔ وہ کوئی گہرا فلسفہ بیان نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی کی حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ اس دوران وہ مستقبل کی نسلوں کے لیے اپنی اصل شخصیت اور اردگرد کے حالات کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ابن بطوطہ کا غیر معمولی سفر اس بات کو ثبوت ہے کہ علم کی پیاس انسان کو کہیں بھی لے جاسکتی ہے جو کہ تاریخ میں انسانیت کے ساتھ اکثر ہوچکا ہے۔ ان کے سفر کا مقصد محض ذاتی تفریح نہیں بلکہ اس سے انھوں نے دنیا کے بارے میں اہم معلومات بٹوری۔ابن بطوطہ کو آج بھی عظیم ایکسپورر مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے سفر اور متنوع روابط سے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.