- مصنف, اتاہولپا امرائز
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
نکاراگوا کے آگسٹو سی سینڈینو جب21 فروری سنہ 1934 کی رات مناگوا میں لا لوما کے صدارتی محل میں عشائیہ کے لیے گئے تو یہ ان کے گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ یہ ان کی آخری رات ہو گی۔اس بدھ کو ان کی موت کو 90 سال ہو رہے ہیں۔ ان کا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس نے ان کی کہانی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس وسط امریکی ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔سینڈینو کی شخصیت نکاراگوا کے لوگوں کے درمیان بحث کا موضوع رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے وہ مزاحمت اور قومی خودمختاری کی علامت ہیں تو بعض کے لیے وہ ایک بے رحم جنگجو تھے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی جدوجہد نکاراگوا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قتل
سینڈینو نے 21 فروری سنہ 1934 کو لا لوما کے صدارتی محل میں منعقدہ ایک ڈنر میں شرکت کی تھی۔ انھیں صدر جوآن بوٹیسٹا سیکاسا نے مدعو کیا تھا۔سیکاسا اس سے ایک سال قبل ہی برسراقتدار آئے تھے۔ ان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ نکاراگوا سے امریکی فوجیوں کا انخلا ہوا اور ملک کی متنوع اور مخالف سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت کا مرحلہ شروع ہوا۔ان میں سے ایک گوریلا دھڑا تھا جس کی کمانڈ سینڈینو کر رہے تھے اور انھوں نے آخری امریکی جنگجو کے انخلا تک امریکی مداخلت کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔سینڈینو کو کسان برادریوں میں زبردست حمایت حاصل تھی اور انھوں نے سیکاسا حکومت کے ساتھ امن پر دستخط کیے تھے اور ملک میں سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ کے ساتھ خود کو ایک قسم کی خود مختار طاقت کے طور پر مستحکم کر لیا تھا۔عشایہ کے بعد جب سینڈینو محل سے نکل رہے تھے تو انھیں ان کے چار ساتھیوں کے ساتھ نیشنل گارڈ کے ارکان نے انھیں حراست میں لے لیا۔ اس وقت نیشنل گارڈ کی قیادت اینستاسیو سوموزا گارشیا کر رہے تھے اور اس واقعے کے تین سال بعد انھوں نے نکاراگوا کا اقتدار سنبھالا اور چار دہائیوں سے زائد عرصے تک ان کا خاندان حکومت کو کنٹرول کرتا رہا۔گوریلا سینڈینو پر کتاب کے مورخ آسکر رینی ورگاس نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینڈینو کو اس کی توقع نہیں تھی۔ ان کے دو ساتھیوں (ان کے والد اور مصنف سوفونیاس سالوتیرا جو بعد میں سیکاسا کے وزیر زراعت بنے) کو قید کر دیا گیا اور سینڈینو کو ان کے باقی ماندہ دو لیفٹیننٹ کے ساتھ میناگوا کے مضافات میں ایک کھلے میدان میں لے جایا گیا اور گولی مار دی گئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
سینڈینو کی لڑائی
اس رات کیا ہوا تھا؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی صدی کی تیسری دہائی کے وسط میں واپس جانا پڑے گا جب دو دشمن اقتدار کے لیے لڑ رہے تھے۔ ایک قدامت پسند اور دوسرا لبرل، جن سے سینڈینو کا ایک زمانے سے تعلق تھا۔امریکہ کے اس ملک میں اقتصادی مفادات تھے اور اس لیے وہ نکاراگوا کی سیاست میں مسلسل مداخلت کر رہا تھا۔ وہ عام طور پر قدامت پسندوں کے حق میں تھا اور ان کے لیے اس نے وہاں فوجی تعینات کر دیے تھے۔قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کے لیے سنہ 1927 میں بلیک ہتھورن معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں قدامت پسند حکومت کے اس وقت تک قائم رہنے کا اشارہ دیا گیا تھا جب تک کہ امریکہ کی ثالثی اور نگرانی میں انتخابات نہیں ہو جاتے۔سینڈینو نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی گوریلا فوج کے لیے مزید کسانوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا۔ ان کی فوج نکاراگوا کی قومی خودمختاری کے دفاع میں لڑنے والی فوج ای ڈی ایس این تھی جو امریکی فوجیوں اور نکاراگوا نیشنل گارڈ کے خلاف لڑتی تھی۔گوریلا نے تیزی سے ترقی کی اور اگلی دہائی کے آغاز میں انھوں نے امریکی افواج کے خلاف اہم فتوحات جاری رکھیں۔ اس کی وجہ سے امریکہ نے سنہ 1932 کے آخر میں نکاراگوا کو بالآخر ترک کر دیا اور اس کے ساتھ ہی لبرل تصویر کیے جانے والے سیکاسا بھی وہاں کے صدر منتخب ہوئے۔ سینڈینو اور سیکاسا نے ایک امن معاہدہ کیا جبکہ سوموزا کی قیادت میں نیشنل گارڈ نے ملکی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالی تاہم سینڈینو کے گوریلا فوجی جزوی طور پر مسلح اور متحرک رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کس نے اور کیوں مارا؟
سرکاری ورژن یہ ہے کہ اینستاسیو سوموزا گارشیا نے صدر سیکاسا کی پیٹھ پیچھے نیشنل گارڈ کے 14 ارکان کے ساتھ قتل کی منصوبہ بندی کی۔ سوموزا نے خود دو سال بعد اعلان کیا کہ انھوں نے اس وقت کے امریکی سفیر آرتھر بلیس لین کے حکم سے سینڈینو کو قتل کیا تھا۔مورخ آسکر رینے ورگاس کا کہنا ہے کہ ’سوموزا کی امریکی سفارت خانے کے ساتھ ملی بھگت تھی، یہ سب کو معلوم تھا اور تاریخی طور پر ثابت بھی ہے‘ لیکن ہمبرٹو بیلی کو اس پر شک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’امریکی سفیر پر الزام لگا کر سوموزا نے اپنا چہرہ تھوڑا صاف کرنا چاہا تھا لیکن امریکہ کو سینڈینو کی موت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے تھے۔ اس وقت سینڈینو ایک مقامی مسئلہ بنے ہوئے تھے۔‘
تو پھر انھیں کیوں قتل کیا گیا؟ہمبرٹو بیلی کا کہنا ہے کہ ’نیشنل گارڈ کے لیے سینڈینو کو ختم کرنا تقریباً سیاسی ضرورت بن گئی تھی۔‘مصنف نے سینڈینو کے قتل کو اس حقیقت سے منسوب کیا ہے کہ گوریلا لیڈر کے پاس ’یقینی طور پر کہیں زیادہ مضبوط فوجی طاقت تھی اور جنرل سٹاف نیشنل گارڈ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ملک میں ایک علیحدہ مسلح جاگیردارانہ ریاست کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اس کا واحد حل سینڈینو کا قتل ہے۔‘دوسری جانب آسکر رینے ورگاس کا کہنا ہے کہ سینڈینو کی تحریک نے تقریباً چھ محکموں کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نکاراگوا میں ایک متبادل طاقت قائم کی ہوئی تھی جو نہ تو امریکہ اور نہ ہی ملک کے معاشی طبقہ کو قابل قبول تھا۔‘ورگاس بتاتے ہیں کہ سینڈینو نے ’زرعی اصلاحات کی وکالت کی تھی جس نے بڑے پیمانے پر زمین کو حاصل کرنے کے ماڈل کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ حکمران طبقے کے لیے ایک مسئلہ بن گيا تھا اور اسی لیے انھوں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
سینڈینو کے خیالات
آگسٹو سیزر سینڈینو نے کوئی تحریری میراث نہیں چھوڑی ماسوا ان خطوں کے جو انھوں نے اس وقت کے حکام کو لکھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے نہ تو کسی مخصوص نظریے کی رکنیت اختیار کی تھی اور نہ ہی کوئی نیا طریقہ یا نقطۂ نظر وضع کیا تھا۔آسکر رینی ورگاس کے لیے سینڈینو کا نظریہ ’سامراج مخالف، قوم پرستانہ اور زرعی وژن‘ کا مرکب تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بائیں بازو کے نظریات کے حامل ہوں۔ان کا خیال ہے کہ اگرچہ سینڈینو نے سماجی اصلاحات کی وکالت کی لیکن ان کی تحریک خودمختاری اور حق خود ارادیت کے اصولوں پر مبنی تھی۔ورگاس کے مطابق وہ میکسیکن انقلاب سے نمایاں طور پر متاثر تھے جس کی وجہ سے انھوں نے ’نکاراگوا کی زرعی اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی جو اس وقت موجود اصولوں کے اندر ایک انقلابی تجویز تھی۔‘مصنف ہمبرٹو بیلی نے اس معاملے پر اپنا ایک تنقیدی نظریہ پیش کیا، جو سینڈینو کے زیادہ روایتی اور بہادرانہ تصورات سے متصادم ہے۔وہ کہتے ہیں کہ سینڈینو نے ’اقتدار میں آنے کے بارے میں سوچنا کبھی نہیں چھوڑا، وہ صدر بننا چاہتے تھے اور اس بات کے بہت سارے حوالہ جات اور تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اگر وہ یہ حاصل کر لیتے تو وہ خونخوار اور مطلق العنان رہنما یا آمر ہوتے۔‘ بیلی نے سینڈینو کے نظریاتی رجحان کو ’ایک بہت ہی عجیب مرکب‘ کے طور پر بیان کیا ہے، جو اس وقت کے میکسیکو میں رائج یونیورسل کمیون کے روحانی سکول سے متاثر تھا۔ان کے زرعی وژن کے بارے میں بیلی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سینڈینو نے زمین کی تقسیم اور کسان کوآپریٹیو بنانے کی بات کی تھی لیکن انھوں نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کی تجاویز محدود تھیں۔انھوں نے کہا کہ ’وہ کافی حد تک ناخواندہ آدمی تھے۔ وہ پڑھنا لکھنا تو جانتے تھے لیکن اس سے آگے نہیں تھے اور ان کے پاس نکاراگوا کے لیے کوئی مربوط خیال نہیں تھا کہ وہ اسے کیسے آگے لے جائيں گے۔ ہاں انھوں نے زمین کی تقسیم کے بارے میں بات کی لیکن بس اتنا ہی تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
میراث
سینڈینو کی میراث کے بارے میں آسکر رینی ورگاس کہتے ہیں کہ ’تاریخ میں پہلی بار ایسا تھا جس میں ایک کسان گوریلا، امریکی مداخلت کو شکست دینے میں کامیاب ہوا تھا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ دوسرا تاریخی سبق یہ ہے کہ سینڈیونزم نے لاطینی امریکہ میں ایک ایسے دور کو نشان زد کیا جہاں پہلی بار یکجہتی کی تحریک پیدا ہوئی اور ’سنہ 1932 کے ایل سلواڈور میں سماجی بغاوت میں تبدیل ہوئی۔‘سینڈیونزم کے بینر تلے آج ڈینیئل اورٹیگا اور ان کی اہلیہ اور نائب صدر روزاریو موریلو، نکاراگوا پر حکومت کر رہے ہیں، جہاں آزادانہ انتخابات نہیں ہوتے اور سینکڑوں سیاسی مخالفین کو قید کیا گیا اور بعد میں ملک بدر کر دیا گیا۔ورگاس نے اورٹیگا اور موریلو پر سینڈینو کی شخصیت کو داغدار کرنے کا الزام لگایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آمریت سے پہلے سینڈینو کے نظریات پر قومی اتفاق رائے تھا لیکن اب نکاراگوا کے معاشرے میں ایک شعبہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ سینڈیونزم برا ہے کیونکہ وہ اورٹیگا اور موریلو کو سینڈینو کی توسیع سمجھتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.