آپ گپ شپ کے شوقین ہیں تو سویڈن کبھی مت جائیے گا!

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بہت سی ثقافتوں میں، کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کرنا معمول کی بات ہے اور یہاں تک کہ یہ گپ شپ ایک بڑھتی ہوئی دوستی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ لیکن سویڈن میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔

اس ملک میں وقت گزارنے نے لیے اجنبیوں کے درمیان کی جانے والی معمولی بات چیت کو بیکار کام سمجھا جاتا جاتا ہے۔ سویڈن میں اس نوعیت کی چٹ چیٹ کو ’کالپریٹ‘ یا ’ڈوڈپریٹ‘ (یعنی ڈیڈ ٹاک) کہا جاتا ہے۔

اور خود کو ایسی صورتحال سے بچانے کے لیے سویڈش باشندے سڑک پر آنے والے اجنبیوں اور جاننے والوں کے ساتھ نظریں ملانے سے ہی بچتے ہیں اور اس کے لیے وہ یا تو اپنے فون کو دیکھتے رہتے ہیں یا بازاروں میں دکانوں کی کھڑکیوں کو گھورنے لگتے ہیں۔

سویڈن کے لوگوں کے نزدیک بات چیت کا مقصد صرف بامعنی معلومات کا تبادلہ کرنا ہے، اور بے مقصد گپ شپ میں مشغول ہونے کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے۔

گذشتہ چار ہفتوں سے سویڈن کی شمالی ترین کاؤنٹی کے 80 ہزار افراد پر مشتمل دارالحکومت ’لولیا‘ کی انتظامیہ شہریوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ ایک سرکاری مہم ’say hello‘ میں حصہ لیں اور ایک دوسرے کو خوش آمدید کہیں۔

یہ شہر سویڈن کے انتہائی شمال میں واقع ہے کہ یہاں موسم اتنا سرد ہے کہ رہائشیوں کو سردیوں کے موسم میں صرف تین گھنٹے تک سورج کی روشنی دکھائی دیتی ہے اور یہ چیز ان کے الگ تھلگ اور دوسری سے لاتعلق رہنے کی فطرت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

درحقیقت، لولیا شہر میں لوگ ایک دوسرے سے اتنا کم بات کرتے ہیں کہ عومی طور پر وہ کسی دوسرے شخص کی بات کے جواب میں لفظ ’ہاں‘ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ محض ایک لمبی سانس لے لیتے ہیں (جس کا مطلب ہاں سمجھا جائے)۔

حکام کو امید ہے کہ اس مہم سے مقامی لوگوں کے موڈ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو تنہائی محسوس کرتے ہیں۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سویڈن کے باسی اجنبیوں سے نظریں ملانے سے بچنے کے لیے یا تو اپنے فون کو دیکھتے رہتے ہیں یا بازاروں میں دکانوں کی کھڑکیوں کو گھورنے لگتے ہیں

شہر کے حکام کا کہنا ہے کہ ’اپنے پڑوسیوں کو ’ہیلو‘ کہنا اگرچہ ایک چھوٹی سی بات ہے، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ادا کرنا سماجی تعلقات میں فروغ کے لیے کردار ادا کرتا ہے اور صحت، حفاظت اور فلاح و بہبود پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ سویڈن میں دیگر ممالک سے آنے والے سیاح جب کسی دکاندار یا ویٹر کے ساتھ تھوڑی بہت گفتگو کا آغاز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ملنے والا جواب انتہائی عدم اعتماد کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر آپ سویڈن کے مقامی استقبالی لفظ ’ہیج‘ (hello) کہہ کر بات شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جواب میں سپاٹ لہجے میں آپ کو واپس ’ہیج‘ ہی سننے کو ملتا ہے اور لفظ کی اس ادائیگی میں بھی اکثر ہلکی سی جھنجھلاہٹ یا عدم اعتماد کی جھلک ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ الگ تھلگ رہنے کے اس رویے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سویڈن کا زمینی رقبہ کافی زیادہ ہے مگر دوسری جانب یہ انتہائی کم آبادی والا ملک ہے، جہاں سینکڑوں برسوں سے لوگ اپنے قریبی حلقے سے باہر کے لوگوں کے ساتھ شاذ و نادر ہی بات کرتے ہیں۔

ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ گپ شپ سے اس نفرت کو 1960 کی دہائی تک سویڈن میں امیگریشن کی نسبتاً کم سطح سے جوڑا جا سکتا ہے۔

تاریخی طور پر دوسری ثقافتوں سے کم واقفیت کا مطلب یہ تھا کہ سویڈش باشندے اس غیر سویڈش طرز عمل کو اپنانے کا امکان کم رکھتے تھے۔

پھر بھی، ان کے بظاہر سرد رویے کے باوجود، سویڈش لوگ تقریباً ہمیشہ شائستہ اور دوستانہ ہوتے ہیں۔ ہاں یہ زیادہ بات چیت کرنے والی ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں ہو سکتا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جو سادگی اور عملیت کا احترام کرتا ہے، بہتر ہے کہ بغیر کسی وجہ کے بات نہ کی جائے۔

BBCUrdu.com بشکریہ