’آپ کی تصاویر لیک ہو گئی ہیں‘: ٹیلی گرام پر ڈیپ فیک کی خفیہ دنیا جس نے خواتین اور بچوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنڈیپ فیک تصاویر زیادہ تر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی جاتی ہیں
3 گھنٹے قبلپچھلے سنیچر کو ہیجن (فرضی نام) کو اپنے موبائل فون پر ٹیلی گرام ایپ پر ایک نامعلوم شخص کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا: ’آپ کی تصاویر اور ذاتی معلومات لیک ہوگئی ہیں۔ آئیں اس حوالے سے بات کریں۔‘یونیورسٹی کی طالب علم ہیجن جیسے ہی ٹیلی گرام کے چیٹ روم میں داخل ہوئیں انھیں وہاں ان کی کچھ برس پُرانی ایک سکول کی تصویر موصول ہوئی۔ اس کے کچھ دیر بعد انھیں وہ ہی تصویر ایک بار پھر موصول ہوئی، فرق صرف اتنا تھا کہ یہ والی تصویر جنسی نوعیت کی تھی اور جعلی تھی۔ہیجن ڈر گئیں اور انھوں نے تصاویر بھیجنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا لیکن تصاویر آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ان تصاویر میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کا چہرہ جنسی سرگرمیوں میں مصروف جسموں پر لگایا گیا تھا۔ڈیپ فیک تصاویر زیادہ تر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی جاتی ہیں اور کسی اصلی شخص کا چہرہ کسی جعلی تصویر پر لگا دیا جاتا ہے۔

اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہیجن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بہت ڈری ہوئی تھی۔ میں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا۔‘لیکن وہ حقیقتاً تنہا نہیں تھیں۔دو دن پہلے ہی جنوبی کورین صحافی کو نارن نے ایک ایسی خبر شائع کی تھی جو کہ ان کے صحافتی کیریئر کی سب سے بڑی خبر بن گئی۔ اس ہی وقت یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ پولیس ملک کی دو بڑی جامعات میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پورن مواد بنانے والے گروہوں کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔ان اطلاعات کو دیکھ کر کو نارن کو لگا کہ یہاں ایسے اور بھی کیسز ہو سکتے ہیں۔کو نارن نے ایسے مزید کیسز کی تلاش کے لیے سوشل میڈیا کو کھنگالنا شروع کر دیا اور جلد ہی ٹیلی گرام پر ان کے سامنے ایسے درجنوں چیٹ گروپس آ گئے جہاں صارفین اپنے جاننے والی خواتین کی تصاویر شیئر کر رہے تھے اور انھیں مصنوعی ذہانت کے سوفٹ ویئر کی مدد سے جعلی پورنوگرافک تصاویر میں بدل رہے تھے۔کو نارن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر منٹ لوگ وہاں اپنے جاننے والی لڑکیوں کی تصاویر شیئر کر رہے تھے اور انھیں ڈیپ فیک تصاویر میں بدلنے کی درخواست کر رہے تھے۔‘کو نارن کو معلوم ہوا کہ یہ چیٹ گروپس صرف یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ نہیں بنا رہے تھے بلکہ وہاں ایسے بھی چیٹ رومز تھے جو کسی خاص ہائی سکول یا مڈل سکول کے لیے مختص تھے۔اگر ڈیپ فیک کی مدد سے کسی خاص طالب علم کی تصویر سے متعدد جعلی تصاویر بنائی جا رہی تھیں تو اکثر اس سٹوڈنٹ کی جعلی تصاویر کے لیے الگ چیٹ روم مختص کر دیا جاتا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesان چیٹ رومز کو ’ہیومیلیشن روم‘ یا ’فرینڈ آف فرینڈ رومز‘ کا نام دیا گیا تھا اور ان چیٹ رومز میں داخلہ سخت شرائط پر ہی دیا جاتا تھا۔’ہانکیورہ‘ اخبار میں چھپنے والی اس خبر نے جنوبی کوریا میں ایک طوفان برپا کر دیا۔ پیر کو پولیس نے اعلان کیا کہ وہ فرانس کی پیروی کرتے ہوئے ٹیلی گرام کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر رہے ہیں۔خیال رہے فرانس نے ٹیلی گرام کے روسی بانی کے خلاف موبائل فون ایپ پر ہونے والے جرائم کے حوالے سے مقدمہ درج کیا ہے۔جنوبی کوریا کے صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ڈیپ فیک کے ذریعے جنسی نوعیت کی تصاویر بنانے میں ملوث افراد کو کڑی سزا دلوائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں نوجوان مردوں کو بہتر تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے بی بی سی کو بھیجے گئے ایک پیغام میں ٹیلی گرام انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ’اپنے پلیٹ فارم پر متحرک انداز میں نقصان دہ مواد کا سدباب کرتے ہیں اور اس مواد میں غیرقانونی پورنوگرافی بھی شامل ہے۔‘

’ہم غصے اور ہیجان کا شکار ہیں‘

بی بی سی نے ایسے متعدد چیٹ روم کی ڈسکرپشنز پڑھی ہیں۔ ایک چیٹ روم میں صارفین کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی شخص کی کم سے کم چار تصاویر ان کے نام، عمر اور علاقے کی معلومات کے ساتھ شیئر کریں۔کو نارن کہتی ہیں کہ ’میں حیران تھی کہ یہ عمل کتنا منظم ہے۔ جو سب سے زیادہ خوفناک گروپ میں نے دیکھا وہ ایک سکول کے کم عمر بچوں کے لیے بنایا گیا تھا اور اس گروپ کے اراکین کی تعداد دو ہزار سے زیادہ تھی۔‘کو نارن کا آرٹیکل چھپنے کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے ٹیلی گرام کو کھنگالنا شروع کیا اور ان کے ہاتھ بہت سے شواہد بھی لگے۔اس ہفتے کے اختتام تک ایسے 500 سکول اور جامعات کی شناخت کر لی گئی جہاں کے طالب علم اس گھناؤنے جرم کا نشانہ بن رہے تھے۔اس کے بعد سے ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا سے اپنی تصاویر حذف کر دی ہیں یا پھر اپنے اکاؤنٹس معطل کر دیے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ وہ بھی جرم کا نشانہ بن سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک یونیورسٹی کی طالب علم کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’ہم غصے میں اور ہیجان کا شکار ہیں کیونکہ ہمیں اپنے مزاج کو بدلنا پڑ رہا ہے اور سوشل میڈیا سرگرمیوں کو محدود کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی تب جب ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘آہ یون نامی طالب علم کا دعویٰ ہے کہ ان کی یونیورسٹی کی ایک طالب علم کو پولیس نے کہا کہ وہ اس کیس کی پیروی نہ کریں کیونکہ ملوث افراد کو پکڑنا بہت مشکل ہوگا اور ’یہ دراصل کوئی جرم نہیں‘ کیونکہ ’تصاویر جعلی تھیں۔‘ٹیلی گرام اس سارے سکینڈل میں مرکزی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ دیگر عوامی ویب سائٹ تک پولیس کو باآسانی رسائی مل جاتی ہے اور اکثر درخواست کرنے پر یہ ویب سائٹس تصاویر حذف بھی کر دیتی ہیں لیکن ٹیلی گرام پر ایسا ہونا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ اینکرپٹڈ میسجنگ ایپ ہے۔ٹیلی گرام پر صارفین اکثر نامعلوم ہوتے ہیں، چیٹ رومز اکثر ’خفیہ‘ ہوتے ہیں اور ان میں موجود مواد اکثر ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ ایپ جرائم پیشہ برتاؤ کا گڑھ بن گئی ہے۔گذشتہ ہفتے سیاستدانوں اور پولیس نے اس پر سخت ردِعمل دیا اور وعدہ کیا کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کریں گے اور مجرموں کو کیفرِکردار تک پہنچائیں گے۔پیر کو سیول کی نیشنل پولیس ایجنسی نے اعلان کیا تھا کہ وہ بچوں کی جعلی جنسی تصاویر کی تقسیم میں ٹیلی گرام کے کردار کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ٹیلی گرام کے بانی پاول دورو پر گذشتہ ہفتے فرانس میں ان کی ایپ سے متعلق جرائم کے حوالے سے مقدمہ قائم کیا گیا ہے، ان کی ایپ پر الزام ہے کہ اسے بچوں کی جنسی تصاویر پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا میں ایسا سکینڈل ماضی میں بھی دیکھا جا چکا ہے۔ سنہ 2019 میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک گروہ ٹیلی گرام کا استعمال کرکے خواتین اور بچوں کو جنسی نوعیت کی تصاویر بنانے پر مجبور کر رہا ہے۔صحافی کو نارن کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مرکزی کرداروں کو تو سزا دے دی لیکن صورتحال کو یکسر نظر انداز کر دیا اور میرے خیال میں اس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔‘پارک جیہین نے بطور سٹوڈنٹ صحافی 2019 میں اس گروہ کا پردہ فاش کیا تھا اور اب وہ ایسے ڈیجیٹل جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کے لیے آواز اُٹھاتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب سے ڈیپ فیک کا نیا سکینڈل منظرِعام پر آیا ہے سٹوڈنٹس اور ان کے والدین مجھے متعدد بار فون کالز کر کے رو چکے ہیں۔’انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک فہرست میں اپنے سکول کا نام دیکھ لیا اور اب وہ ڈرے ہوئے ہیں۔‘پارک جیہین حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ یا تو ٹیلی گرام کو ریگولیٹ کریں یا پھر اس پر پابندی عائد کریں۔ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ٹیکنالوجی کمپنیاں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تعاون نہیں کرتیں تو ریاست کو چاہیے کہ وہ انھیں ریگولیٹ کریں اور اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔‘اس بحران سے قبل ہی جنوبی کوریا کے ایک ادارے ’اے سی او ایس اے وی‘ کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈیپ فیک پورنوگرافی سے متاثرہ کم عمر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔اس ادارے نے گذشتہ برس ان جرائم کا نشانہ بننے والے 86 متاثرین کو مدد فراہم کی تھی۔ اس سال صرف آٹھ ہی مہینوں میں متاثرین کی تعداد 238 تک جا پہنچی۔ادارے کے مطابق صرف گذشتہ ہفتے ہی ایسے 64 نوجوان افراد منظرِعام پر آئے ہیں جنھیں اس جُرم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ادارے کی ایک رہنما پارک سیونگہائے کا کہنا ہے کہ ’ہمارے لیے اب یہ کُل وقتی ایمرجنسی بن گئی ہے، یہ ایک جنگی صورتحال ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ایسا متعدد بار ہوا کہ ٹیلی گرام نے ان کی درخواست پر اپنے پلیٹ فارم سے مواد حذف کیا ہو۔انھوں نے ایسے مواد کو حذف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’یہ ناممکن نہیں۔‘ٹیلی گرام نے بی بی سی کو ایک بیان میں بتایا کہ ان کے موڈریٹرز متحرک انداز میں ایپ کی نگرانی کرتے ہیں، مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں اور صارفین کی شکایت پر مواد کو حذف بھی کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن84 ویمن نامی گروپ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’اس مسئلے کی جڑ جنسی تعصب ہے اور اس کا حل صرف جنسی برابری ہے‘

’اس مسئلے کی جڑ جنسی تعصب ہے‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والی ٹیکنالوجی نے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو آسان ضرور بنا دیا لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ جرائم جنوبی کوریا میں عورت بیزاری کے رویے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ان کے مطابق پہلے آن لائن پلیٹ فارمز پر خواتین کو بُرا بھلا کہا جاتا تھا، پھر خفیہ کیمرے آ گئے جن کی مدد سے چینجنگ رومز اور باتھ رومز میں خواتین کی خفیہ ویڈیوز بنائی گئیں۔84 ویمن نامی گروپ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’اس مسئلے کی جڑ جنسی تعصب ہے اور اس کا حل صرف جنسی برابری ہے۔‘یہ دراصل جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول پر براہِ راست تنقید ہے جو ملک میں منظم جنسی تعصب کی موجودگی کی تردید کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے متاثرین کو مدد فراہم کرنے والے گروپس کی فنڈنگ بھی کم کردی ہے اور جنسی برابری کو یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی وزارت کو بھی ختم کر دیا۔آہا سیول یوتھ کلچرل سینٹر سے منسلک کونسلر لی میونگ ہوا کہتے ہیں کہ ’نوجوانوں کے لیے ڈیپ فیک (تصاویر اور ویڈیوز بنانا) ایک کلچر کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اب وہ اسے ایک کھیل یا شرارت کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ نوجوان مردوں تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے اور ایک ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو ان کے جنسی نوعیت کے غلط کاموں سے متعلق آگاہی دینے سے ان کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈیپ فیک تصاویر بنانے اور استعمال کرنے والوں کے خلاف سزاؤں میں اضافہ کریں گے۔ٹیلی گرام پر متعدد چیٹ رومز اب بند ہو گئے ہیں لیکن یقیناً ان کی جگہ نئے چیٹ رومز بنا دیے جائیں گے۔ ایک ’ہیومیلیشن روم‘ ان صحافیوں کے خلاف بھی بنا دیا گیا ہے جنھوں نے ان چیٹ رومز پر سے پردہ اُٹھایا تھا اور کو نارن کا کہنا ہے کہ اس سبب ان کی راتوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔’میں بار بار چیٹ روم چیک کرتی رہتی ہوں کہ کہیں میری تصویر تو نہیں اپلوڈ کر دی گئی۔‘دیگر نوجوان خواتین اور کمر عمر لڑکیاں بھی ایسی ہی پریشانی کا شکار ہیں۔ یونیورسٹی کی طالبہ آہ یون کہتی ہیں کہ اس سب کے سبب وہ اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔’اب میں یہ یقین نہیں کر سکتی کہ لوگ میرے پیچھے مجھے ایسے جرائم کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ میں لوگوں کے ساتھ میل جول میں بہت محتاط ہو گئی ہوں جو کہ زیادہ اچھی بات نہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}