غزہ اور اسرائیل کی لڑائی میں پھنسی مائیں اپنے روتے، چیختے بچوں کو کیسے دلاسہ دیتی ہیں؟
- جیک ہنٹر
- بی بی سی نیوز
بی بی سی نے دو ماؤں سے بات کی ہے، ایک فلسطینی اور ایک یہودی اسرائیلی جو کہ کئی برسوں کی بدترین کشیدگی میں پھنس گئی ہیں
غزہ کی پٹی میں جب سے میزائل حملے ہونے لگے ہیں اور نجوہ شیخ الاحمد کے گھر کے قریب یہ میزائل گرنے لگے ہیں، تب سے نجوہ خوف کے مارے سو نہیں سکی ہیں۔
نجوہ پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ‘راتیں ہمارے لیے، ہمارے بچوں کے لیے انتہائی خوفناک ہوتی ہیں۔ کسی لمحے بھی آپ اپنی قبر میں ہوں گے۔‘
سارا دن انھیں اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی آوازیں، فضائی بمباری اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ نجوہ کہتی ہیں کہ ‘ہمارے اردگرد سب کچھ لرز رہا ہوتا ہے اور ہم بھی خوف سے لرز رہے ہوتے ہیں۔‘
نجوہ غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے ان کئی رہائشیوں میں سے ہیں جو گذشتہ چند روز سے اسرائیلی فوج اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے ایک دوسرے کے حملوں کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں اور یہودیوں کے درمیان اسرائیل کے کئی شہروں میں سڑکوں پر جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
بی بی سی نے دو ماؤں سے بات کی ہے، ایک فلسطینی اور ایک یہودی اسرائیلی جو کہ کئی برسوں کی بدترین کشیدگی میں پھنس گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
‘اپنا خوف چھپانا آسان نہیں‘
بدھ کی رات سینکڑوں اسرائیلی میزائل غزہ میں گرے۔ نجوہ کی فیملی نے ساری رات اپنے گھر میں پناہ لی۔
نجوہ کہتی ہیں کہ یہ خیال کہ اگلا میزائل آ کر آ پ کے گھر کو لگے گا، اس خوف کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔
‘ایک لمحے میں آپ بمباری کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ جو جگہ آپ کے لیے محفوظ ترین ہونی چاہیے، وہ آپ کی قبر بن سکتی ہے۔‘
نجوہ پانچ بچوں کی ماں ہیں
نجوہ اپنے شوہر اور 22 سے 11 سال عمر کے پانچ بچوں کے ساتھ غزہ کی پٹی کے ایک پناہ گزین کیمپ میں رہتی ہیں۔ اس انتہائی گنجان آباد غزہ پٹی میں 18 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔
یہاں پر حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملوں میں بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے حماس کے عسکریت پسند تھے یا غزہ سے اٹھانے والے حماس کے راکٹوں سے مارے گئے۔
ادھر اسرائیل کی جانب سے زمینی فوج کی کارروائی کی افواہوں نے نجوہ کے خوف کو بڑھا دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ‘ہم محفوظ نہیں ہو سکتے۔ بطور ایک ماں یہ انتہائی خوفناک ہے اور میرے جذبات کے لیے یہ بہت پرتھکن ہے، میری انسانیت کو یہ تھکا رہا ہے۔‘
نجوہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ارد گرد ہوتے تشدد کے بارے میں کتنا بتائیں۔
وہ کہتی ہیں ‘میں نے انھیں کچھ بھی کہنا بند کر دیا ہے مگر ہمارا خوف چھپانا آسان نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جگہ محفوظ ہے کہ نہیں۔‘
مگر بچوں سے نہ بات کرنے کی کوشش کے باوجود نجوہ کو پتا ہے کہ لڑائی کی باتوں سے بچا تو جا نہیں سکتا۔
‘میں انھیں نہ بھی بتاؤں تو وہ سارا دن خبریں دیکھتے ہیں۔ یہ سب سوشل میڈیا پر ہے۔ سب جگہ تباہی ہے۔‘
نجوہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ارد گرد ہوتے تشدد کے بارے میں کتنا بتائیں
نجوہ کو اس بات کی فکر ہے کہ غزہ میں بار بار ہونے والے دھماکوں اور حملوں کی وجہ ان کے بچوں پر خاص کر ان کی ذہنی صحت پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
ان کا سب سے چھوٹا بیٹا محمد جو ابھی 12 سال کا ہونے والا ہے، اس نے بھی اسرائیل غزہ کی 2008-2009 اور 2014 کے حملے دیکھ لیے ہیں جن میں ہزاروں عام شہری مارے گئے تھے۔
نجوہ کہتی ہیں کہ ’میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ کن یادوں کے ساتھ بڑا ہو گا اور اپنے بچوں کو کیا کہانیاں سنائے گا۔‘
اور نجوہ کو ان حملوں کے خود پر اثر کا بھی خیال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘آپ اس خوف کے عادی نہیں ہو سکتے۔ آپ روتے چیختے بچوں کی آوازوں کے عادی نہیں ہو سکتے۔‘
‘ہم جتنے خوفزدہ ہیں، یہاں نہیں رک سکتے‘
پیر کی رات لُد کے شہر میں جب ایک مبینہ طور پر اسرائیلی عرب پرتشدد ہجوم تواہ کی گلی میں آ پہنچا، تو انھیں یقین ہو گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی اسرائیلی یہودی فیملی وہاں سے نکل پڑے۔
تواہ اور ان کا خاندان
ساری شام تواہ اپنی برادری کے واٹس ایپ گروپ میں پریشان کن باتیں پڑھتی رہی تھیں۔ دوستوں نے کچھ پیغام بھیجے تھے کہ ایک مشتعل ہجوم سڑکوں پر نکلا ہوا ہے اور مسلمانوں اور یہودیوں دونوں سے بھرے اس شہر میں ہنگامے ہو رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ جلد ہی مشتعل ہجوم ان کے گھر کے قریب پہنچ گیا تھا جہاں وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
تواہ کہتی ہیں کہ ‘انھوں نے چیزیں جلانا شروع کر دیں اور میں انتہائی خوفزدہ تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ تو کسی لمحے بھی میرا دروازہ توڑ کر اندر آ سکتے ہیں۔‘
ان کی فیملی نے جلدی سے کچھ سامان پیک کیا اور جنوب میں بیر شیبا کے قریب تواہ کے دیور کے گھر چلے گئے۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ وہاں نہیں رہ سکتے تھے۔‘
ان کے جانے کے بعد سے لُد میں سڑکوں پر پرتشدد واقعات بڑھ گئے ہیں۔ منگل کی رات شہر بھر میں فسادات ہوئے اور پولیس کی مظاہرین سے جھڑپیں بھی ہوئی۔ شہر کے میئر نے اعلان کر دیا کہ ‘لد میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ہے۔‘
تواہ نے اپنے ایک پڑوسی سے کہا کہ وہ اپنے دروازے سے وہ مخصوص نقش اتار دے جو یہودی فیملیاں اپنے گھروں کے دروازے پر لگاتی ہیں۔ تواہ کہتی ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ پرتشدد ہجوم ہمارے گھر میں داخل ہو جائے گا۔
انھیں فکر ہے کہ جب واپس جائیں گے تو کیا پتا کیا بچا ہوا ملے گا۔ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ واپس جا کر ہمارے پاس گھر بھی ہو گا یا نہیں۔‘
تواہ کو یہ بھی پریشانی ہے کہ ان کی فیملی ہمیشہ اس بگڑتے تنازع میں پھنسی رہے گی
لد پر غزہ کی جانب سے داغے گئے راکٹوں کی وجہ سے ساری رات سائرن بجتے ہیں۔ لوگ بم شیلٹرز میں جا کر چھپتے ہیں جہاں اسرائیلی عرب بھی ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں ان یہودیوں کو شک ہوتا ہے کہ یہ بھی ان فسادات میں ملوث تھے۔
‘کچھ فیملیوں نے تو فیصلہ کیا کہ وہ وہاں جائیں گی ہی نہیں۔اور پھر کچھ وہاں سے جلد از جلد نکل گئیں۔‘
مگر جیسے جیسے تنازع بڑھ رہا ہے تواہ کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے ساڑھے چار سال کے بیٹے کو کیا سمجھائیں۔
وہ کہتی ہیں ‘اسے پتا ہے کہ برے لوگوں کی وجہ سے دھماکے ہو رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اسے ابھی بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ عرب ہمارے ساتھ یہ کر رہے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہ سکے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ عربوں سے ڈرتا ہوا بڑا ہو۔‘
تواہ کو یہ بھی پریشانی ہے کہ ان کی فیملی ہمیشہ اس بگڑتے تنازع میں پھنسی رہے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم عام شہری ہیں اور ہم ایک دوسرے سے لڑی جا رہے ہیں۔ یہ بہت زیادہ خوفناک ہے۔‘
Comments are closed.