بیٹی کے علاج کے لیے 1200 میل ننگے پاؤں پیدل چلنے والے برطانوی میجر
- سیمی جینکنز
- رپورٹر، بی بی سی ویسٹ
میجر کرس براننیگن اپنی بیٹی کی بیماری کے علاج اور اس علاج کی تحقیق کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے امریکہ کے مشرقی ساحل پر 12 سو میل ننگے پاؤں بیدل چلیں گے
‘میں اتنا طویل فاصلہ پیدل چلنے سے زیادہ کسی مشکل چیز کا تصور نہیں کر سکتا۔ جب میں نے گذشتہ برس یہ کیا تھا تو میں نے تہیہ کیا تھا کہ میں ایسا دوبارہ کبھی نہیں کروں گا لیکن اب میں اپنے کمر پر 25 کلو کا وزن اٹھائے پانچ سو میل دوبارہ پیدل چلوں گا، اور یہ شاید گذشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہو۔’
یہ کہنا تھا میجر کرس براننیگن کا جنھوں نے منگل کو مشرقی امریکی ریاست میں سے پیدل چلنا شروع کیا اور ان کا سفر 1200 میل کے فاصلے پر واقع جنوبی ریاست فلوریڈا جا کے ختم ہوگا۔
تو وہ یہ کٹھن سفر کر کیوں رہے ہیں؟
دو برس قبل میجر کرس براننیگن کی نو سالہ بیٹی ہستی کو ایک نادر قسم کی بیماری ہوئی جس میں ان کو شدید دورے پڑتے اور بہت زیادہ اضطرابی کیفیت ہوتی۔ اس بیماری کا نام کورنلیا ڈی لانگے سنڈروم ہے اور یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔
میجر کرس براننیگن نے 2020 میں آئی ٹی وی نیشنل پرائیڈ آف برٹن فنڈ ریزر ایوارڈ جیتا تھا
میجر کرس براننیگن نے گذشتہ برس بھی اسی طرح کا ایک سفر کیا تھا جب انھوں نے برطانیہ میں سات سو میل پیدل سفر کر کے پانچ لاکھ پاؤنڈ اکھٹے کیے تھے۔
’ہوپ فار ہستی‘ یعنی ہستی کے لیے امید نام کی مہم کا مقصد اس نادر بیماری کی تحقیق کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے اور گذشتہ برس جمع ہونے والی رقم امریکی ریاست مین میں واقع جیکسن لیباریٹری کو عطیہ دی گئی جہاں اس بیماری پر ریسرچ کی جاتی ہے۔
میجر کرس براننیگن اور ان کی اہلیہ ہینگامے کو بتایا گیا تھا کہ ان کی بیٹی کی صحت بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے مزید خراب ہو جائے گی۔
میجر کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے پہلے بھی کافی عرصے تک دور رہے ہیں لیکن یہ اس سے کافی مختلف ہے
’جب میں ہستی کو دیکھتا ہوں تو میں ایک زبردست بچی کو دیکھتا ہوں۔ مجھے کبھی کبھار اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کی مشکلات کیا کیا ہیں لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ بلوغت کے بعد اس کی بیماری مزید بڑھ جائے گی۔ وہ دسمبر میں دس برس کی ہو جائے گی اور ہمارے پاس بہت کم وقت ہے۔‘
یہ بھی پڑھیئے
انگلینڈ میں ٹڈورتھ بیرکس میں متعین فوجی افسر نے مزید کہا کہ ان کی بیٹی اور کورنلیا ڈی لانگے سنڈروم سے متاثرہ دیگر بچوں کے علاج میں تحقیق کا عمل اور علاج بہت عمدہ طریقے سے جاری ہے۔
’ہم جانتے ہیں کہ یہ طریقہ علاج محفوظ ہے اور ہمیں امید ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں جینیاتی تھیراپی تیار ہو جائے گی جو اس بیماری کا موثر علاج ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو یہ علاج دینے میں اور اس کے تجربے میں لاکھوں، کروڑوں پاؤنڈز درکار ہیں اور ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے تو اسی لیے ہم فنڈز جمع کر رہے ہیں اور ہمارے پاس رقم جمع کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے۔‘
میجر کرس براننیگن نے کہا کہ ان کا ہدف 25 لاکھ پاؤنڈ ہے اور اب تک وہ نو لاکھ پاؤنڈ جمع کر چکے ہیں۔
جب 2020 میں میجر کرس نے 700 میل کا چیلنج مکمل کیا تھا تو ان کی بیٹی نے ان کا استقبال کیا تھا
وہ کہتے ہیں کہ ان کے دونوں لڑکے ان کے اس سفر کی تیاری میں بہت مدد کر رہے ہیں اور ان کی بیٹی ہستی نے اپنا ایک کھلونا ان کو دیا ہے تاکہ اسے سفر میں ساتھ لے جا سکیں۔
میجر کرس نے بتایا کہ گذشتہ سال سفر کے دوران انھیں احساس ہوا کہ لوگ کتنی ’مدد کرنے کے لیے تیار ہیں اور کتنے سخی ہیں۔‘
‘ہم لوگ ہر وقت اسی پریشانی میں گھرے رہتے ہیں کہ کیا ہم اتنی رقم جمع کر پائیں گے یا نہیں جس کی مدد سے اس کا علاج ہو سکے۔‘
Comments are closed.