بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

آپریشن ’سن شائن‘: جب ایک امریکی آبدوز نے پہلی بار برف کے نیچے خفیہ سفر کیا

آپریشن سن شائن: امریکی جوہری آبدوز کا خفیہ سفر جس نے قطب شمالی کا راستہ کھول دیا

  • رچرڈ ہولنگھم
  • بی بی سی فیوچر

امریکی آبدوز یو ایس ایس نوٹیلس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تین اگست سنہ 1958 کا دن تھا۔ دنیا کی پہلی جوہری آبدوز کے کمانڈر نے اپنے سفری کتابچے میں ایک غیر معمولی عبارت درج کی: ’درج ذیل افراد کو قطب شمالی میں اتارا‘۔۔۔’سانتا کلاز، تعلق: کرسمس۔‘

امریکی آبدوز یو ایس ایس ناٹیلس کے کمانڈر ولیم اینڈرسن کی اس تحریر میں کسی حد تک سچائی بھی تھی۔

آپریشن ’سن شائن‘ نامی انتہائی خفیہ مشن کے سربراہ کے طور پر یہ ان کی اس کامیابی کے ریکارڈ کا آخری جملہ تھا جس کے تحت دنیا کی تاریخ میں کسی بھی بحری جہاز نے اپنے انجن کے بل بوتے پر پہلی بار قطب شمالی تک رسائی حاصل کی تھی۔

یہ سفر 97 میٹر یا 319 فٹ طویل آبدوز اور اس کے 116 عملے کے اراکین نے مکمل طور پر برف کے نیچے رہتے ہوئے طے کیا۔ اس عملے میں سانتا کلاز کی موجودگی کا ثبوت اس کے سفری کتابچے سے تو نہیں ملتا لیکن جوہری توانائی سے چلنے والے انجن کی دریافت سے قبل برف کی تہہ کے نیچے ایسا سفر کرنا ناممکن تھا۔

کمانڈر اینڈرسن نے اپنے عملے کے سامنے اعلان کیا: ’دنیا کے لیے، ملک کے لیے، اور بحریہ کے لیے۔۔۔قطب شمالی۔‘

’ناٹیلس‘ سے پہلے کے زمانے میں کسی بھی آبدوز کو پانی کی سطح پر نکلنا پڑتا تھا، یا کم از کم اپنا سنورکل پانی کی لہروں سے باہر نکالنا پڑتا تھا تاکہ ڈیزل انجن کی بیٹریوں کو چارج کیا جا سکے اور ہوا حاصل کی جا سکے۔ لیکن جوہری ری ایکٹر نے ’ناٹیلس‘ کو اس قید سے آزاد کر دیا تھا۔

درحقیقت ’ناٹیلس‘ قطب شمالی تک رسائی حاصل کرنے سے تن دن قبل سے ہی گہرے پانیوں میں تھی اور سات اگست 1958 کو گرین لینڈ کے ساحل کے قریب سطح پر آنے سے قبل یہ سمندر میں ہی رہی یعنی تقریبا ایک ہفتہ اس آبدوز نے سمند کی لہروں اور برف کے نیچے گزارا۔

امریکی صدر آئزن ہاور نے عملے کو ’ایک شاندار کامیابی‘ پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ ان کو یقین تھا کہ یہ سفر آبدوز کے آپریشنز اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں انقلاب برپا کرے گا۔

آرکٹک سمندر

،تصویر کا ذریعہArterra/Universal Images Group via Getty Images

،تصویر کا کیپشن

آرکٹک سمندر

ناٹیلس کا سفر: ’برف کے نیچے آبدوز میں ہر وقت تیار رہنا پڑتا ہے‘

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

برطانوی رائل نیوی کی جوہری آبدوز کے سابق کمانڈر کیپٹن جسٹن ہیوز اب فرینڈز آف رائل سب میرین میوزیم کے اعزازی سیکریٹری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ناٹیلس کا سفر بحری جنگ میں انقلاب کا ایک شاندار مظاہرہ تھا۔ اس سفر نے ثابت کیا کہ جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز طویل عرصے تک زیر سمندر رہ سکتی ہے یعنی مکمل طور پر چھپے رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

آج کل تارپیڈوز اور جوہری میزائلوں سے لیس ایک جوہری آبدوز تباہی کے ایک خفیہ ہتھیار کے طور پر مہینوں سمندر کی لہروں کے نیچے گزار سکتی ہے۔ سنہ 1969 سے برطانیہ کی کم از کم ایک آبدوز ہر وقت جوہری ہتھیاروں سے لیس سمندر کے گہرے پانیوں میں موجود رہتی ہے۔ یہ کردار موجودہ دور میں برطانیہ کی وین گارڈ کلاس آبدوزیں سر انجام دے رہی ہیں۔

ناٹیلس کا قطب شمالی کا تاریخی سفر ایک جانب جہاں جوہری آبدوز کی جنگی صلاحیت کا ثبوت تھا، وہیں یہ ایک انتہائی اہم سائنسی سنگ میل بھی تھا۔ اس سفر نے قطب شمالی یا آرکٹِک کی منجمند برف کے نیچے چھپی عجیب و غریب دنیا کی دریافت کی بنیاد ڈالی۔

لیکن اب بھی آرکٹِک برف کے نیچے سمندر میں کام کرنا کوئی معمول کی بات نہیں۔

کیپٹن جسٹن ہیوز کے مطابق ’ایسے ماحول میں آبدوز کے آپریشن کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ منجمند برف کو سونار آلات کے ذریعے کاٹنے کے ساتھ ساتھ عملے کو کئی غیر معمولی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان میں مکمل اور عمیق تنہائی بھی شامل ہے۔‘

کیپٹن ہیوز کہتے ہیں کہ ’آبدوز میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال، جیسے سیلاب، آگ لگنے یا انجن میں خرابی، میں یاد رکھیں کہ تازہ ہوا اور آبدوز کے درمیان کئی میٹر گہری برف کی تہہ موجود ہے۔ یہ تمام نکات دماغ پر ہر وقت سوار رہتے ہیں، اسی لیے برف کے نیچے آبدوز میں ہر وقت تیار حالت میں رہنا پڑتا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا جا سکے اور ایسے میں عملے کو آرام کا کم ہی وقت ملتا ہے۔‘

آبدوز کا عملہ برف کی تہہ کے نیچے رہ کر کام کرنا شاید پسند نہ کرتا ہو، لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو ان کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔ ماہر بحر جغرافیہ کے لیے آبدوز ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو آرکٹِک سائنس کے لیے مفید ہے۔

قطب شمالی

،تصویر کا ذریعہEric Chretien/Gamma-Rapho/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

برف کی گہری تہہ کے باعث ناٹیلس کے مشن سے قبل قطب شمالی تک رسائی ناممکن تھی

’میرا خواب پورا ہو گیا‘

جیمی ماریسن امریکی شہر سیئیٹل کے پولر سائنس سینٹر میں سینیئر پرنسپل ماہر بحر جغرافیہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ سے ہی آبدوزوں میں دلچسپی رہی۔‘ 1980 میں ماریسن نے ایک ایسے پراجیکٹ پر کام کیا جس کے تحت امریکی بحری آبدوزوں سے سمندی ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے بوائیز (ایسا آلہ جو سمندر کی سطح پر کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) حاصل کی گئیں۔ اس مقصد کے لیے ماریسن شپ یارڈز پر سائنسی آلات نصب کرنے کے لیے اکثر جاتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ میں ایک آبدوز پر سفر کرنا چاہوں گا۔‘

یہ موقع ان کو سنہ 1993 میں ملا جب چھ ساتھیوں کے ہمراہ ان کو ایک آبدوز پر سفر کی پیشکش کی گئی۔ ’میرا خواب پورا ہو گیا۔‘

یہ سفر 89 میٹر (294 فٹ) طویل جوہری آبدوز یو ایس ایس پارگو کے ذریعے آرکٹِک کی برف کے نیچے سے ہونا تھا۔ اس کا اہتمام امریکی نیوی کے ہی ایک سابق کپتان نے سب میرین آرکٹک سائنس پروگرام کے تحت کیا۔

اس پروگرام کی ایڈوائزری کمیٹی کی موجودہ چیئرمین جیکی رکٹر یونیورسٹی آف الاسکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آرکٹِک برف کی موٹائی، اس علاقے میں سمندر کی لہروں اور سمندر کی تہہ کی جانچ پڑتال سائسندانوں اور آبدوز چلانے والوں دونوں کے لیے ہی باہمی دلچسپی اور اہمیت رکھتی ہے۔‘

’سائنس دانوں کو آرکٹِک سمندر کی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور آبدوز کمانڈرز اس ماحول کے بارے میں جان سکتے ہیں جس میں رہ کر ان کو کسی دن کام کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’آبدوز کے ذریعے ہم ایک مشکل ماحول تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں کا جائزہ لے سکتے ہیں، جس سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہاں کا مستقبل کیسا ہو گا۔‘

سائنس دانوں اور آبدوز کمانڈرز کو اکھٹا کرنے میں ایک مشکل یہ ہے کہ آبدوزیں ہمیشہ ہی خفیہ مشن پر رہتی ہیں جب کہ سائنس دان اپنا ڈیٹا عام کرنے کے قائل ہوتے ہیں تاکہ دنیا بھر میں لوگ اسے پڑھ سکیں۔ اگر اس ڈیٹا کے ذریعے آپریشنل یا سفری معلومات کے بارے میں علم ہو سکے تو پھر ظاہر ہے کہ ہچکچاہٹ ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

یو ایس ایس ناٹیلس کے تاریخی مشن پر عملے کے سو سے زیادہ اراکین شامل تھے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یو ایس ایس ناٹیلس کے تاریخی مشن پر عملے کے سو سے زیادہ اراکین شامل تھے

جیکی رکٹر کہتی ہیں کہ ’ڈیٹا اکھٹا کرنے اور اسے شائع کرنے کے درمیان کافی وقفہ ہوتا ہے۔ پوزیشن ڈیٹا کا ہی اصل مسئلہ ہے کیوں کہ پوزیشن عام کیے بنا سائنسی کمیونٹی کے لیے اس ڈیٹا کا فائدہ مند ہونا اہم ہے۔‘

’جیسے کسی ریوالور کے سلینڈر میں بیٹھے ہوں‘

تو پھر جب ماریسن کے سائسنی مشن کے لیے آبدوز کا دروازہ بند ہونے کے بعد سمندر کی تہہ میں چھلانگ لگائی گئی تو کیا اس زیر سمندر مشن سے ان کو وہ حاصل ہوا جس کی اُن کو امید تھی؟

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ سب بہت ہی دلچسپ تھا۔ آبدوز میں صرف تارپیڈو روم ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں کوئی سائنسی کام کیا جا سکتا تھا اور اسی لیے وہاں سے تارپیڈو نکال کر میں نے ایک بنچ پر سائنسی آلات لگا لیے۔‘

’اس دوران میرے ساتھ ہی 20 تارپیڈو پڑے تھے جن میں سے ہر ایک کا وزن 3000 پاونڈ یا 909 کلو گرام تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے آپ کسی ریوالور کے سلینڈر میں بیٹھے ہوں۔ پوری مشین ہی ایک ہتھیار ہے جس میں میرے ساتھ والے کمرے میں جوہری ری ایکٹر کام کر رہا ہے جو سینکڑوں فٹ پانی کے نیچے ہے۔ یہ سب بہت سنسنی خیز تھا۔‘

یہ جاننا ضروری ہے کہ آبدوز پر کسی بھی سفر کے لیے آپ کو ایک بند جگہ پر رہنے کی عادت ہونی چاہیے۔ ماریسن کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ آبدوز میں کام کرنے کے لیے ایسا عملہ چنا جاتا ہے جو بہت تمیز دار ہوتا ہے کیوںکہ آپ کو کہیں اور اتنی بار یہ سننے کو نہیں ملتا کہ برائے مہربانی جگہ دے دیں، جتنا ایک آبدوز میں ملتا ہے کیوںکہ تنگ سی جگہ پر ہر وقت کوئی نا کوئی آپ کے پاس سے گزرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب کے سب ہی جنگجو بھی ہیں۔‘

’یہ تو ایک تابوت جیسا ہے‘

ان تمام مسائل سے ہر کوئی تمیز سے نہیں نمٹ پاتا۔ ماریسن کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ ان کا ’ایک ساتھی تارپیڈو روم میں ہی سو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا تو اس نے جواب دیا کہ جب ایک رات میں اپنے بنک (بستر) پر لیٹا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تو ایک تابوت جیسا ہے۔ بس اس کے بعد میں وہاں نہیں سو سکا۔‘

سوویت یونین کی آبدوز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یو ایس ایس ناٹیلس کے تاریخی مشن کے بعد سوویت یونین کی آبدوز بھی قطب شمالی کے سفر پر روانہ ہوئی

آرکٹِک کا وہ علاقہ جس نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

اس مشن کے سفر کے دوران سائنس دانوں نے پانی کے درجہ حرارت اور پانی کی گہرائی کی پیمائش کی۔ سونار کے ذریعے اُن کو برف کی موٹائی اور ٹوپوگرافی کے ساتھ ساتھ سمندر کی تہہ کی سطح کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں جبکہ سمندر کی لہروں کی جانچ کے لیے انھوں نے پانی میں آلات اتارے۔ اس علاقے کو اتنی تفصیل سے دیکھنے والی یہ پہلی کوشش تھی جس نے اُن کو حیران کر دیا۔

’ہم نے وسطی آرکٹِک سمندر میں ایک ایسا علاقہ دریافت کیا جہاں 200 میٹر (660 فٹ) پر درجہ حرارت اور پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھی ہوئی تھی۔ اس دریافت نے میری زندگی کو بدل کر رکھ دیا اور اس وقت سے ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔‘

یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے پانی ملتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس کے باعث سمندری برف کی موٹائی پر کیا اثر پڑ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں جاننے میں مدد دے گا۔ ماریسن جون کے مہینے میں تازہ ترین معلومات کی مدد سے ایک کانفرنس کی سربراہی کرنے والے ہیں۔

امریکی سائنس پروگرام اب تک جاری ہے اور سائنسی ڈیٹا بھی اکھٹا کیا جا رہا ہے لیکن اب سائنس دان کسی آبدوز پر سفر نہیں کر سکتے۔ ماریسن خود کو خوش قسمت مانتے ہیں کیوںکہ یو ایس ایس ناٹیلس پر سوار سانتا کلاز کی طرح ہی وہ بھی قطب شمالی تک پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سب میرین میں ایسے پر لگائے گئے تھے جو نوے ڈگری پر موڑے جا سکتے تھے تاکہ سطح پر پہنچنے کے لیے برف کو ایک چھری کی طرح کاٹا جا سکے۔ تب آبدوز کے عملے کی برف سے جان چھوٹتی ہے اور وہ برف کی تہہ پر اُتر سکتے ہیں۔‘

آبدوز کی رفتار اور برداشت کا ہر ریکارڈ توڑنے کے بعد یو ایس ایس ناٹیلس نے اپنا آخری سفر سنہ 1979 میں کیا اور اب امریکہ میں کنیٹیکٹ میں ایک بحری میوزیم کا حصہ ہے۔

اپنے تحقیقی مشن کے دوران ماریسن اب تک 15 بار قطب شمالی کا دورہ کر چکے ہیں لیکن یہ سب سفر، ایک بار برف کی تہہ کے نیچے کے سفر کے علاوہ، فضا میں ہوئے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.