آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیا
- گوئلرمو ڈی اولمو
- بی بی سی نیوز، ورلڈ
افغانستان کے مجاہدین رہنماؤں کی میزبانی کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن
امریکہ میں وہ لوگ ’جنگ آزادی کے سپاہی‘ کہے جاتے تھے لیکن انھیں سخت گیر مسلم گوریلا جنگجو کہنا بہتر ہوگا۔
افغانستان میں مقامی گوریلا جنگجوؤں کے گروہوں نے امریکہ کی حمایت سے سوویت یونین کے خلاف برسوں تک علم بغاوت بلند کیے رکھا۔ امریکہ نے انھیں اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا تاکہ اس کے دشمن سوویت یونین کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
اگر ہم خفیہ دستاویزات، صحافیوں کی تحقیقات اور اس دور کے خصوصی لوگوں کے انٹرویوز کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ سوویت یونین کو اس دلدل میں پھنسانا چاہتا تھا جہاں اسے جان و مال کا اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے جتنا کئی سال پہلے امریکہ کو خود ویتنام میں اٹھا پڑا تھا۔
یہ امریکہ کا ’آپریشن سائیکلون‘ تھا اور اس وقت کے میڈیا نے اسے امریکی انٹیلیجنس ایجنسی ’سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا انٹیلی جنس آپریشن‘ قرار دیا تھا۔
سوویت فوجیوں کا انخلا شروع ہونے کے صرف آٹھ سال بعد سنہ 1996 میں طالبان نے کابل پر فتح حاصل کر لی اور افغانستان پر اسلامی بنیاد پرست حکومت مسلط کر دی گئی جسے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فتح میں امریکہ کا کوئی کردار تھا؟
افغان مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے امریکہ اور دوسرے کئی ممالک نے ہتھیار فراہم کیے
یہ سب کیسے شروع ہوا؟
یہ سنہ 1979 کے موسم بہار کی بات ہے۔ اس وقت کے سوویت یونین کے 30 ہزار سے زائد فوجیوں نے لڑاکا طیاروں اور ٹینکوں کے ساتھ افغانستان کی طرف رخ کیا۔ وہ کابل کی ’انقلابی حکومت‘ کو مدد فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔
ایک سال پہلے نام نہاد ’شمسی انقلاب‘ کے بعد افغانستان میں ایک کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تھی لیکن اس کمیونسٹ حکومت کو اسلامی ملیشیا گروپوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مجاہدین کہتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ اسلامی روایت کے مطابق جہاد ہے۔
سوویت یونین افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کو قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن صدر ببرک کارمل کی حکومت کے خلاف مجاہدین کی بغاوت بڑھتی جا رہی تھی۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں افغان تاریخ کے ماہر رابرٹ کروز کا کہنا ہے کہ امریکہ انھیں دیکھ کر حیران رہ گیا تھا حالانکہ وہ سنہ 1950 کی دہائی سے ہی افغانستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے سوویت یونین کے ساتھ مقابلہ کر رہا تھا۔
ان حالات میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کو ان کے قومی سلامتی کے مشیر زبیگنیو بریزیسکی اور دیگر مشیروں نے افغانستان میں خفیہ انٹیلیجنس مہم شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا، جس کے تحت وہاں جاری شورش کو اسلحے سے امداد فراہم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی سرد جنگ کے تنازعات کا ایک اور باب کھل گیا۔ اس میں امریکہ اور سوویت یونین دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن میدان جنگ میں آمنے سامنے نہیں آتے تھے۔
لیکن وہ تیسری دنیا کے ممالک میں جنگی محاذوں پر ایک دوسرے کے مخالفین کی مدد کرتے تھے۔ انگریزی زبان میں اسے ’پراکسی وار‘ کہتے ہیں۔
بی بی سی میں جہادی ملیشیا کے امور کے ماہر مراد شیشانی کا کہنا ہے کہ ’امریکہ نے افغانستان میں جہادیوں کی مدد کی تاکہ وہ اپنے سوویت دشمنوں کو شکست دے سکے۔‘
صدر ریگن کے دور میں افغان مجاہدین کو سٹنگر میزائلیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا
’آپریشن سائیکلون‘ کو کیسے انجام دیا گیا؟
ابتدا میں ’آپریشن سائیکلون‘ کے باغیوں کو سوویت دور کے صرف پرانے ہتھیار فراہم کیے گئے۔ ان میں این-47 رائفلوں کی طرح کے ہتھیار شامل تھے جبکہ مختلف عرب ممالک کے ذریعے انھیں رقم سے مدد فراہم کی گئی۔
رابرٹ کروز کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ امریکہ اس جنگ میں اپنے ملوث ہونے سے انکار کر سکے۔ سعودی عرب اس حوالے سے انتہائی فعال ممالک میں شامل تھا تاہم مصر کے انور سادات اور دیگر رہنماؤں نے بھی مجاہدین کی مدد میں اپنا کردار ادا کیا۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو اس منصوبے میں شامل کیے جانے کی ضرورت تھی۔ زیادہ تر جہادی گروہ وہیں سے آپریٹ کرتے تھے۔ امریکی کانگریس کے ایک رکن ہب آر ریز نے سنہ 1988 میں انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے ٹینیسی سے کینٹکی کے ایک فوجی اڈے پر 700 خچر فراہم کیے تھے، جنھیں پاکستان بھیجا جانا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں صدر رونالڈ ریگن کی آمد کے بعد افغانستان میں امریکہ کی موجودگی واضح اور عام ہو گئی۔ امریکہ میں ایک لابی جو تیزی سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی وہ مجاہدین کی امداد بڑھانے کے لیے لابنگ کر رہی تھی۔ اس لابی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کو روکنے کے لیے صرف اسلحہ فراہم کرنا کافی نہیں۔
سنہ 1984 میں امریکی کانگریس نے افغانستان کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ’افغانستان کی جنگ آزادی کے سپاہیوں کو صرف لڑنے اور مرنے کے لیے مدد فراہم کرنے سے آزادی کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘
یہ بھی پڑھیے
رونالڈ ریگن اس معاملے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ انھوں نے اوول آفس میں مجاہدین رہنماؤں کے ایک وفد کی میزبانی بھی کی۔
سنہ 1986 میں اپنی ’سٹیٹ آف دی یونین‘ تقریر میں افغان جنگجوؤں کو پیغام دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’جنگ آزادی کے سپاہیوں، آپ اکیلے نہیں ہیں۔ امریکہ آپ کا ساتھ دے گا۔‘
لیکن صدر ریگن نے کچھ ایسا کیا جو ان کے بیان سے زیادہ اہم تھا۔ انھوں نے افغان گوریلا جنگجوؤں کو سٹنگر میزائل فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو آنے والے وقتوں میں اہم ثابت ہونے والا تھا۔
اس کی مدد سے افغانستان کی پہاڑیوں میں چھپے مجاہدین نے سوویت ہیلی کاپٹروں کو مار گرانا شروع کر دیا اور زمین پر تناسب تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس ولسن افغانستان میں امریکی سرگرمیوں کے بڑے حامی رہے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ’کانگریس کے ارکان سٹنگر میزائل کی کامیابی پر حیران ہیں۔‘
افغانستان میں فوج بھیجنے کے فیصلے کے نو سال بعد ستمبر سنہ 1988 میں سوویت لیڈر میخائل گورباچوف نے فوج کو واپس بلانے کا حکم دیا۔ سوویت یونین نے خود کو افغان حکومت اور مختلف دھڑوں کے درمیان جاری خانہ جنگی کی دلدل میں پھنسا ہوا محسوس کیا کیونکہ اس کی مدد کے بغیر افغان حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔
افغانستان نے واپس آتے ہوئے سوویت فوجی
کیا طالبان کو امریکی امداد سے فائدہ پہنچا؟
مراد شیشانی کہتے ہیں کہ ’ایک سازشی نظریہ ہے کہ امریکہ نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے طالبان کی مہم کی حمایت کی لیکن یہ سچ نہیں۔‘
سچ تو یہ ہے کہ سنہ 1994 تک افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں بہت کم لوگوں نے طالبان کا نام بھی سنا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو مدرسوں سے تربیت یافتہ تھے۔ یہ پختون نژاد نوجوان تھے جو اپنے آپ کو طالب علم جنگجو کہتے تھے اور آہستہ آہستہ ان کی مقبولیت قندھار میں بڑھنے لگی۔
مراد شیشانی بتاتے ہیں کہ ’طالبان کے عروج تک سوویت یونین کا زوال ہو چکا تھا لیکن یہ سچ ہے کہ طالبان کے قیام میں شامل کچھ رہنما ان وار لارڈز (جنگجو سربراہان) میں شامل تھے جنھیں سوویت روس سے جنگ کے وقت امریکہ سے مدد ملی تھی۔‘
’سوویت یونین کو شکست دینا امریکہ کا سب سے بڑا ہدف تھا اور اس وقت جہادی کہلانا منفی یا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس اصطلاح کے ساتھ بدنامی کا رشتہ القاعدہ اور شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ جیسی تنظیموں کی خونریزیوں کی وجہ سے بعد میں شروع ہوا۔‘
مراد شیشانی اصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’امریکہ نے افغانستان کو ہتھیار فراہم کیے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے بہت سے ممالک نے بھی ایسا کیا تھا۔‘
دوسری طرف رابرٹ کروز کا کہنا ہے کہ ’جب طالبان قندھار آئے تو انھوں نے اپنے آپ کو پاک صاف اور ایک نئی قوت کے طور پر پیش کیا۔‘
رابرٹ کا خیال ہے کہ طالبان کے حقیقی رہنما امریکی امداد حاصل کرنے والوں میں شامل نہیں تھے اور یہ کہ طالبان کی کامیابی اسلام کی روایتی تعلیمات کے مطابق نظام کے وعدے میں مضمر تھی۔ رابرٹ کروز کا کہنا ہے کہ ’سوویت یونین کے خلاف فتح اور امریکی امداد نے ان کے جہاد کو فخر کی چیز بنا دیا تھا اور طالبان کو اس ماحول کا فائدہ پہنچا۔‘
امریکہ کو کیا حاصل ہوا؟
افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے ساتھ ہی اس کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کی سکرپٹ تیار ہو چکی تھی۔ سنہ 1990 کی دہائی میں امریکہ کو احساس ہوا کہ عالمی سطح پر اسے چیلنج کرنے والا کوئی اور نہیں رہا لیکن یہ تصور صرف اس وقت تک باقی رہا جب تک چین کا چیلنج پیدا نہ ہو گیا۔
رابرٹ کروز کہتے ہیں کہ ’افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران امریکہ نے جن مجاہدین گروپوں کی امداد کی تھی ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔‘
رابرٹ کروز نے افغانستان کی صورتحال کا موازنہ ان ممالک سے کیا جہاں کمیونسٹ حکومتیں اور مسلح باغی تحریکیں تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی اشرافیہ صرف دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنی کامیابی کے پیمانے پر جانچتی ہے۔
جن لوگوں نے ’آپریشن سائیکلون‘ کی حمایت کی انھیں کبھی افسوس نہیں ہوا۔ صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو بریزیسکی نے ایک فرانسیسی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عالمی تاریخ میں کون سی چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟ طالبان یا سوویت یونین کا زوال؟‘
Comments are closed.