آپریشن تھیٹرز میں زیرتربیت ڈاکٹروں کی جنسی ہراسانی: ’میرا جسم منجمد ہو گیا میں اسے روک نہیں سکی‘
- مصنف, جیمز گلاگھر، نٹالی ٹرسویل اور جوناتھن سمبرگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
انتباہ اس کہانی میں کچھ ایسی تفصیلات ہیں جو پریشان کن ہو سکتی ہیں۔ اس قسم کے متاثرہ افراد کے لیے یہاں امداد موجود ہے۔
انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک سروے میں خواتین سرجنز کا کہنا ہے کہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ان پر حملہ کیا جاتا ہے اور کچھ معاملات میں ساتھیوں کی طرف سے ریپ بھی کیا گیا ہے۔
بی بی سی نیوز نے ان خواتین سے بات کی ہے جنھیں آپریشن کے دوران آپریشن تھیٹرز میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سینیئر مرد سرجنوں کے ہاتھوں زیر تربیت خواتین سرجنز کے ساتھ بدسلوکی ایک ’پیٹرن‘ ہے اور یہ کہ اب یہ این ایچ ایس ہسپتالوں میں بھی ہو رہا ہے۔
رائل کالج آف سرجنز نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج ‘واقعی چونکا دینے والے’ ہیں۔
جنسی ہراسانی، جنسی حملہ اور ریپ کو سرجری کے شعبے کا ’کُھلا راز‘ کہا جاتا ہے۔
یہ خواتین کو ان کے سکربس میں چھونے، مرد سرجنوں کی جانب سے اُن کے سینوں پر اپنی پیشانی صاف کرنے اور خواتین سٹاف کے ساتھ اپنے عضو تناسل کو رگڑنے کی ان کہی کہانیاں ہیں۔ کچھ خواتین کو جنسی تعلقات بنانے کے عوض کریئر میں ترقی کے مواقع پیش کیے گئے۔
سرجری کے شعبے میں جنسی بدسلوکی کے متعلق ورکنگ پارٹی کی طرف سے کیے جانے والے تجزیے کو خصوصی طور پر بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
تحقیق کاروں کو جواب دینے والی تقریباً دو تہائی خواتین سرجن ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں اور ایک تہائی نے یہ بتایا کہ وہ پچھلے پانچ سالوں میں ساتھیوں کی جانب سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنی ہیں۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ تھا کہ واقعات کی اطلاع دینے سے ان کے کریئر کو نقصان پہنچے گا اور انھیں یہ اعتماد نہیں ہے کہ برطانیہ میں طب کا ادارہ ’این ایچ ایس‘ ان کی شکایات کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرے گا۔
‘اس کا چہرہ میرے کلیویج کے درمیان کیوں ہے؟’
اس معاملے پر کُھل کر بات کرنے میں گھبراہٹ ہے۔ جوڈتھ نامی خاتون نے اپنی سٹوری سناتے ہوئے ان کے مکمل نام کا استعمال نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ اب وہ ایک تجربہ کار اور باصلاحیت کنسلٹنٹ سرجن ہیں۔
تاہم اپنے کریئر کے اوائل میں انھیں جنسی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت وہ آپریٹنگ تھیٹر میں سب سے کمزور فرد (جونیئر) تھیں اور ایک سینیئر مرد سرجن کو پسینہ آ رہا تھا۔
‘وہ (سینیئر سرجن) گھوما اور اپنا سر میرے سینوں میں ڈال دیا، پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے سینے سے اپنی پیشانی صاف کر رہا ہے۔‘
’آپ ایسے میں بالکل منجمد ہو جاتے ہیں (اور سوچتے ہیں کہ) ‘اس کا چہرہ میرے کلیویج (خاتون کی چھاتی کے درمیان کی جگہ) میں کیوں ہے؟‘
جب اس نے دوسری بار ایسا کیا تو جوڈتھ نے کہا کہ وہ اسے تولیہ لا کر دیتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ادھر سے جواب آیا ’نہیں، اس میں بہت زیادہ مزہ ہے۔ اور اس کے چہرے پر بیہودہ مسکراہٹ تھی، مجھے گندا محسوس ہوا، میں نے ذلت محسوس کی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بدتر صورتحال اس معاملے پر آپریشن تھیٹر میں موجود تمام افراد کی مکمل خاموشی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ آپریشن تھیٹر میں سب سے سینیئر شخص بھی نہیں تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ سب چلتا ہے۔‘
یہ آپریشن تھیٹر کے بیچوں بیچ جوڈتھ کے ساتھ ہوا لیکن جنسی ہراسانی اور جنسی زیادتی ہسپتال سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔
جیمز گلاگھر این سے بات کرتے ہوئے
’میں نے اس پر بھروسہ کیا‘
ہم قانونی وجوہات کی بنا پر ’این‘ کا اصل نام ظاہر نہیں کر سکتے ہیں لیکن این نے بی بی سی سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ تبدیلی اسی وقت آئے گی جب لوگ اس کے متعلق بات کریں گے۔
ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے وہ ’ریپ‘ تو نہیں کہتیں لیکن ان کے ساتھ جو ہوا اس میں ان کی واضح رضامندی شامل نہیں تھی۔ یہ ایک میڈیکل کانفرنس کے دوران ہونے والی ایک تقریب میں ہوا۔
یہ ایک مخصوص سپیشلیٹی کے ڈاکٹروں کی میٹنگ تھی۔
وہی پیٹرن تھا کہ وہاں وہ ایک زیر تربیت ڈاکٹر تھیں اور وہ (سینیئر) ایک کنسلٹنٹ ڈاکٹر تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرا اس پر بھروسہ تھا اور میں اس سے مشورہ کرتی تھی۔‘
اس نے اسی اعتماد پر کھیلتے ہوئے خاتون ڈاکٹر کو مشورہ دیا کہا کہ وہ وہاں کے دوسرے لوگوں کو چونکہ نہیں جانتیں چنانچہ وہ ان پر بھروسہ نہیں کر سکتیں۔
یہ بھی پڑھیے
‘لہذا، وہ مجھے اس جگہ چھوڑنے کے لیے چل پڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ بات کرنا چاہتا ہے اور پھر وہ اچانک مجھ پر آ گیا اور اس نے میرے ساتھ سیکس کیا۔‘
این نے کہا اس لمحے ان کا جسم جیسے منجمد ہو گیا اور ’میں اسے روک نہیں سکی۔‘
’میری ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔ میں ایسا کبھی نہیں چاہتی تھی۔ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔‘
اگلے دن جب این نے اسے دیکھا تو وہ ’بمشکل اپنے آپ کو ایک بحال رکھنے کے قابل ہوئیں۔‘
’میں نے محسوس کیا کہ میں کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کر سکتی کیونکہ مجھے ایسا لگا جیسے آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہاں اسے برداشت کرنے کا ایک بہت مضبوط کلچر ہے۔‘
اس واقعے نے ان پر دیرپا اثر ڈالا، پہلے جذباتی طور پر اور برسوں بعد کام کے دوران وہ ’یاد میرے ذہن میں خوفناک، ڈراؤنے خواب کی طرح موجود رہی‘ یہاں تک کہ جب وہ کسی مریض کا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہوتیں تو بھی ایسا ہوتا تھا۔
سرجنوں پر اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا
بڑے پیمانے پر اس بات کو قبول کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے رویے پر خاموشی کا کلچر موجود ہے۔ جراحی کی تربیت آپریشن تھیٹرز میں سینیئر ساتھیوں سے سیکھنے پر منحصر ہے اور خواتین ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں کے بارے میں بات کرنا خطرناک ہے جو آپ کے مستقبل اور کریئر کے تعلق سے طاقتور اور بااثر ہیں۔
برٹش جرنل آف سرجری میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ اس بات کا اندازہ لگانے کی پہلی کوشش ہے کہ یہ مسئلہ کس پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔
رجسٹرڈ سرجنز (مرد اور خواتین) کو مکمل طور پر شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اس سروے میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور 1,434 افراد نے اس کا جواب دیا۔ ان میں نصف خواتین سرجن تھیں۔ سروے کے مطابق:
- 63 فیصد خواتین اپنے ساتھیوں کی جانب سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی تھیں
- 30 فیصد خواتین کو ان کے ساتھی نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
- 11 فیصد خواتین نے کریئر کے مواقع سے متعلق جبری جسمانی رابطے کی اطلاع دی
- زیادتی کے کم از کم 11 واقعات رپورٹ ہوئے
- 90 فیصد خواتین اور 81 فیصد مردوں نے کسی نہ کسی طرح کی جنسی معاملات کا مشاہدہ کیا تھا
جب کہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ مرد بھی اس رویے کا شکار ہیں (24 فیصد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا)۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کرسٹوفر بیگینی نے کہا کہ ’رپورٹ میں سامنے آنے والے نتائج سے سرجری کے پیشے میں عوام کا اعتماد متزلزل ہونے کا امکان ہے۔‘
دریں اثنا ایک دوسری رپورٹ ’بریکنگ دی سائیلنس: ایڈریسنگ سیکسوئل مسکنڈکٹ ان ہیلتھ کیئر‘ میں ضروری تبدیلیوں کے متعلق سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
یہ دونوں رپورٹس یہ تجویز پیش کرتی ہیں کہ خواتین سرجنز کا نسبتاً کم تناسب (تقریباً 28 فیصد) اور سرجری میں مرتبے کا خاص خیال یہ دونوں مل کچھ مردوں کو کافی طاقت دیتے ہیں اور یہ سرجری کے ہائی پریشر والے ماحول کے جڑے ہیں۔
یونیورسٹی آف سرے کی کنسلٹنٹ سرجن پروفیسر کیری نیو لینڈز کہتی ہیں کہ ’اس سے لوگ کُھلی چھوٹ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اس میں سے زیادہ تر پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔‘
اپنے جونیئر ساتھیوں کے تجربات سننے کے بعد وہ اس طرح کے رویے سے نمٹنے کے لیے متحرک ہوئیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’سب سے عام منظر یہ ہے کہ ایک زیر تربیت جونیئر خاتون کے ساتھ ایک سینیئر مرد بدسلوکی کرتا ہے اور جو اکثر ان کا نگران ہوتا ہے۔‘
’اور اس کا نتیجہ خاموشی کا کلچر ہوتا ہے کیونکہ لوگ اپنے مستقبل اور اپنے کریئر کے بارے میں حقیقی خوف کی وجہ سے بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔‘
’ناقابل یقین حد تک پریشان کن‘
اعداد و شمار میں سامنے آنے والا ایک اور پریشان کن نکتہ این ایچ ایس ٹرسٹ، جنرل میڈیکل کونسل (جو کہ برطانیہ میں ڈاکٹروں کی پریکٹس کرنے کی اجازت کا انتظام کرتا ہے) اور رائل کالجز (جو کہ طب کی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں) جیسے اداروں میں اعتماد کی کمی تھی کہ اگر سامنے بات رکھی بھی گئی تو یہ ادارے مسئلے کا حل نہیں کریں گے۔
پروفیسر نیولینڈز کا کہنا ہے کہ ’ہمیں تفتیشی عمل میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کام کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ بنیں اور ان پر بھروسہ کیا جائے۔‘
انگلینڈ کے رائل کالج آف سرجنز کے صدر ٹم مچل نے کہا کہ یہ نتائج ’واقعی چونکا دینے والے‘ اور ’ناقابل یقین حد تک پریشان کن‘ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس ’گھناؤنے رویے‘ نے زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے اور ’ہمارے آپریٹنگ تھیٹرز یا این ایچ ایس میں کہیں بھی اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنی صفوں میں اس طرح کے رویے کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
این ایچ ایس انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر بنتا سلطان نے کہا کہ رپورٹ میں ’ناقابل یقین حد تک مشکل باتیں ہیں‘ اور اس میں ’واضح شواہد‘ پیش کیے گئے ہیں کہ ہسپتالوں کو ’سب کے لیے محفوظ‘ جگہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم پہلے ہی اس ضمن میں اہم اقدامات کر رہے ہیں، ان میں ان لوگوں کو جو ہراساں کیے جانے یا نامناسب رویے کا شکار ہوئے ہیں انھیں شکایت کے واضح طریقہ کار کے ساتھ مزید مدد فراہم کرنا شامل ہے۔‘
جنرل میڈیکل کونسل نے گذشتہ ماہ ڈاکٹروں کے لیے اپنے پیشہ ورانہ معیارات کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔
اس کے چیف ایگزیکٹیو چارلی میسی نے کہا کہ ’مریضوں یا کولیگز کے ساتھ جنسی رویہ اختیار کرنا ناقابل قبول ہے‘ اور یہ کہ ایسی ’سنگین بدسلوکی‘ برطانیہ میں طب کے پیشے کو جاری رکھنے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
لیکن کیا آج سرجری کا شعبہ خواتین کے کام کرنے کے لیے محفوظ جگہ ہے؟
اس پر جوڈتھ کہتی ہیں کہ ’ہمیشہ نہیں۔ اور یہ ایک خوفناک چیز ہے جسے تسلیم کرنا پڑ رہا ہے۔‘
Comments are closed.