بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

آٹو کمپنی نسان کے سابق چیئرمین کارلوس غصن کے زوال کے کہانی

آٹو کمپنی نسان کے سابق چیئرمین کارلوس غصن کے زوال کے کہانی

  • تھیو لیگیٹ
  • نامہ نگار برائے بزنس ، بی بی سی نیوز

Carlos Ghosn leaving Tokyo Detention House on 25 April 2019

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

کارلوس کا زوال دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا حصہ بنا

یہ سازشوں کا جال تھا جس کی وجہ سے دنیا کی گاڑیوں کی معروف کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ کی گرفتاری اور اس کے بعد ڈرامائی فرار عمل میں آیا۔

سنہ 2018 کے آخر میں گاڑیوں کی معروف کمپنی نسان کے سابق چیئرمین کارلوس غصن کے زوال نے دنیا بھر کے اخبارات کے پہلے صفحے پر سرخیاں بنائیں۔ اور پھر ایک برس سے زیادہ عرصے کے بعد ان کا جاپان سے فرار ہونا بھی دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں رہا۔

اس پورے معاملے میں رویندر پاسی کے پاس گرینڈ سٹینڈ سیٹ تھی۔ نسان کے سب سے اعلیٰ عالمی وکیل کی حیثیت سے وہ ایک کارپوریٹ زوال کے گواہ تھے جسے انھوں نے ’پناہ لینے والے پاگلوں‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

کارلوس غصن کی گرفتاری کے وقت، 45 سالہ برطانوی وکیل مسٹر پاسی نسان کے بین الاقوامی جنرل کونسل کے طور پر کام کر رہے تھے، جو 250 افراد کی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ غصن کے معاملات کی تحقیقات میں حصہ لیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب انھیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ سابق چیئرمین ان الزامات کے تحت مجرم تھے یا نہیں جن کا انھیں جاپان میں سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ نسان کمپنی کے اندر عدم استحکام اور انتشار کے متعلق واضح طور پر بتاتے ہیں۔

A staff member is pictured at the reception of the showroom at the Nissan Motor global headquarters in Yokohama, Kanagawa prefecture

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نسان کا ہیڈ کوارٹر: رویندر پاس کا کہنا تھا کہ خبردار کیے جانے کی پاداش میں انھیں ذاتی طور نشانہ بنایا گیا

وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے کمپنی کے اندر وسیع پیمانے پر بدعنوانیوں کی نشاندہی کی جس کے انھیں ذاتی طور پر سنگین ذاتی نتائج بھگتنے پڑے اور نتیجتاً نسان کمپنی کی نوکری سے برخاست اور بالآخر برطرف کر دیا گیا۔

جاپانی پراسکیوٹرز کی جانب سے ان کے گھر پر چھاپہ مارنے کے ساتھ ساتھ ان کا ملک میں آٹھ سال سے جاری قیام کا بھی اختتام ہوا۔

نومبر 2018 میں، نسان کے سینیئر ایگزیکٹیو نے ایک جال بچھایا۔ انھوں نے اپنی کمپنی کے چیئرمین اور ان کے قریبی ساتھی گریگ کیلی کو ایک فوری اعلیٰ سطحی میٹنگ کے لیے ٹوکیو آنے کا لالچ دیا تھا۔

جب کارلوس غصن ٹوکیو کے ہنیڈا ہوائی اڈے پر پہنچے تو فوراً ہی انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر اپنی حقیقی کمائی ظاہر نہ کرنے سمیت مالی جرائم کا الزام لگایا گیا۔ پراسیکیوٹرز خود نسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کر رہے تھے، ان میں سے زیادہ تر معلومات غصن کے اپنے چیف آف سٹاف ہری ناڈا نے فراہم کی تھیں۔

غصن نے بعد میں دعویٰ کیا کہ وہ ناڈا اور چیف ایگزیکٹو ہیروٹو سائکاوا سمیت اعلیٰ سطح کے حکومتی عہدیداروں کے ساتھ مل کر رچائی گئی سازش کا شکار بنے ہیں۔

Renault and Nissan automobile logos are pictured during the Brussels Motor Show on January 9, 2020 in Brussels

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے کہا کہ یہ نسان اور اس کی فرانسیسی شراکت دار کمپنی رینالٹ کے مابین انضمام کے منصوبے کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جس کے بارے میں انھیں خدشہ تھا کہ فرانسیسی شراکت دار جاپانی کار ساز کمپنی پر بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیں گے۔

یہ وہ الزام ہے جس کی نسان اور سائکاوا جنھوں نے کمپنی کو چھوڑ دیا ہے نے بار بار تردید کی ہے۔

رویندر پاسی، نسان کمپنی کے اندر ان چند مٹھی بھر لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں پہلے سے اس منصوبہ بندی کے تحت ہونے والی گرفتاریوں کا علم تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لیکن اس ابتدائی مرحلے میں انھیں گہری بدگمانیاں تھیں۔

’مجھے ہری ناڈا کے دفتر میں بلایا گیا اور بتایا گیا کہ ڈرامائی انداز میں گرفتاریاں ہو گیں اس متعلق زیادہ سے زیادہ تشہیر کا اہتمام کیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ کسی کو ایک خاص دائرہ اختیار میں واپس لانے کے لیے اس سے جھوٹ بولتے ہیں، تاکہ آپ انھیں سر عام گرفتار کر سکیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

Pedestrians walk past giant TV screen

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کارلوس پر مقدمہ قائم کیا جانا تھا جب وہ جاپان سے فرار ہوئے

ان کا کہنا ہے کہ چیف آف سٹاف ہری ناڈا پہلے ہی پراسیکیوٹرز کے ساتھ ایک معاہدہ کر چکے تھے جس کے تحت انھیں غصن کے خلاف معلومات فراہم کرنے کے بدلے استثنیٰ دیا جانا تھا۔

یہ معاہدہ اس لیے ضروری تھا کہ ناڈا خود بھی بہت سے مالی معاملات اور انتظامات میں خرد برد کرنے میں ملوث رہے تھے جن کا استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ غیر قانونی تھے اور جس نے غصن کی گرفتاری کے لیے بنیاد فراہم کی تھی۔

پاسی کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ تھا ’خطرے کی گھنٹیاں بند ہو گئیں تھیں۔ کوئی بھی جو بنیادی سرگرمی میں ملوث ہے اسے تفتیش سے خارج کر دیا جائے گا اسے مجرم قرار نہ دیا جائے۔‘

جیسے جیسے کہانی سامنے آئی مزید غیر معمولی چیزیں ہونے لگیں۔ میڈیا کو بڑے پیمانے پر لیکس ملی تھیں جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’غصن کی ایک خاص شہرت نسان کے حق میں تھی۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معلومات براہ راست سی ای او کے دفتر سے آرہی تھی، جس کا انچارج مسٹر ناڈا تھے اور اس میں سے کچھ ’انتہائی خفیہ‘ تھے۔

تفتیش سے ہی دیگر معاملات بھی سامنے آئے جس نے نہ صرف ناڈا کو بلکہ خود سی ای او کو کمپنی کے مفادات سے متصادم پایا گیا۔ ان میں یہ حقیقت بھی شامل تھی کہ مسٹر سائکاوا نے خود تنخواہوں کے انتظامات سے متعلق دستاویزات پر دستخط کیے تھے بعد میں کہا گیا کہ یہ غیر قانونی ہے، جسے مسٹر سائکاوا نے بعد میں عدالت میں تسلیم کیا۔

Ravinder Passi and his wife, Sonia

،تصویر کا ذریعہRavinder Passi

،تصویر کا کیپشن

رویندر پاسی اور ان کی اہلیہ سونیا کو چار بچوں کے ساتھ فوریطور پر جانپان سے نکل جانے کو کہا گیا

ان مسائل سے پردہ اٹھانے کے بعد رویندر پاسی اپنی حفاظت کے لیے پریشان ہو گئے۔ ان کے خیال میں جس طرح دو غیر ملکی ایگزیکٹوز کو جاپان کا لالچ دیا گیا تھا، سر عام گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا، وہ اس کے بارے میں فکر مند تھے کہ اگر وہ بات کریں گے تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔

بہرحال ، اب تک ’ناقابل دفاع کا دفاع‘ کرنے سے قاصر ، مسٹر پاسی کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے نسان کی آڈٹ کمیٹی کے سربراہ کو لکھا، پھر کمپنی کے آزاد ڈائریکٹرز سے رابطہ کیا۔ جب کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اس کے بجائے ایک مدت آئی جس کے بارے میں مسٹر پاسی کہتے ہیں کہ کمپنی نے ’دروغ گوئی‘ کی۔ انھیں غصن تفتیش سے الگ کر دیا گیا اور اپنی بیشتر ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا گیا۔

نسان بورڈ روم میں جھگڑا اور فساد کارلوس غصن کی گرفتاری کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔ کئی غیر ملکی ایگزیکٹوز اچانک چھوڑ کر چلے گئے، بشمول چیف پرفارمنس آفیسر جوز منوز کے جو کہ غصن کے اہم ساتھی تھے۔ اس کے بعد ستمبر 2019 میں، سی ای او ہیروٹو سائکاوا کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ انھیں قواعد کے برخلاف زیادہ اجرت دے گئی۔

لیکن اوپر کی تبدیلیوں نے خبردار کرنے والے پر دباؤ کو کم نہیں کیا۔ مئی 2020 میں رویندر پاسی کو نسان نے کچھ دنوں میں جاپان چھوڑنے کا حکم دیا تھا اور جب وہ جانے کی تیاری کر رہے تھے ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ایسا کرنے والے نسان کے عملے اور عدالت کے اہلکار تھے جن کے ساتھ پولیس بھی تھی۔

چھاپہ، جو اس کی بیوی سونیا اور ان کی چار کمسن بیٹیوں کے سامنے مارا گیا، اس کا مقصد ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور کمپنی کا فون واگزار کرنا تھا۔ ان کے بقول کمپیوٹر میں نسان کے ایگزیکٹوز کے ’نامناسب اور خوفناک‘ رویے کے ثبوت موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

رویندر پاسی اب نسان کے ملازم نہیں ہیں۔ انھیں گذشتہ سال جاپان میں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انھیں برطانیہ میں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ پہلے وہ 250 افراد کی ٹیم کی قیادت کرتے تھے اور اب وہ صرف دو دیگر افراد کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہی انھیں برطرف کر دیا گیا تھا۔ وہ نسان کمپنی کو اپنے غیر منصفانہ برطرفی کے خلاف عدالت لے گئے۔

نسان جہاں اب بھی ہری ناڈا کی ملازمت قائم ہے نے مسٹر پاسی کے الزامات کے حوالے سے بی بی سی کے سوالات کی فہرست کا جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا ہے کہ وہ جاری قانونی مقدمے بازی پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

تاہم، کمپنی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کارلوس غصن کے بارے میں اس کی اندرونی تفتیش ’ٹھوس اور مکمل‘ تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’ٹھوس اور قابل اعتماد‘ شواہد ملے ہیں جن سے یہ ثابت ہوا کہ مسٹر غصن نے ’جان بوجھ کر سنگین بدانتظامی اور کارپوریٹ اخلاقیات کی بڑی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا۔‘

Nissan Motor Company CEO Hiroto Saikawa, 12 March 2019 in Yokohama. Japan

،تصویر کا ذریعہiStock

،تصویر کا کیپشن

نسان کے سی ای او نے قواعد کے بر خلاف زیادہ اجرت لینے کا اعتراف کیا جس کے بعد انھیں برطرف کر دیا گیا

کاریں بنانے والی کمپنی نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ اس نے اپنے گورننس ڈھانچے کو مزید آزاد اور شفاف بنا کر مضبوط کیا ہے اور اپنے اندرونی آڈٹ کے طریقہ کار کو بھی بہتر کیا ہے۔

رویندر پاسی نے نسان میں اپنے تجربات کو ’ غیر حقیقی‘ قرار دیا اور وہ کہتے ہیں کہ انھیں اب بھی پورا معاملہ حیران کن لگتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں سینیئر ایگزیکٹوز کو مستقل بنیادوں پر بے دخل کرتی رہتی ہیں لیکن شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے جیسا اس ڈرامائی معاملے میں ہوا کہ کمپنی نے اپنے ایک وقت کے بورڈ روم سپر سٹار کارلوس غصن سے چھٹکارا حاصل کیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.