آن لائن پرتشدّد مواد: ’مجھے اپنے والد کے قتل کا علم فیس بک پر ان کی لاش دیکھ کر ہوا‘

موٹی

،تصویر کا ذریعہFISEHA ADUGNAW MINTESNOT

جب ایتھوپیا کی یونیورسٹی کے طالب علم موٹی ڈیریجے نے نومبر 2018 کے آخر میں اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لاگ ان کیا تو وہ اپنے دوستوں اور خاندان والوں کی جانب سے معمول کی اپ ڈیٹس دیکھنے کی توقع کر رہے تھے۔

اس کے بجائے دارالحکومت ادیس ابابا میں زیر تعلیم 19 سالہ نوجوان نے ایک چونکا دینے والی پوسٹ دیکھی۔

انھوں نے بی بی سی کے دی کومب پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ ’جب میں نے اپنی نیوز فیڈ کو ری فریش کیا تو میں نے اپنے والد کی لاش وہاں پڑی دیکھی۔‘

یہ ہولناک تصویر دیکھ کر نہ صرف موٹی پریشان ہو گئے، بلکہ اسی پوسٹ سے انھیں یہ خبر ملی کہ ان کے والد کو قتل کر دیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میں اس لمحے ایک طرح سے منجمد ہو گیا تھا۔ یہ میرے لیے صدمہ تھا۔‘

ایتھوپیا کو گذشتہ چند سالوں سے مختلف خطوں میں سیاسی بدامنی کا سامنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا گرافک تصاویر اور ویڈیوز، غلط معلومات اور تشدد کو بھڑکانے والی پوسٹس سے بھر گیا ہے۔

کارکن پلیٹ فارمز کو اعتدال میں لانے اور اس طرح کے مواد کو نقصان پہنچانے سے پہلے اسے ہٹانے کے لیے مزید کام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

موٹی اس تصویر کو ہٹوانے کے بجائے اسی تصویر کو دکھانے والی مزید پوسٹس تلاش کرنے لگے۔

ان کے والد ایک سابق رکن پارلیمنٹ جو یونیورسٹی کے منتظم کے طور پر کام کر رہے تھے، مغربی اورومیا میں ایک سیاسی قتل کا نشانہ بنے تھے۔

یہ خطّہ اس وقت انتشار کے دور سے گزر رہا تھا جس میں مسلسل قتل و غارت ہو رہی تھی۔

وہ بتاتے ہیں ’ایسا لگتا تھا جیسے وہ انھیں مارنے کا جشن منا رہے تھے۔ یہ حقیقت میں تکلیف دہ تھا‘

بی بی سی نے ان میں سے 15 پوسٹس دیکھی ہیں، جن کے بارے میں موٹی کا کہنا ہے کہ انھوں نے فیس بک کو اس امید پر اطلاع دی کہ انھیں ہٹا دیا جائے گا۔

فیس بک کے کمیونٹی سٹینڈرڈز میں کہا گیا ہے کہ وہ ’خاندان کے کسی فرد کی جانب سے اسے ہٹانے کی درخواست پر ان ویڈیوز اور تصاویر کو ہٹا دے گا جو کسی کی پرتشدد موت دکھاتے ہیں۔‘

لیکن چار سال سے زیادہ عرصے تک اور موٹی کے کہنے کے بعد بھی کہ انھوں نے متعدد بار پوسٹس کی رپورٹ دی، وہ آن لائن رہیں۔

کچھ تصویروں پر صرف گرافک مواد کی وارننگ لگائی گئی تھی۔

موٹی کہتے ہیں، ’کبھی کبھی میں افسردہ ہو جاتا ہوں اور میں ان کا نام تلاش کرنے اور پوسٹس چیک کرنے سے خود کو نہیں روک سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ایک طرح سے صدمے کا شکار ہوں۔‘

جب بی بی سی نے تبصرے کے لیے فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا سے رابطہ کیا، تو اس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ صرف پرتشدد اور گرافک مواد سے متعلق تصویروں کا ہونا اس کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے تاہم وہ خاندان کے کسی فرد کی درخواست کی وجہ سے پوسٹس کو ہٹا دے گی۔

موٹی کے مردہ والد کی تصویر والی تمام پوسٹس کو اب ہٹا دیا گیا ہے۔

فی الحال فیس بک کے رپورٹنگ سسٹم میں فیملی ممبرز کے لیے یہ درخواستیں کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، لیکن میٹا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کی اجازت دینے کے لیے ایک نیا فارم ترتیب دےرہا ہے۔

موٹی

،تصویر کا ذریعہFISEHA ADUGNAW MINTESNOT

’ایتھوپیا کے مواد کو نظر انداز کر دیا گیا‘

ایتھوپیا کے سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے گرافک مواد اور نفرت انگیز تقریر کے حجم کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔

سنہ2020 سے پہلے یہ ایک مسئلہ تھا، لیکن جب اسی سال نومبر میں شمالی ٹِگرے کے علاقے میں جنگ شروع ہوئی تو تشدد کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا جو لوگوں کی نیوز فیڈز پر آنے لگا۔

سنہ 2021 میں فیس بک کے نگران بورڈ نے سفارش کی کہ کہ پلیٹ فارم کو نفرت انگیز تقریر پھیلانے اور تشدد میں اضافے کے لیے کس طرح استعمال کے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے کمپنی خاص طور پر ایتھوپیا کے لیے ایک آزادانہ تحقیقات کرے۔

تاہم یہ جائزہ نہیں لیا گیا۔ بی بی سی نے میٹا سے اس بارے میں پوچھا، اور ایک ترجمان نے کمپنی کے پچھلے جواب پر روشنی ڈالی، اور کہا کہ وہ اس طرح کے جائزے کی فزیبلٹی کا جائزہ لے گی۔

پچھلے سال یہ اعلان کیا گیا تھا کہ میٹا کے خلاف دو ایتھوپیائی باشندے مقدمہ کر رہے ہیں جنھوں نے الزام لگایا کہ فیس بک کے الگوردھم نے نفرت اور تشدد کے تیزی سے پھیلاؤ میں مدد کی۔

میٹا نے جواب دیا کہ اس نے نفرت کو دور کرنے کے لیے اعتدال اور ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔

لیکن ادیس ابابا میں واقع حقائق کی جانچ کرنے والی ایک مشیر ریہوبوٹ آیالیو سوال کرتی ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کتنا کام کر رہی ہیں۔

انھوں نے دی کومب کو بتایا ’مجھے نہیں لگتا کہ پلیٹ فارم ایتھوپیا پر اتنی توجہ دے رہے ہیں‘۔

’میں جانتا ہوں کہ فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے ماڈریٹرز ہیں جو ایتھوپیا پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جو امہاری بولنے والے اور ٹگرینیا بولنے والے ہیں، لیکن ہم نہیں جانتے کہ کتنے ہیں اور وہ ایتھوپیا سے بھی کام نہیں کر رہے ہیں، وہ کینیا میں کام کر رہے ہیں‘۔

ریہوبوٹ کے مطابق اس کا اثر یہ ہے کہ آن لائن اکثر بہت زیادہ پرتشدد مواد دستیاب رہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’عام طور پر نفرت انگیز پوسٹ کو اتارنے میں کافی وقت لگتا ہے۔‘

ایتھوپیا

،تصویر کا ذریعہAFP

اشتعال میں اضافہ

ریہوبوٹ نے ایک ویڈیو کا حوالہ دیا جسے مارچ 2022 میں بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا تھا، جس میں ایک ٹگراین آدمی کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں ’سب سے پہلے، مصنوعی ذہانت کو خود ہی اسے ہٹا دینا چاہیے تھا۔‘

’پھر اس کی رپورٹ کیے جانے کے بعد بھی اسے جلدی سے ہٹا دینا چاہیے تھا، لیکن یہ کچھ گھنٹوں تک رہا۔‘

میٹا کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس سخت قوانین ہیں جو اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانا ان قوانین کے خلاف ہے اور ہم ٹیموں اور ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ مواد تلاش کرنے اور ہٹانے میں مدد ملے۔ ‘

"’م مقامی علم اور مہارت کے ساتھ عملے کو ملازمت دیتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں بشمول امہاری، اورومو، صومالی اور ٹگرینیا میں خلاف ورزی کرنے والے مواد کو پکڑنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو تیار کرتے رہتے ہیں۔‘

جب عوام کی توجہ انسانی حقوق کی گھناؤنی خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کرائی جائے تو کچھ اچھا ہو سکتا ہے، لیکن اس طرح کے مواد کو غصے کو بھڑکانے اور مخصوص نسلی گروہوں یا افراد پر الزام لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہر وقت اس طرح کے مواد کو دیکھنے کے تکلیف دہ اثرات ایتھوپیا اگر لاکھوں نہیں، تو ہزاروں لوگ محسوس کرتے ہیں۔

پچھلے سال نومبر میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کا مقصد ٹیگرے میں جنگ کا خاتمہ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگین انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تخمینہ لاکھوں میں ہے، ان میں سے زیادہ تر اموات لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک اور طبی سامان کی کمی کی وجہ سے ہوئیں۔

دریں اثناء بدامنی اب بھی اورومیا کے علاقے میں ہے جہاں بغاوت بڑھ رہی ہے ۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے تشدد کی وجہ سے مصالحت کی کوششوں میں رکاوٹ آئے گی۔

ریہوبوٹ کہتی ہیں ’لوگ پوسٹوں پر یقین کرنے اور ان پر عمل کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، لہٰذا وسیع پیمانے پر پرتشدد اور تباہ کن تصاویر یقیناً امن اور مفاہمت کے عمل کو سست کر سکتی ہیں۔‘

موٹی اب 23 سال کے ہیں، وہ اپنی زندگی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک ویڈیو گرافر اور فوٹوگرافر کے طور پر اپنا کیریئر بنا رہے ہیں، اور اپنے تجربے کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میرے خیال میں یہ وہ وقت ہے جب میں اپنی کہانی سنانے کی کوشش کر رہا ہوں اور ہو سکتا ہے، اگر میں کامیاب ہو گیا تو شاید میں تبدیلی لا سکوں۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ گرافک مواد کا پھیلاؤ انھیں اس وقت تک پریشان کرتا رہے گا جب تک اسے قابو میں نہیں لایا جاتا۔

’جب بھی میں ایتھوپیا کی جنگ کی وجہ سے آن لائن یا فیس بک پر پوسٹ کی گئی لاش دیکھتا ہوں، تو مجھے واقعی دکھ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی وہی سب محسوس کر رہا ہو گا جس سے میں گزر رہا ہوں۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ