آن لائن بزنس: افریقہ کی وہ خواتین جو روایتی کام چھوڑ کر سمارٹ فونز سے کما رہی ہیں
- سیم فینوک
- بی بی سی بزنس ڈیلی
بی بی سی نے تین افریقی خواتین کا انٹرویو کیا ہے۔ ایک سابق دکان کی مالک، ایک استاد اور ایک ٹیکسی ڈرائیور۔ ان تینوں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔
کووڈ 19 کی عالمی وبا نے بہت سے لوگوں کو اپنے ذریعہِ روزگار پر دوبارہ سے غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔
آزادانہ طور پر تحقیق کرنے والے ایک گروپ کیریبو ڈیجیٹل کے مطابق کینیا، نائیجیریا اور گھانا میں خواتین ڈیجیٹل معیشت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ روزگار بھی کما رہی ہیں۔
شیرون تارت
تارت کو نو مہینوں کے اندر اندر اپنی آمدنی دگنی ہونے کی توقع نہیں تھی۔
کووڈ کے باعث انھیں مغربی کینیا میں واقع بچوں کے کپڑوں والی اپنی دکان مجبوراً بند کرنی پڑی۔ ایئر بی این بی جیسے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی پراپرٹی کرائے پر دینا انھیں ایک آسان عمل لگا۔
لیکن 29 سالہ تارت اب ان افریقی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں شامل ہیں جنھیں فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز اور اوبر اور بولٹ جیسی ٹیکسی ایپس سے نئے کیریئر مل گئے ہیں۔
انھوں نے نو ماہ قبل ایک پراپرٹی کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا تھا اور اب ان کے پاس سات پراپرٹیز ہیں۔ انھوں نے طویل مدتی معاہدے کیے ہیں اور وہ ایئر بی این بی کے ذریعے یہ پراپرٹیز کرائے پر دیتی ہیں۔
تارت نے بی بی سی بزنس ڈیلی کو بتایا ’میں اب وبا شروع ہونے سے پہلے والے کاروبار سے کہیں زیادہ پیسہ کما رہی ہوں۔‘
ان کے زیادہ تر گاہگ سیاح ہیں جو چھٹیوں کے دوران رہائش کی بکنگ کرواتے ہیں یا وہ کاروباری لوگ جو ہوٹل کے بجائے ایئر بی این بی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
تارت بتاتی ہیں ’کووڈ کے دوران میری بہت سی دوستوں نے اپنی ملازمتیں کھو دیں اور پیسہ کمانے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال شروع کیا۔ اب وہ آن لائن گروسری بیچ رہی ہیں اور ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کر رہی ہیں۔‘
جوزفین ایڈزوگبلی
گھانا کے دارالحکومت اکرا میں رہنے والی 32 سالہ ایڈزوگبلی کے لیے ایک عام دن کی شروعات اپنے گھر میں ہی رہتے ہوئے فیس بک اور واٹس ایپ پر اشتہارات پوسٹ کرنے سے ہوتی ہے۔
وہ افریقی معیشت میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک کا فائدہ اٹھا رہی ہیں اور یہ تبدیلی ہے آن لائن مارکیٹوں میں اضافہ۔
وہ موبائل فونز، ایئر کنڈیشننگ یونٹس اور ٹیلی ویژن بیچتی ہیں اور وہ ان چیزوں کے اشتہارات واٹس ایپ اور فیس بک پر بنائے گئے نئے گروپس میں پوسٹ کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے چرچ والے گروپ میں بھی ایسے اشتہارات بھیجتی ہیں۔
ایڈزوگبلی نے اپنے آن لائن کاروبار پر توجہ دینے کے لیے فرانسیسی زبان سکھانے والی نوکری بھی چھوڑ دی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں پڑھانے سے بہتر معاوضہ ملتا ہے۔ میں ایک چیز بیچ کر اتنا کما سکتی ہوں جتنا میں ایک مہینے پڑھا کر بھی نہیں کما پاتی تھی۔ میں ایک ماں ہوں۔ مجھے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوانی ہے اور مالی طور پر خود مختار ہونے کے لیے وہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘
ایڈزوگبلی کے نزدیک صارفین کے ساتھ اچھے اور مضبوط تعلقات استوار کرنا آن لائن پیسہ کمانے کی کنجی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس طرح وہ آپ سے خرید کر اچھا ریویو دیں گے۔‘
ایوبامی لاول
34 سالہ لاول نائیجیریا کے مرکزی شہر لاگوس میں ٹیکسی فرم اوبر اور بولٹ کے لیے کام کرتی ہیں۔
تاہم یہ آسان نہیں تھا۔ چار بچوں کی ماں بتاتی ہیں کہ کچھ مرد اس کار میں نہیں بیٹھنا چاہتے جسے کوئی عورت چلا رہی ہو۔
وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں جب میں نے لاگوس میں ٹیکسی چلانا شروع کی، اس وقت جب میں سواری کو لینے پہنچتی تو عورت ڈرائیور دیکھ کر سب مرد اپنی رائڈ کینسل کر دیتے۔
وہ کہتی ہیں کہ لاگوس ایک قدرے خطرناک شہر ہے اور اس شہر میں عورت ہو کر گاڑی چلانے کے لیے آپ کو بہت مضبوط ہونا پڑے گا۔ مردوں کو لگتا ہے میں اتنی طاقتور نہیں ہوں، مجھے انھیں گاڑی میں بیٹھانے کے لیے قائل کرنا پڑتا ہے۔‘
کیریبو ڈیجیٹل کی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ روزی کمانے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کرنے والی بہت سی خواتین اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اس تحقیق کی محقق گریس ناٹابالو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت سی خواتین جن سے ہم نے بات کی، انھوں نے بتایا کہ سواری اٹھانے کے دوران انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ حکومتیں نوجوان خواتین کو یہ کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں لیکن انھیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ ان کریئرز کے دوسری جانب کیسے لوگ موجود ہیں۔ اس کام میں خطرات ہیں اور انھیں (حکومتوں کو) یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پولیس اور سرکاری محکمے اس بارے میں آنے والی شکایات کو سنجیدگی سے لیں۔
لیکن لاول کا کہنا ہے کہ اس کام کے فائدے، نقصان سے کہیں زیادہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اپنے لیے روزی کمانا ضروری ہے لیکن ’میں ٹیکس ادا کر کے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے ساتھ ساتھ نائیجیریا کی معیشت کو ترقی دینا چاہتی ہوں۔‘
Comments are closed.