آنکھوں پر پٹی باندھ کر کتابیں پڑھنے والے انڈین جوگی خدا بخش جنھیں ’صدی کا عجوبہ‘ قرار دیا گیا
،تصویر کا ذریعہPICTURE: BRITISH PATH
مسٹر بخش بورڈ پر لکھی چیز کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر پڑھ اور لکھ رہے ہیں
- مصنف, چیریلین مولان
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ممبئی
پرہجوم گلیوں کے بیچ سائیکل پر سوار کوئی آدمی اگر گزر رہا ہو تو اس میں کوئی جائے حیرت نہیں۔ لیکن اگر وہی شخص آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھ کر گزرے کہ سانس لینے کے لیے اس کے صرف نتھنے کھلے ہوں تو لوگ حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔
اور پٹی بھی کچھ اس طرح کہ پہلے آنکھوں پر آٹے کے پیڑے ہوں، پھر اس پر روئی رکھی گئی ہو اور پھر اس پر کئی تہہ کی پٹی اس طرح بندھی ہو کہ بندے کو کچھ نہ سجھائی دے۔
ایسے ہی ایک سائيکل سوار کدا بخش یا خدا بخش تھے جو سنہ 1905 میں کشمیر میں پیدا ہوئے اور سنہ 1930 اور 40 کی دہائیوں میں انگلینڈ اور یورپ کی سڑکوں پر سائیکلنگ کا یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسا کرنے کے قابل اس لیے ہیں کیونکہ وہ ’آنکھوں کے بغیر دیکھ سکتے ہیں۔‘
وہ اپنے اس جادوئی کارنامے یا کرتب کی ’ایکس رے کی آنکھوں والا آدمی‘ کی سرخی سے تشہیر کرتے تھے۔ وہ اپنے منفرد اور مخصوص انداز میں اس طرح کے کئی کارنامے انجام دیتے۔ جیسے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر کسی کتاب سے اقتباس پڑھتے اور سوئی میں دھاگہ ڈال کر لوگوں کو حیران کر دیتے۔
خدا بخش نے اپنی بظاہر مافوق الفطرت قابلیت سے نسلوں کو مسحور کیا ہے۔ مبینہ طور پر انھوں نے رولڈ ڈاھل کی سنہ 1977 کی کہانی ‘دی ونڈرفل سٹوری آف ہنری شوگر’ کو بھی متاثر کیا، جسے اب ’ویس اینڈرسن‘ نے اپنی فلم میں پیش کیا ہے۔
مسٹر بخش کا اصل نام کدا بخش تھا۔ وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1952 میں انھوں نے مسٹر ڈاھل کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ وہ پروفیسر مور کے نام سے مشہور ایک ہندوستانی جادوگر کی کارکردگی کے بعد ان کے جادو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان پر اسے سیکھنے کا جنون سوار ہو گیا۔
ان کے کرتب کے دو دن بعد وہ 13 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گئے اور مسٹر مور کی شاگردی اختیار کرنے کے لیے کشمیر سے لاہور پہنچ گئے۔ اگلے سالوں میں انھوں نے برما (میانمار)، سیلون (سری لنکا) اور بمبئی (ممبئی) کا سفر کیا اور خانہ بدوش یا گھومکڑ جادوگروں، یوگیوں اور تھیٹر کے فنکاروں سے شعبدہ بازیاں اور جادوئی ہنر سیکھے۔
،تصویر کا ذریعہCAITLYN RENEE MILLER
جنی میگزن میں مسٹر بخش پر کور سٹوری شائع ہوئی
نام بدلے
انھوں نے اپنا نام بھی بدل کر پروفیسر کے بی ڈیوک رکھ لیا اور پھر کدا بخش نام پر واپس آ گئے۔ مصنف جان زوبرزیکی نے اپنی کتاب ‘ایمپائر آف اینچنٹمنٹ: دی سٹوری آف انڈین میجک’ میں یہ باتیں لکھی ہیں۔
مئی سنہ 1935 میں وہ انگلینڈ پہنچے جہاں مشرقی دنیا کے جادوگروں کی چاہ تھی اور لوگ ان کے کرتب کے بھوکے تھے۔
مسٹر زوبرزکی بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ اس وقت ’ہندوستان کو ‘جادو کی سرزمین’ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسا تصور تھا جو ہندوستان کا دورہ کرنے والے سیاحوں، مشنریز، تاجروں اور مؤرخین کی تحریروں سے پروان چڑھا۔ انھوں نے اپنے دلکش، لیکن اکثر مبالغہ آمیز انداز میں گلیوں یا درباروں کے جادوگروں کے کرتبوں کا دیکھنے کا ذکر کیا ہے۔‘
بہت سے ہندوستانی جادوگروں نے بیرون ملک جادوئی کاموں سے فائدہ اٹھایا کیونکہ مغرب والے جادوئی چیزوں کو پسند کرتے تھے۔ اور کدا بخش ان میں سے ایک تھے۔ اگرچہ وہ کسی انگریز جیسا لباس پہنتے تھے لیکن وہ اپنی جادوئی قوت کو مشرقی گیان اور تصوف سے جوڑتے تھے۔
جادوئی کہانیوں پر مبنی میگزین ‘دی لنکنگ رنگ’ میں بخش کے بارے میں لکھتے ہوئے، مورخ جان بوتھ نے انھیں ‘برصغیر پاک و ہند کے ایسے پراسرار آدمی کے طور پر بیان کیا ہے جو پیرس میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر سائیکل چلاتا تھا جس کے گرد ایک صوفیانہ حالہ تھا۔’
انگلینڈ میں کدا بخش کو اپنے ‘ایکس رے جیسی آنکھوں’ کے کھیل سے تیزی سے شہرت حاصل ہوئی۔ اور انھوں نے ایسے لوگوں کی توجہ حاصل کی جو ان کے جادو کو نہیں مانتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کی صداقت کو جانچنے کے لیے وہ ان کے ‘امتحان’ لیتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آک پر چلنے کا امتحان
امتحان
برطانیہ کے مشہور ‘بھوتوں کا شکاری’ ہیری پرائس نے جولائی 1935 میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر کدا بخش کے ایکسرے وژن کے دعوؤں کا امتحان لیا۔
مسٹر زوبرزکی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’ہیری پرائس سرجیکل پٹیوں، چپکنے والی ٹیپ، روئی کے پیڈ اور بھاری سیاہ کپاس کی دوہری موٹائیوں والی ایک خصوصی پٹی کے ساتھ آئے جس کے درمیان روئی کی ایک تہہ تھی۔’
جب کدا بخش نے پرائس کی پٹی لگا کر کامیابی سے کتاب سے اقتباس کو پڑھ لیا تو ایک ڈاکٹر نے ان کی آنکھوں پر پٹی دوبارہ باندھی دی۔ اس کے بعد بھی کدا بخش اس کے ہاتھوں سے لکھے نوٹ پڑھ رہے تھے جو ان کے پیچھے ایک میز پر رکھا ہوا تھا۔
ستمبر سنہ 1935 میں پرائس نے کدا بخش کا ایک اور امتحان لیا جس سے انھیں انگلینڈ اور یورپ کے بیشتر حصوں میں مزید شہرت حاصل ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
سرے کے دیہی علاقوں میں کدا بخش نے آگ پر چلنے کا کارنامہ انجام دیا۔ انگلینڈ میں پہلی بار ایسا کوئی کارنامہ انجام دیا گیا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اور صحافیوں کی موجودگی میں یہ کارنامہ انجام دیا۔
امتحان لینے والوں نے کدا بخش کی ہر پہلو سے جانچ کی اور آگ پر چلنے سے قبل اور اس کے بعد بھی انھوں نے ان کے پیروں اور تلوں کی جانچ کی تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ کہیں کدا بخش نے کوئی دھوکہ دینے والی چیز تو نہیں پہن رکھی ہے۔
ان کو جانچنے کے لیے ایک گڑھا کھودا گیا اور اسے لکڑی، چارکول، پیرافین اور اخبارات کی ردی سے بھرا گیا اور اس میں آگ لگا دی گئی۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ گڑھا شعلوں سے بھرا ہوا تھا۔
کدا بخش نے دہکتی ہوئی آگ کے گڑھے کو ایک بار نہیں بلکہ چار مرتبہ ننگے پاؤں پار کیا۔ پرائس نے اپنی کتاب ‘کنفیشن آف اے گوسٹ ہنٹر’ میں لکھا ہے کہ ‘اس کے پاؤں پر چھالے کا کوئی نشان تک نہیں تھا۔’
نو دن بعد مزید مبصرین کی موجودگی میں کدا بخش نے ایک آگ کے گڑھے کو دو بار ننگے پاؤں پار کیا جس میں سٹیل کو رکھ دیا جاتا تو وہ بھی پگھل سکتی تھی۔ لیکن اس بار بھی کدا بخش کے پاؤں محفوظ رہے۔
مسٹر زوبرزکی لکھتے ہیں کہ اس کارنامے کی وجہ سے پرائس کا ذہن اس قیاس کی طرف گیا کہ ’جسمانی اور ذہنی قوتوں کے درمیان کچھ غیر واضح تعلق تھا جو اسے چوٹوں سے محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہBRITISH PATH
ڈاکٹروں نے مسٹر بخش کی آنکھوں پر خود سے پٹی باندھی
توجہ مرکوز کرنے کی مشق
ڈاھل کے ساتھ انٹرویو میں مسٹر بخش نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ’اس حد تک توجہ مرکوز کی کہ مجھے آگ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ آگ ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ’بصارت کی اندرونی حس‘ انھیں ’ایکس رے وژن‘ کے کارنامے انجام دینے میں مدد کرتی ہے اور یہ کہ انھوں نے اس احساس کو ’باشعور ذہن کو مرتکز‘ کر کے مشقوں کے ذریعے حاصل کیا جو ایک یوگی نے انھیں نوعمری میں سکھائی تھیں۔
ذہن کو ہمہ تن متوجہ کرنے میں موم بتی کے شعلے کے سیاہ دھبے کو اس وقت تک گھورنا شامل تھا جب تک کہ ’اس کے آس پاس کی ہر چیز غائب نہ ہو جائے‘ اور وہ اس شخص کے چہرے کو پوری طرح سے دیکھ سکتا تھا جسے وہ سب سے زیادہ پیار کرتا تھا، یعنی اپنے بھائی کے چہرے کو۔
کئی سالوں تک ہر رات موم بتی کی مشق کرنے کے بعد کدا بخش کو 24 سال کی عمر میں احساس ہوا کہ اگر وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کسی چیز پر شدت کے ساتھ توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ‘میں جس چیز کو دیکھ رہا ہوں اس کا خاکہ مبہم، مدھم انداز میں دیکھ سکتا ہوں۔’
انھوں نے کہا کہ جب وہ 28 سال کے ہوئے تو وہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے۔
ایسا نہیں کہ مسٹر بخش کے دعووں کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگ جنھوں نے ان کے نام نہاد ایکس رے کھیل کا مطالعہ کیا وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے تھے کہ وہ اپنی ناک کے اطراف میں جھانک رہا تھا۔ کدا بخش پر مضمون لکھنے والے کیٹلن رینی ملر کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ان کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
جادوگر بل لارسن نے میجک میگزین ‘جنی’ کے ایک مضمون میں لکھا کہ اس کے شوز کو دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ آتے تھے جبکہ پریس نے انھیں ‘صدی کا عجوبہ’ اور ‘دنیا کا آٹھواں عجوبہ’ قرار دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
موم بتی
آخری ایام امریکہ میں تاش کھیل کر گزارے
رپلی کے ‘بلیو اٹ یا ناٹ’ کے پہلے ٹیلی ویژن شو پر کدا بخش کو پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنا ٹی وی شو ‘کدا بخش: ہندو یوگی’ بھی شروع کیا۔
مسٹر بخش کا یہ عمل اتنا قائل کرنے والا تھا کہ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ واقعی ‘بغیر آنکھوں کے دیکھ سکتا ہے’۔
بوتھ نے اس بارے میں لکھا کہ کس طرح بخش کے دعووں میں سے ایک جسے پریس نے بڑے پیمانے پر مشتہر کیا تھا وہ تین خواتین اداکاروں میں گھبراہٹ کا باعث بنی جو بخش کے ایک شو میں پرفارم کرنے والی تھیں۔
بخش نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اینٹوں کی دیواروں کے پار دیکھنے کی مشق کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان خواتین نے بخش سے بہت دور ڈریسنگ روم کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے شکایت کی کہ ‘ہمارے اور کدا بخش کے درمیان صرف ایک اینٹ کی دیوار ہے۔’
وہ بالآخر لندن چھوڑ کر امریکہ چلے گئے جہاں وہ ہالی وڈ کے مشہور کلب میجک کیسل سمیت بہت سے مقامات پر اپنے کرتب دکھاتے رہے۔
بخش سنہ1981 میں کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں فوت ہو گئے۔ انھوں نے اپنے آخری ایام میجک کیسل میں جادوگروں کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے گزارے۔ بوتھ لکھتے ہیں کہ انھیں اسی صورت میں شکست دی جا سکتی تھی جب انھوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی نہ باندھ رکھی ہو۔
Comments are closed.