- مصنف, فرنانڈا پال
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 10 منٹ قبل
اس کا اصل نام رامون گُستاوو کاسٹیلو گائٹے تھا لیکن اسے پسند تھا کہ لوگ اُسے ’آنتاریز دے لا لُز‘ کے نام سے پکاریں۔لمبی داڑھی، چھوٹے بال اور دراز قد۔۔۔ اس کی شخصیت ایسی تھی جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آنتاریز کی شخصیت نے اُسے اس مقام پر پہنچنے میں مدد دی جہاں وہ ایک فرقے کا رہنما بن گیا اور اپنے پیروکاروں کے سامنے دعویٰ کرنے لگا کہ وہ زمین پر ’خُدا کا روپ‘ ہے۔آنتاریز کے پیروکار صرف اُسے پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے فرمابردار بھی تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ان کے رہنما کا مقصد دُنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔اور ان کے نزدیک دنیا کو بچانے کے لیے بھینٹ چڑھانا ضروری تھا۔ نومبر 2013 میں آنتاریز کے گروہ نے ایک زندہ نوزائیدہ بچے کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔
اس فرقے کے رہنما آنتاریز کے مطابق یہ بچہ دراصل ’دجال‘ تھا۔ اس واقعے نے پورے چلّی کو ہلا کر رکھا دیا اور لوگوں میں غم و غصہ اتنا بڑھ گیا کہ آنتاریز کو اپنا ملک چھوڑ کر پڑوسی ملک پیرو فرار ہونا پڑا۔چلّی میں آنتاریز کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا اور پولیس نے اُسے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ کچھ مہینوں بعد پیرو کے شہر کوزکو میں آنتاریز کی لاش برآمد ہوئی۔موت کے وقت آنتاریز کی عمر صرف 35 برس تھی۔ حقیقت پر مبنی اس کہانی پر نیٹ فلکس نے ایک ڈاکیومینٹری بنائی ہے جو اپریل 25 کو ریلیز کر دی گئی ہے۔یہ ڈاکیومینٹری فلم مشہور ہدایتکار سینٹیاگو کوریا اور چلّی کے پروڈکشن ہاؤس فیبیولا نے بنائی ہے۔ اس ڈاکیومینٹری میں پہلی مرتبہ آنتاریز کے حوالے سے دستاویز اورانٹرویوز کی شکل میں ایسی معلومات پیش کی جا رہی ہیں جو اس سے قبل پہلے کبھی منظرِ عام پر نہ آئیں۔اب آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آنتاریز کون تھا، اس کا فرقہ کیسے کام کرتا تھا اور ایک نوزائیدہ بچے کو زندہ جلانا کے پیچھے کیا اصل کہانی کیا تھی۔
ابتدائی پیروکار
آنتاریز چلّی کے دارالحکومت سینٹیاگو کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ سکول چھوڑنے کے بعد اس نے موسیقی سیکھی اور ضرورت مند بچوں کے ایک سکول میں موسیقی کی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔اس زمانے میں آنتاریز ناصرف فُٹ بال کھیلتا تھا بلکہ اس کے کافی دوست بھی تھے۔کچھ وقت کے بعد آنتاریز نے ’امارو‘ نامی ایک میوزک گروپ جوائن کر لیا جہاں وہ بین، بانسری اور موسیقی کے دیگر آلات بجاتا تھا۔آنتاریز کی زندگی اور اس کے گروہ پر کتاب لکھنے والی صحافی ویرونیکا فاکسلی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ آنتاریز اپنے میوزک گروپ کے ساتھ چین گیا تھا اور وہیں اس کی شخصیت میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔،تصویر کا ذریعہVERONICA FOXLEY
عقیدے کا پرچار
ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’جب آنتاریز کے پیروکاروں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ نجات دہندہ ہیں تو پھر مستقل بنیادوں پر عقیدے کا پرچار شروع ہو گیا اور آنتاریز بھی مزید سخت گیر ہوگیا۔‘’آنتاریز نے نئے قواعد و ضوابط بنا دیے جن کے تحت پیروکاروں پر لازم تھا کہ وہ اس کا خیال رکھیں۔‘ویرونیکا کے مطابق آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ’کس وقت سیکس کر سکتے ہیں اور کس وقت نہیں، وہ کیا کھا سکتے ہیں اور انھیں دن میں کتنا سونا ہے۔‘ان تمام پیروکاروں کو بتایا گیا تھا کہ وہ دنیا کو تبدیل نہیں کریں گے بلکہ وہ اس دُنیا کو بچانے والوں میں شامل ہوں گے۔انھیں بتایا گیا تھا کہ یہ سب 21 دسمبر 2012 کو ہوگا جب ایک پیش گوئی کے مطابق ’قیامت آ رہی ہوگی۔‘،تصویر کا ذریعہNetflix
- اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟31 مار چ 2024
- یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟8 اپريل 2024
جُرم
سنہ 2012 میں آنتاریز کی مخلص ترین خاتون پیروکار نتالیا گویرا حاملہ ہو گئیں۔ ویرونیکا کی تحقیق کے مطابق حمل کے دوران اس عورت کو ایک دور دراز علاقے میں ایک چھوٹے سے کیبن میں تنہا رکھا گیا کیونکہ آنتاریز کو لگا کہ اس کی کوکھ میں ’دجال‘ پل رہا ہے جس سے پورے فرقے کو خطرہ ہو سکتا ہے۔یہ بچہ نومبر 2012 میں ایک ہسپتال میں پیدا ہوا، جس کا نام ’جیسس‘ رکھا گیا۔ آنتاریز نے دعویٰ کیا کہ یہ بچہ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوا ہے اور یہ نشانی ہے کہ وہ ایک ’سیاہ شخصیت‘ ہے۔اس لیے بچے کی پیدائش کے دو دنوں بعد آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ پہاڑی پر ایک گڑھا بنائیں اور پھر یہیں اس بچے کو زندہ جلا دیا گیا۔ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’اس وقت فرقے سے منسلک تمام لوگ وہاں موجود نہیں تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں سُنا کے بچہ رو رہا تھا اور کچھ نے کہا کہ وہ چیخ رہا تھا۔ لیکن بہت سارے دیکھ ہی نہیں پائے کہ وہاں ہو کیا رہا تھا۔‘وہ لکھتی ہیں کہ توقع کے برعکس بچے کو زندہ جلانے کے واقعے سے یہ فرقہ کمزور نہیں ہوا بلکہ مزید مضبوط ہوگیا۔’انھیں لگا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، آنتاریز کے اطراف میں موجود لوگوں نے اس بچے کی موت کو دجال کے خلاف ایک بھینٹ کے طور پر دیکھا۔‘،تصویر کا ذریعہNetflix
اس قرقے کے خلاف تحقیقات
اس گروہ میں جلد ہی دراڑیں پڑنے لگیں اور اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب 21 دسمبر 2012 کو دُنیا کی تباہی کی پیش گوئی غلط ثابت ہو گئی۔ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’21 دسمبر کو وہ سب نروس تھے اور توقع کر رہے تھے کہ وہ ہوگا جو انھوں نے اپنے رہنما سے سُن رکھا ہے۔‘’جب وقت گزر گیا اور کچھ نہ ہوا تو آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا اور انھیں اب مزید تیاری کرنی پڑے گی کیونکہ اب اگلے برس مارچ میں ایکواڈور میں قیامت آئے گی۔‘اس وقت آنتاریز کے پیروکار پابلو اُندراگا نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ پابلو ہی گروہ کی مالی ضروریات پوری کرتا تھا۔ویرونیکا کے مطابق ’جب پابلو انھیں چھوڑ کر چلا گیا تو وہاں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں اور سب کے ذہنوں میں شکوک و شبہات بھی پیدا ہونے لگے اور انھیں بچے کو جلانے والا واقعہ بھی یاد آنے لگا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب فراد ہونے لگے۔‘اس فرقے اور اس کے رہنما کے خلاف چلّی کی پولیس کے تحقیقاتی یونٹ نے 2013 کے اوائل میں تحقیقات شروع کیں۔ انھیں بچے کو جلائے جانے کے واقعے کی اطلاع کسی گُمنام مخبر نے دی تھی۔اس برس اپریل میں چلّی کے میڈیا کو اس واقعے کی بھنک پڑ گئی اور پھر آنتاریز کے گروہ کے لوگوں نے بھی خود کو پولیس کے حوالے کرنا شروع کردیا۔جب تک تحقیقات جاری رہیں ان تمام افراد کو پولیس کی حراست میں ہی رکھا گیا۔عدالتی کارروائی میں صرف پابلو اور آنتاریز کے ساتھ جسمانی رشتے میں منسلک خاتون نتالیا گویرا کو ہی پانچ، پانچ برس قید کی سزائیں سنائی گئیں۔،تصویر کا ذریعہINVESTIGATIVE POLICE (PDI)
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.