’آل آئز آن رفح‘: انڈیا میں ’بائیکاٹ بالی وڈ‘ کے ٹرینڈ کا باعث بننے والی اے آئی سے بنی تصویر اتنی وائرل کیوں ہوئی؟
- مصنف, سارہ عتیق
- عہدہ, بی بی سی اردو
- 37 منٹ قبل
صاف نیلے آسمان پر سفید بادل اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کے بیچ میدان میں لگے سفید خیمے جن پر بڑے حروف میں لکھا ہے ’آل آئز آن رفح‘ یعنی تمام نظریں رفح پر۔یہ تحریر پڑھنے سے پہلے ہی یقیناً آپ میں سے اکثر افراد کی نظر سے یہ تصویر گزری ہو گی کیونکہ یہ تصویر اب تک صرف انسٹاگرام پر چار کروڑ 50 لاکھ (45 ملین) سے زیادہ مرتبہ شیئر کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹک ٹاک، فیس بک اور ایکس پر بھی یہ تصویر وائرل ہے۔یہ رفح کی کوئی اصل تصویر نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ایک ایسی تصویر ہے جو اس وقت انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکی ہے اور مقبول شخصیات سے لے کر عام صارفین تک سب ہی اسے شیئر کر کے رفح کے باسیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔گذشتہ اتوار کو رفح میں موجود ایک پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں 45 فلسطینی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے ہی اس جگہ کو محفوظ انسانی علاقہ قرار دیا تھا اور عام شہریوں کو یہاں منتقل ہونے کو کہا تھا۔ بعدازاں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے پناہ گزین کیمپ پر حملے کو ’افسوسناک کوتاہی‘ قرار دیا تھا۔زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور اس حملے کے بعد انٹرنیٹ پر متعدد دلخراش تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئی تھیں اور اس واقعے کی پرزور مذمت کی جاتی رہی۔تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم نے رفح میں اسرائیلی کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ رفح پر اسرائیلی حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر یہ تصویر وائرل ہونا شروع ہوئی اور لوگوں نے اسے جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ شیئر کرنا شروع کیا۔اس تصویر میں استعمال ہونے والے الفاظ ’تمام نظریں رفح پر‘ پہلی مرتبہ رواں سال فروری میں غزہ اور غربِ اردن کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے رِک پِیپرکورن کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران استعمال کیے گئے تھے جب اسرائیل نے جنوبی غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ انھوں نے اس دوران بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اب تمام نظریں رفح پر ہیں۔‘اس کے بعد ان الفاظ کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیموں اور کارکنان کی جانب سے اپنی سوشل میڈیا کیمپینز میں ہیش ٹیگ کی صورت میں استعمال کیا گیا تھا۔ان تنظیموں میں سِیو دی چلڈرن، آکسفیم اور جیوز وائس فار پیس شامل ہیں۔ تاہم یہ تصویر ان ہیش ٹیگز کے مقابلے میں کہیں زیادہ شئیر کی گئی ہے۔اس تصویر کے جواب میں اسرائیل کے حامی گروپس اور افراد کی جانب سے ایک اور اے آئی تصاویر شئیر کی جا رہی ہے جس میں حماس کے ایک جنگجو کو ایک بچے پر بندوق تانے دیکھا جا سکتا ہے اور اس پر لکھا ہے کہ ’آپ کی آنکھیں سات اکتوبر کو کہاں تھیں؟‘ادھر انڈیا میں بھی اس تصویر کی وجہ سے ’بائیکاٹ بالی وڈ‘ کا ٹرینڈ چل رہا اور مختلف مقبول سیلیبریٹیز کو یہ تصویر شیئر کرنے کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی اہلیہ رکیتا سجدے نے بھی یہ تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ کی جس کے بعد انھیں ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تو انھوں نے اسے ڈیلیٹ کردیا۔آئیے جانتے ہیں کہ یہ تصویر اس قدر وائرل کیوں ہوئی، ٹیکنالوجی اور اے آئی کی دنیا میں اس کے بارے میں کیا بحث ہو رہی ہے اور بالی وڈ اداکاروں کو اس تصویر کے باعث انڈیا میں تنقید کا سامنا کیوں ہے؟،تصویر کا ذریعہInstagram/IqraAziz
یہ تصویر اس قدر وائرل کیوں ہوئی؟
انسٹاگرام پر یہ تصویر پہلی مرتبہ ملائیشیا کے ایک نوجوان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی تھی اور اس میں ’شیئر یورس‘ یعنی آپ بھی شیئر کریں کے فیچر کا استعمال کیا تھا۔ انسٹاگرام کا یہ فیچر آپ کو کسی دوسرے شخص کی انسٹا سٹوری شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اس تصویر کو شیئر کرنے والوں میں پاپ گلوکار رکی مارٹن، ترک اداکارہ ٹوبا بیوک استن، انڈین اداکارہ پریانکا چوپڑا اور شامی اداکارہ کنڈا الوش سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔ای مارکیٹنگ اور مصنوعی ذہانت کے ماہر مہر النمری نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یہ تصویر مکمل طور پر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہے کیونکہ یہ رفح شہر کی حقیقی تصویر نہیں بلکہ یہ ایک وسیع صحرا کو ظاہر کرتی ہے جس پر بڑی تعداد میں خیمے ہیں۔نمری کا خیال ہے کہ تصویر کو شائع کرنے کے لیے استعمال ہونے والے انسٹاگرام کے فیچر نے مہم کو بین الاقوامی شہرت دینے میں بہت مدد کی کیونکہ اس تصویر کو شائع کرنے کے لیے صرف دو کلکس کی ضرورت تھی جس سے لاکھوں لوگوں کے لیے مہم میں شامل ہونا آسان ہو گیا تھا۔نمری بتاتے ہیں کہ ’رفح میں پیش آنے والے واقعے اور اس کے بعد ہونے والی بحث نے یکجہتی مہم کو وسیع پیمانے پر پھیلانے میں مدد کی۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس تصویر میں خون نظر نہیں آتا، حقیقی لوگوں کے شاٹس، نام، یا حساس مناظر بھی شامل نہیں ہیں۔‘ نمری کا خیال ہے کہ کیونکہ یہ تصویر انسٹاگرام کے استعمال کے اصولوں سے متصادم نہیں تھی اس لیے یہ وائرل ہو سکی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اے آئی سے بنی تصویر کے استعمال پر بحث
آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنی اس تصویر کے وائرل ہونے کے ساتھ ہی کسی مقصد یا مسئلے پر آواز اٹھانے اور توجہ دلانے کے لیے اے آئی سے بنی تصویر کا استعمال اخلاقی طور پر درست ہے یا نہیں، اس پر بھی ایک بحث چھڑ گئی ہے۔جنگ یا نسل کشی جیسے جرائم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اے آئی سے بنی تصاویر کے استعمال کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ ایسے سنگین مسائل کے لیے اے آئی تصاویر کا استعمال درست نہیں کیونکہ جنگ زدہ علاقوں سے آنے والی بہت سی تصاویر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لیے کافی ہیں اور ایسے میں بے ضرر اے آئی سے بنی تصاویر کا استعمال نہ صرف اصلی واقعات سے توجہ ہٹا دیتا ہے بلکہ جن متاثرین کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے یہ ان کی حقیقی عکاسی نہیں کرتیں۔ازابیل نامی Dumbbirchtree@ ایک ٹک ٹاکر کی جانب سے ایک ویڈیو شئیر کی گئی جس میں اے آئی تصویر ’تمام نظرین رفح پر‘ شئیر کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ٹک ٹاک اور ایکس پر اس ویڈیو کو اب تک تین ملین سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔اس ویڈیو میں ازابیل کا کہنا ہے تھا کہ ’اگر غزہ جیسے تنازعے کے لیے آواز اٹھانے کے لیے آپ اصل تصاویر اس لیے استعمال نہیں کر رہے کیونکہ یہ دیکھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں تو اے آئی تصویر شئیر کرنے سے بہتر ہے کہ لوگ اس جنگ یا واقعے سے جڑے کچھ حقائق جیسا کہ ہلاکتیں یا ان لوگوں پر گزرے حالات شئیر کر لیں جو کہ اس مسئلے کا مکمل سیاق و سباق بھی پیش کرے کیونکہ ایک اے آئی تصویر یہ تفصیلات اور سیاق و سباق نہیں دیتی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب غزہ اور رفح کی ایسی متعدد تصاویر موجود ہیں جو متاثرین پر ہونے والے ظلم کا ثبوت ہیں۔ ایسے میں اے آئی تصویر کا استعمال کرنا آپ کی سُستی ہے اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ اصلی تصاویر دیکھنا نہیں چاہتے اور اس مسئلے کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ صرف ایک کلک کی مدد سے اس کو شئیر کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔‘جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اے آئی تصاویر کے استعمال کے حامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ تصویر اے آئی سے بنی ہے یا نہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ تصویر کتنے لوگوں کی توجہ اس مسئلے پر دلوانے میں کامیاب ہوئی ہے۔‘کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جنگ جیسی صورت حال میں میڈیا کی محدود رسائی یا سینسرشپ کی وجہ سے وہاں ہونے والے واقعات کی بروقت تصاویر سامنے نہیں آ پاتیں ایسے میں اے آئی سے بنی تصاویر وہاں کے حالات کی ترجمان ہوتی ہیں۔ان میں سے کون سا موقف درست ہے اور کون سا غلط اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دنیا بھر میں اے آئی کے استعمال اور اس کی اخلاقیات سے جڑے بہت سے معاملات پر بحث اب بھی جاری ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک ان قواعد و ضوابط کا تعین نہیں ہو جاتا جو کہ اس کے استعمال کو انسانیت کے لیے مکمل طور پر محفوظ اور فائدہ مند نہ بنائیں۔
انڈین بالی وڈ سٹار تنقید کی زد میں کیوں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبالی وڈ کی کئی مشہور شخصیات کے سوشل میڈیا پر ’آل آئز آن رفح‘ کا پوسٹر شیئر کرنے کے بعد، ‘بائیکاٹ بالی وڈ’ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔اداکارہ عالیہ بھٹ نے انسٹاگرام پر شیئر کی گئی تصویر کے ساتھ ہیش ٹیگ ’آل آئز آن رفح‘ لکھا۔ ان کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر میں لکھا ہے کہ ’تمام بچے پیار، امن اور سلامتی کے مستحق ہیں اور تمام ماؤں کو اپنے بچوں کو یہ سب فراہم کرنے کا حق ہے۔‘اداکارہ کرینہ کپور نے اس حوالے سے یونیسیف کی ایک پوسٹ شیئر کی جس میں لکھا ہے کہ ’رفح میں بے گھر افراد کے خیموں پر بمباری، جلے ہوئے بچوں اور خاندانوں کی تصاویر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔‘ اس پوسٹ میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ کرینہ کپور یونیسیف کی برانڈ ایمبیسیڈر بھی ہیں۔ریچا چڈھا لکھتی ہیں کہ ’اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اگر دنیا صرف خاموش تماشائی بنی رہی تو وہ اس میں شریک ہے۔‘ان کے علاوہ پرینکا چوپڑا، سونم کپور، ملائیکا اروڑہ، ترپتی ڈمری، سوناکشی سنہا، ورن دھون، بھومی پیڈنیکر، رشمیکا مندنا، سوارا بھاسکر سمیت کئی مشہور شخصیات نے ’آل آئز آن رفح‘ کا پوسٹر شیئر کیا ہے۔اس حوالے سے ایکس پر ’بائیکاٹ بالی وڈ‘ کا ٹرینڈ چلنے لگا جس میں انڈین اداکاروں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ہندوؤں پر ہونے والے مظالم پر بات کیوں نہیں کرتے۔انڈیا میں اسرائیلی سفارت خانے کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے اور سفارت خانے نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’اس مہم کو چلانے والوں کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی نظر نہیں آتے۔‘اس پوسٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کی آنکھیں ان 125 اسرائیلی مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نہیں دیکھ پا رہیں جنھیں حماس نے قید کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے تنازع شروع ہوا۔ تبصرہ کرنے سے پہلے یہ مکمل کہانی جاننا ضروری ہے۔‘’ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ ہر یرغمالی گھر واپس نہیں آ جاتا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.