آف شور کمپنیاں، نام نہاد مالکان اور جھوٹے بیانات: روسی امرا عالمی پابندیوں سے کیسے بچ رہے ہیں؟

روس

  • مصنف, جیمز اولیور، ول ڈاہل گرین، جیمز میلی اور اینڈی وریٹی
  • عہدہ, بی بی سی پینوراما، نیوز نائٹ اور بی بی سی نیوز

بی بی سی کی تحقیق سے علم ہوا ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد عالمی پابندیوں سے بچنے کے لیے ایک آف شور کمپنی نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے قریبی رفقا کو اثاثوں کے اصل مالک کی شناخت چھپانے کے لیے مختلف کمپنیاں قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔

ایک ایسی ہی کمپنی کی مدد سے یوگینی پریگوژن، مسلح گروہ ویگنر کے سابق سربراہ، کی پرتعیش کشتی کی ملکیت کو بھی چھپایا گیا۔

یہ آف شور کمپنی سیچیلیز میں موجود ’ایلفا کنسلٹنگ‘ ہے جس نے 900 سے زیادہ شراکت داریوں کی مدد سے برطانوی قوانین کی ایک کمزوری کو استعمال کیا۔

تاہم ایلفا کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ قوانین کا احترام کیا ہے۔

بی بی سی کی تحقیق، جس میں فنانس ان کوورڈ اور سچیلیز براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے مدد کی، کے دوران ایلفا کمپنی کی دستاویزات سمیت ہزاروں کمپنیوں کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا اور ایسے افراد کی شناخت کی گئی جنھوں نے خفیہ طریقے سے فائدہ اٹھایا۔

ایلفا کنسلٹنگ راز چھپانے والی کسی فیکٹری کی طرح کام کرتی دکھائی دی جو برطانوی قانون میں موجود ایک کمزوری کے ذریعے روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا کی مدد کرتی رہی۔ ایلفا کنسلٹنگ کی قائم کردہ ایک کمپنی پر بیرون ملک الیکشن میں مداخلت کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے۔

یوگینی پریگوژن، مسلح گروہ ویگنر کے سابق سربراہ، بھی اس آف شور کمپنی کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کی بیراٹیکس گروپ لمیٹڈ کمپنی پر امریکہ نے 2019 مِں پابندی لگا دی تھی جو ایک فرنٹ کمپنی کے طور پر کام کرتے ہوئے ان کی پرتعیش کشتی اور نجی طیارے کی اصل ملکیت کو چھپانے کے لیے استعمال ہوئی۔

بین الاقوامی کنسورشیئم آف انوسٹیگیٹیو جرنلسٹس نے 2021 میں لیک ہونے والی دستاویزات کی مدد سے معلوم کیا تھا کہ بیراٹیکس سچیلیز میں قائم ہوئی اور یوگینی پریگوژن کی ساس کو اس کا مالک دکھایا گیا۔

ایلفا کا کہنا ہے کہ ان کا بیراٹیکس کا ساتھ کسی قسم کا کاروباری لین دین نہیں رہا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہUS TREASURY

،تصویر کا کیپشن

ایک پرائیویٹ جیٹ اور یوگینی پریگوزین کی یاٹ کو فرنٹ کمپنی الفا کے ذریعے چھپایا گیا

پوتن کے ایک اور قریبی دوست لیونڈ ریمین بھی ایلفا کے صارف رہے ہیں۔ سنہ 2006 میں جب وہ روس کے وزیر مواصلات تھے تو ایک سوئس عدالت نے انھیں ایک ایسی کمپنی کا خفیہ مالک پایا تھا جسے کرپشن کے ذریعے پیسہ وصول ہوا تھا۔

روسی صدر سے تعلق کے باوجود ایلفا نے لیونڈ ریمین کی ایک کمپنی کے لیے ڈائریکٹر فراہم کیا جو ان کی سیاسی وابستگی بتانا ’بھول‘ گیا تاکہ ان کی پوزیشن اور تعلق کی بنا پر زیادہ پوچھ گچھ یا جانچ پڑتال نہ ہو۔

اینٹی منی لانڈرنگ ماہر جیف بیرو کا کہنا ہے کہ ’یہ بھول غلطی سے نہیں ہوئی۔ اس قسم کا اعلان کرنے میں ناکامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘

ایلفا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے لیونڈ ریمین کی مکمل جانچ پڑتال کی تھی اور انھیں ایسی کوئی معلومات نہیں ملیں جن سے ثابت ہوتا کہ وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ غلط کاموں میں ملوث افراد کو وہ خدمات فراہم نہیں کرتے۔

تفتیش کے دوران یہ بھی علم ہوا کہ ایلفا کو ایک روسی خاتون وکٹوریا ولکوسکایا چلاتی ہیں اور اس کمپنی نے لمیٹڈ پارٹنر شپ قائم کرنے میں مدد دی۔ ان میں سے ہر پانچ میں سے ایک پارٹنر شپ برطانیہ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ میں رجسٹر ہوئی۔

روس

،تصویر کا ذریعہVICTORIA VALKOVSKAYA

،تصویر کا کیپشن

الفا کو روسی کاروباری خاتون وکٹوریہ ولکوسکایا چلاتی ہیں

لمیٹڈ پارٹنر شپ ایک ایسی فرم ہوتی ہے جسے دو یا دو سے زیادہ لوگ اکھٹے مل کر کاروباری مقاصد کے لیے قائم کرتے ہیں تاہم اس کی مدد سے شفافیت سے جڑے قوانین کو دھوکہ بھی دیا جا سکتا ہے۔

سنہ 2016 میں برطانیہ میں ایک قانون منظور ہوا تھا جس کے تحت کمپنیوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اصل مالک کی شناخت ظاہر کریں۔ اس کے بعد لمیٹڈ پارٹنر شپ کی رجسٹریشن میں اچانک اضافہ ہوا جن کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل تھا۔ ایک سال بعد اس قانون کا اطلاق سکاٹش لمیٹڈ پارٹنر شپ پر بھی کر دیا گیا جب یہ علم ہوا کہ انھیں منی لانڈرنگ سمیت جرائم کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

رواں سال بی بی سی اور فائنانس ان کوورڈ نے جانا کہ برطانوی لمیٹڈ پارٹنر شپ بھی فراڈ، دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے اب تک ان پر قانون کا اطلاق نہیں کیا۔

کیون ہولنریک جونیئر بزنس منسٹر ہیں۔ انھوں نے اس قانون میں موجود سقم سے جڑے خدشات کو رد کرتے ہوئے ہاوس آف کامنز میں کہا ہے کہ ’لمیٹڈ پارٹنر شپ اپنے نام پر اثاثے نہیں رکھ سکتی۔‘

لیکن ہماری تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ ایلفا آف شور کمپنی نے کئی لمیٹڈ پارٹنر شپ قائم کیں جن کے ذریعے اثاثے خریدے بھی گئے اور ان کے اصل مالکان کی شناخت بھی چھپائی گئی۔ ان میں ڈیلفی نامی آئل ٹینکر بھی شامل ہے جو 2019 میں ڈوب گیا تھا۔

حکام نے اس ٹینکر کی دستاویزات سے جانا کہ اس کی ملکیت مسٹر ڈریک پی سی نامی لمیٹڈ پارٹنر شپ کے نام تھی جو کارڈف میں رجسٹر ہوئی تھی۔ تاہم اس میں سچیلیز کا ایک رہائشی بھی شراکت دار تھا جس کا نام لوتھر ڈینس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی نام 184 برطانوی لمیٹڈ پارٹنر شپ میں بطور جنرل پارٹنر درج ہے۔ شاید یہ شخص بہت کامیاب کاروباری ہے۔

روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایلفا نے ایک محدود پارٹنرشپ بنانے میں مدد کی جو ڈیلفی آئل ٹینکر کی مالک تھی، جس کے تباہ ہونے کے بعد مہینوں تک تیل نکلتا رہا۔

لیکن دستاویزات بتاتی ہیں کہ لوتھر ڈینس نے پارٹنر شپ میں اپنے تمام اختیارات ایک ’خفیہ مالک‘ کو سونپ رکھے ہیں۔ دراصل لوتھر ڈینس نام نہاد پارٹنر ہیں جن کا نام ایلفا نے پیسوں کے عوض فراہم کیا۔

جب آئل ٹینکر ڈوبا تو ایک عدالت نے لوتھر پر جرمانہ عائد کیا لیکن اب تک نہ تو یہ علم ہو سکا ہے کہ لوتھر اصل میں کون ہیں اور نہ ہی یہ جرمانہ ادا کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہماری تفتیش کے دوران ایلفا کی ہی دستاویزات سے علم ہوا کہ مسٹر ڈریک پی سی کی ملکیت ایلا کووٹونوا کے نام سے درج ہے جو یوکرین میں روسی حمایت یافتہ جماعت کے سابق سیاست دان کی والدہ ہیں۔ اس جماعت پر اب پابندی لگ چکی ہے۔

ایلفا نے بی بی سی کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ان کو اس کمپنی کی کارروائیوں کے بارے میں علم نہیں تھا۔

بیرونیس کریمر ہاؤس آف لارڈز میں لبرل ڈیموکریٹ ترجمان ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’حیرانی کی بات ہے کہ حکومت نے ہر سقم کو ختم نہیں کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو علم ہے اور اس کو سقم بھی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں سے ایک آئل ٹینکر تک گزر سکتا ہے۔‘

ہماری تفتیش میں ایلفا سے منسلک آٹھ اور پارٹنر شپ کا پتہ چلا جو کسی نہ کسی وقت میں جہازوں کی مالک کمپنیوں کے طور پر رجسٹر تھیں۔ ستمبر 2010 میں لوتھر ڈینس کا نام ایک اور پارٹنر شپ، سلکون پی سی، کے کاغذات پر درج ہوا جو اوسٹرا نامی آئل ٹینکر چلاتی تھی۔

لوتھر

،تصویر کا ذریعہLUTHER DENIS

،تصویر کا کیپشن

لوتھر ڈینس

لیکن اس سے قبل ایک اور نام سے اوسٹرا نے شام کیخلاف پابندیوں کی خلاف ورزی کی تھی جس کے نتیجے میں رس ٹینکر نامی روسی کمپنی پر پابندی لگائی گئی کیوں کہ اس نے امریکی پابندیوں سے بچتے ہوئے وینیزویلا کے تیل کی خرید و فروخت کرنے کی کوشش کی۔

ہم نے لوتھر ڈینس کی ملکیت میں آنے کے بعد اوسٹرا ٹینکر کا ڈیٹا دیکھا تو علم ہوا کہ گذشتہ سال تین ہفتے کے لیے اس ٹینکر کا ٹریکر بند کر دیا گیا تھا اور یوں وینیزویلا کے ساحل کے قریب یہ غائب ہونے میں ایک بار پھر کامیاب ہوا۔

معاشی تجزیہ کار بوک مین کا کہنا ہے کہ ’بحری جہاز اپنا ٹریکر تب بند کرتے ہیں جب وہ سامان لادنے یا اتارنے کے مقام کو چھپانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا معائنہ کرنے والے حکام سے بچا جا سکے یا ان کو دھوکہ دیا جا سکے۔‘

بی بی سی نے سلکون اور رس ٹینکر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ہم نے لوتھر ڈینس سے بھی رابطہ کیا تاہم انھوں نے ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔

اوسٹرا آئل ٹینکر

،تصویر کا ذریعہCENGIZ TOKGOZ

،تصویر کا کیپشن

اوسٹرا آئل ٹینکر، جس کی تصویر یہاں اس کے سابق نام نوسٹراس کے تحت دی گئی ہے، نے وینزویلا کے قریب ٹریکنگ بند کر دی

ایلفا نے جن دیگر پارٹنر شپ کو قائم کرنے میں مدد دی ان میں گرین لائن نامی فرم پر غیر قانونی دوایاں بیچنے کا الزام ہے۔

اس کے علاوہ این آئی سی انٹرنیشنل سروسز ایل پی کمپنی پر الزام ہے کہ وہ ایسی ویب سائٹ چلاتی ہے جو طلبا کو پیسوں کے عوض مضامین لکھنے کی سہولت فراہم کرتی ہے جو برطانیہ میں جرم ہے۔

ہسٹول کارپوریٹ ایل پی نامی فرم پر روس میں فراڈ کا الزام ہے جس میں دو روسی حکام نے دفاعی انڈسٹری کے لیے کیمیلز کا آرڈر زیادہ پیسوں کے عوض ہسٹول کی ملکیت والی ایک کمپنی کو دیا جسے وہ خود ہی چلاتے تھے۔

بی بی سی نے ان پارٹنر شپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔ ایلفا نے کہا کہ ان کو ان کی سرگرمیوں کا عمل نہیں ہے۔

مالیاتی جرائم کے ماہر گراہم بیرو کا کہنا ہے کہ ’یہ طریقہ کار پورے عمل پر سوال اٹھا دیتا ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ برطانیہ میں کھلے عام ایسا ہو رہا ہے کیوں کہ آپ کاغذ پر کسی کا بھی نام لکھ کر قانون سے بچ سکتے ہیں۔‘

ایلفا
،تصویر کا کیپشن

ایلفا نے اس کارڈف ایڈریس پر رجسٹرڈ 280 سے زیادہ شراکتیں قائم کیں

قانون کو چکمہ دینے کے علاوہ ایلفا نے سکاٹش قانون کی بھی خلاف ورزی کی جس کے تحت کمپنیوں کے اصل مالکان کی شناخت کرنا ضروری ہے۔

سنہ 2017 میں بنیاٹا ایل پی نامی کمپنی نے ایک امریکی لابسٹ کو البانیا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ للزم باشا کی جانب سے ادائیگی کی جس کے عوض البانوی سیاست دان کو امریکی ری پبلکن سیاست دانوں تک رسائی فراہم کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اسی تقریب میں للزم باشا نے امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک تصویر کھنچوائی اور پھر اسے انتخابات کی مہم میں استعمال کیا۔

گذشتہ سال کی رپورٹس کے مطابق امریکی خفیہ اداروں کا ماننا ہے کہ للزم باشا کی مہم، جس کا نعرہ تھا ’میک البانیہ گریٹ اگین‘، کو روس کی خفیہ حمایت اور پانچ لاکھ ڈالر کی امداد حاصل تھی۔

بنیاٹا کی ملکیت کو بھی آف شور رازداری اور نام نہاد ڈائریکٹرز کی مدد سے چھپایا گیا لیکن ایلفا کی لیک ہونے والی دستاویزات میں 2015 کا ایک معاہدہ موجود ہے جب پارٹنر شپ قائم ہوئی اور اس کے مالک کا نام ایک روسی شہری میکسم ٹریفمیٹس درج ہے۔

سنہ 2017 کے موسم گرما میں جب سکاٹش پارٹنر شپ قوانین میں تبدیلی ہوئی تو روسی شہری کو کمپنی میں اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے طور پر ظاہر نہیں کیا گیا اور ایلفا کے نامزد کردہ شخص نے جھوٹا بیان دیا کہ کمپنی نے تمام معلومات فراہم کر دی ہیں۔

اگلے ہی دن ایلفا کے اسی نامزد کردہ شخص نے خفیہ طریقے سے ایک پاور آف اٹارنی کے ذریعے بنیاٹا پر میکسم کو کنٹرول سونپنے کی تصدیق کی۔

للزم بشار اور ڈونلڈ ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہDEMOCRATIC PARTY OF ALBANIA

،تصویر کا کیپشن

للزم بشار اور ڈونلڈ ٹرمپ

سنہ 2018 میں جب اس کمپنی سے روسی تعلق کی میڈیا رپورٹ سامنے آئی تو ایلفا کی روسی مالک خاتون وکٹوریا نے ایک ای میل میں بتایا کہ اب بنیاٹا اپنی اصل ملکیت کیسے صیغہ راز رکھ سکتی ہے۔

’بنیاٹا کی ملکیت کو سچیلیز کی ایک فاؤنڈیشن میں پانچ نامزد کردہ کونسلرز کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے تاکہ ایک مالک ظاہر نہ کرنا پڑے۔‘

’اس سے یہ تاثر پیدا ہو گا کہ کسی ایک فرد کے پاس کمپنی کے 25 فیصد سے زیادہ اثاثے نہیں ہیں جو برطانیہ میں قانون کے تحت کسی ایک اثرورسوخ رکھنے والے کا نام ظاہر کرنے کی حد ہے۔‘

بنیاٹا نے اس تجویز پر عمل کیا تاہم ایلفا نے اس الزام کو رد کیا کہ انھوں نے بنیاٹا کی مدد کی۔

رواں سال ستمبر میں کونسل آف یورپ نے البانوی سیاست دان للزم باشا کو ایک رپورٹ بنانے کے لیے کہا جس کے تحت روسی حملے کے بعد یوکرین میں بحالی کا کام کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔

بی بی سی نے مسٹر ٹروفمیٹس اور مسٹر باشا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔

ایلفا کی مینیجنگ ڈائریکٹر وکٹرویا نے کہا ہے کہ وہ اس الزام کو یکسر رد کرتی ہیں کہ ان کی کمپنی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہے۔ ’ہم نے ہمشہ قانون کا احترام کیا ہے اور نمائندوں کا استعمال کرنا نیا یا غیر قانونی نہیں ہے۔‘

ایلفا کنسلٹنگ کا کہنا ہے کہ برطانوی پارٹر شپ میں اس کا کردار محدود ہے اور وہ صرف کمپنیوں کو برطانوی قوانین کے حساب سے بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

ایلفا کا کہنا ہے کہ ان کے منی لانڈرنگ کیخلاف قوائد و ضوابط موجود ہیں جو قوانین کے مطابق بنائے گئے ہیں۔

گذشتہ ماہ سچیلیز کو یورپی یونین نے ٹیکس چھوٹ فراہم کرنے والی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ