آسٹریلیا کے کینگرو انڈیا کیسے پہنچے؟
- اینڈریو کلیرنس
- بی بی سی نیوز، دلی
انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں جب چند راہ چلتے افراد کو جنگلات سے گھرے ایک گاؤں کے کنارے تین گھبرائے ہوئے، کمزور اور بھوکے جانور نظر آئے تو ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔
ان لوگوں نے اس سے پہلے اس طرح کے جانور نہیں دیکھے تھے۔ انھوں نے فورا ریاست کے محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو اطلاع کی جنھوں نے ان افراد کو بتایا کہ یہ جانور کینگرو ہیں جو آسٹریلیا میں تو عام پائے جاتے ہیں لیکن انڈیا میں نہیں۔
ان کمزور اور بھوکے جانوروں کو علاج اور دیکھ بھال کے لیے وائلڈ لائف پارک بھیج دیا گیا۔ ان میں سے ایک کی بعد میں موت ہو گئی۔
جو دو کینگرو بچ گئے ہیں ان میں سے ایک نام ایلکس اور دوسرے کا زیویئر ہے۔
گاؤں والے پھر بھی حیران تھے کہ انھوں نے کس طرح کا جانور دیکھا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی ان کینگروز کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر پھیل گئیں.
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا ’یہ کینگرو مغربی بنگال میں کیا کر رہے ہیں؟‘
مغربی بنگال کے چیف وائلڈ لائف وارڈن دیبل رے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری ٹیم کی جانب سے چھاپے مارے جانے کے دوران سمگلرز ان جانوروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔‘
دیبل کو اطلاع ملی تھی کہ غیر ملکی جانوروں کو مغربی بنگال سمگل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے اپنی ٹیم کو الرٹ کیا اور فوری کارروائی کرتے ہوئے اہلکاروں نے ریاست میں داخلے کی مرکزی شاہراہ سے آنے والی گاڑیوں کی تلاشی شروع کر دی۔
مسٹر دیبل رے کا کہنا ہے کہ ’شاید سمگلرز کو بھی یہ معلوم ہو گیا اور وہ ان جانوروں کو ہائی وے پر ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔‘
مغربی بنگال کے وائلڈ لائف کنٹرول بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر اگنی مترا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے خیال سے یہ کینگرو جنوب مشرقی ایشیاء میں جانوروں کی افزائش کرنے والے نجی فارمز سے یہاں لائے گئے تھے۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر سمگلرز اس طرح کے مختلف اور غیر مقامی جانوروں کو میانمار کی سرحد کے ذریعے انڈیا لاتے ہیں۔
انڈیا میں انسداد سمگلنگ کے ادارے دی ڈائریکٹوریٹ آف ریوینیو انٹیلیجنس (ڈی آر آئی) کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں انڈیا میں غیر مقامی اور مختلف نوعیت کے جانوروں کے مطالبے میں اضافہ ہوا ہے۔
بنکاک، ملائیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مشہور سیاحتی مقامات سے جانوروں کو انڈیا سمگلنگ کے ذریعے لایا جاتا ہے اور پھر مختلف شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
مغربی بنگال کے وائلڈ لائف کنٹرول بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر اگنی مترا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عام طور پر سمگلرز شمالی مشرقی راستے کے ذریعے ایسے جانوروں کو انڈیا میں لے کر آتے ہیں جن میں برازیل میں پایا جانے والے گولڈن ہیڈڈ لائن ٹامارن اور میڈاگاسکر میں پایا جانے والے لیمر جیسے معدوم ہوتے جانور بھی شامل ہیں۔‘
انڈیا میں محکمہ جنگلات کے اہلکار اکثر ان سمگلروں اور تاجروں کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کر پاتے کیوں کہ انڈیا میں جانوروں اور جنگلی حیاتیات سے متعلق قوانین غیر ملکی جانوروں کو تحفظ فراہم نہیں کرتے۔
کسٹم اہلکاروں کے پاس یہ اختیار ضرور ہے کہ وہ کسی کو بھی جنگلی جانوروں کا باقاعدہ پرمٹ نہ ہونے کی صورت میں ان کی نقل و حرکت کرنے والوں پر پابندی لگا دیں۔ لیکن ان اہلکاروں کے لیے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کا سراغ لگانا مشکل ہے، خصوصا ایسے علاقوں میں جہاں سرحد کو با آسانی پار کیا جا سکتا ہے۔
ڈی آر آئی کا کہنا ہے کہ مقامی نسل کے جانوروں کی تجارت پر پابندی کے باعث سمگلرز نے غیر ملکی انواع کا کام شروع کر دیا ہے جس کے ماحولیات پر بھی عالمی سطح پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق غیر مقامی پالتو جانور رکھنا سماجی حیثیت کی نشانی بن چکا ہے اور یہ رجہان حالیہ برسوں میں مقبول ہوا ہے۔
جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ اینیمل پروٹکیشن سے منسلک کارکن شوبھوبروتو گھوش کا کہنا ہے کہ ’کچھ ہی عرصہ قبل بنگلہ دیش میں چند زیبرے پکڑے گئے جن کو انڈیا کے ایک نجی چڑیا گھر منتقل کیا جانا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل لوگ عجیب و غریب حرکتیں کر رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے:
انڈیا میں مختلف الانواع جانوروں کو کافی عرصے سے ہی پسند کیا جاتا ہے۔
جون 2020 میں انڈیا کے محکمہ ماحولیات نے ایک ایسی سکیم متعارف کرائی تھی جس میں لوگوں کو رضا کارانہ طور پر غیر مقامی پالتو جانوروں کی معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس سکیم میں پیشکش کی گئی تھی کہ اگر کسی کے پاس باضابطہ دستاویزات کے بغیر کوئی غیر مقامی پالتو جانور موجود ہے تو رضا کارانہ طور پر معلومات فراہم کرنے پر قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
انڈیا کی حکومت چاہتی تھی کہ ملک میں موجود غیر مقامی پالتو جانوروں کا ایک ریکارڈ رکھا جائے اور ملک میں جنگلی جانوروں کی درآمد کے عمل کو منظم کیا جا سکے۔
انڈیا سپینڈ نامی ویب سائٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں اس سکیم کے تحت 32645 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں معدوم لیمر، ایگوانا، مکاؤ، اور کینگرو جیسے معدوم ہوتے ہوئے جانور بھی شامل تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر مقامی جانوروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود ایسا کوئی موثر قانون موجود نہیں جس سے ان کی تجارت کی نگرانی کی جاسکے۔
1976 میں انڈیا نے غیر مقامی جانوروں کی عالمی تجارت اور ان کے تحفظ سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں 183 دیگر ممالک بھی شامل تھے لیکن اس معاہدے کو انڈین قوانین کے تحت زیر عمل نہیں لایا گیا۔
انڈیا کے قانون ساز وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ میں مجوزہ ایک ایسی قانونی ترمیم کا جائزہ لے رہے ہیں جس سے غیر مقامی جانوروں کی تجارت اور تحفظ کو انڈین محکمہ جنگلات کے زیر انتظام کیا جا سکے گا۔ لیکن مسٹر گھوش کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ ترمیم کارآمد ثابت ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’فرض کر لیں کہ میں ایک فاریسٹ وارڈن ہوں اور آپ کا دوست ہوں۔ آپ کے پاس برازیل کے نایاب جانور ہیں جن کو آپ ذاتی چڑیا گھر میں رکھنا چاہتے ہیں تو آپ با آسانی رشوت کے ذریعے پرمٹ بنوا سکتے ہیں۔‘
انڈیا میں انسداد سمگلنگ سے متعلق ایجنسی کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں غیر مقامی جانوروں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے بہت سے چڑیا گھر ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ بن رہے ہیں جس میں تاجر اور جانوروں کی افزائش کرنے والے مل کر غیر مقامی جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔‘
اپریل میں ریاست مغربی بنگال کی آسام سے ملنے والی سرحد کے قریب ہائی وے پر ایک معمول کے پولیس چیک کے دوران دو افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کے ٹرک سے دو ریڈ کینگرو برآمد ہوئے۔
گرفتار ہونے والے افراد نے پولیس کو بتایا کہ یہ کینگرو میزورام ریاست کے ایک فارم پر ان کے حوالے کیے گئے جن کو مدھیہ پردیش ریاست کے ایک چڑیا گھر منتقل کرنا تھا۔
مغربی بنگال کے وائلڈ لائف کنٹرول بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر اگنی مترا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان گرفتار افراد نے پولیس کو چڑیا گھر کا سپلائی آرڈر بھی دکھایا جہاں سے اس کی تصدیق کی گئی۔
’اس چڑیا گھر نے ایک نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ان کو یہ کینگرو تحفے کے طور پر دیے جا رہے تھے۔‘
مسٹر گھوش کہتے ہیں کہ ’یہ واضح طور پر سمگلنگ کا معاملہ ہے کیوں کہ سپلائی آرڈر میزورام کے ایک ایسے فارم کے نام پر تھا جو ہے ہی نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کے تحفط کے عالمی معاہدے کے تحت انڈیا کو نایاب جانوروں کی فہرست حکومتی ویب سائٹ پر شائع کرنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے ریکارڈ میں میزورام کے کسی بھی فارم نے کینگروز کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔
اس دوران مغربی بنگال کے ایک گاؤں سے ملنے والے ایلکس اور زیویئر کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔
مغربی بنگال کے چیف وائلڈ لائف وارڈن دیبل رے کے مطابق سمگلنگ کے دوران تنگ جگہ کی وجہ سے ان کینگروز کے پٹھے کمزور ہوئے۔
لیکن اب یہ کینگروز آزاد فضا میں سانس نہیں لے سکیں گے۔ کم از کم اس وقت تک جب تک وہ انڈیا میں ہیں۔
دیبل رے کے مطابق ’ہم ان کو جنگلوں میں نہیں چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ یہاں کے جنگلات کے وہ عادی نہیں ہیں اور یہاں کی آب و ہوا بھی ان کے مطابق نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ بہتر محسوس کریں گے تو شاید ہم ان کو عام لوگوں کے لیے چڑیا گھر میں رکھا جائے۔‘
Comments are closed.