آسٹریلیا میں مردوں کا رویہ تبدیل کرنے کی تحریک
رائڈر جیک کا ہے کہ یہ صنفی معاملات پر بات کرنے کا وقت ہے
رائڈر جیک کا کہنا ہے آسٹریلیا کے مرد صرف ایک طرح کے جذبات رکھتے ہیں، یا تو وہ خوش ہوتے ہیں یا وہ ناراض ہوتے ہیں۔ صرف چند ہی وجوہات ایسی ہیں جن پر وہ گریہ کرتے ہیں۔
جیک کہتے ہیں کہ مردوں کو صرف کسی کے جنازے یا کوئی فائنل میچ ہارنے پر ہی آنسو بہانے کی اجازت ہوتی ہے۔
وہ آسٹریلیا میں مردوں کا ایک تربیتی پروگرام چلاتے ہیں جس میں آسٹریلیا میں مردوں کے روائتی رویوں پر بات کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ان کا ادارہ ‘ٹومورو مین’ یا مستقبل کا آدمی جس میں شرکاء کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، آسٹریلیا میں نوجوان لڑکوں اور مردوں کو ان کے جذبات اور ان کی فلاح کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کا کام کر رہا ہے۔
اس فلاحی کام کا اصل مقصد مردوں کی ذہنی کیفیت کو بہتر کرنا ہے۔ آسٹریلیا میں خاص طور پر نوجوان مردوں میں خود کشیوں کا رجحان تشویش کا سبب ہے اور مردوں میں خواتین کے مقابلے میں اپنی زندگی ختم کرنے کی شرح زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ اس طرح کے فلاحی کاموں سے ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات کی تشویش ناک تعداد میں بھی کمی کی جا سکتی ہے۔
خودکشیوں کی روک تھام کے ایک اور ادارے ‘اوور واچ’ کا کہنا ہے کہ اوسط ہرہفتے ایک عورت کو اس کا موجودہ یا سابق ‘پاٹنر’ (ساتھی) قتل کر دیتا ہے۔
زیادتیوں کی کہانی اکثر بڑی دل ہلا دینے والی ہوتی ہیں۔
ہنا کلارک اور ان کے تین بچوں کے قتل کی کہانی بڑی لرزہ خیز تھی جس نے پورے ملک کو ہلا کر دکھا دیا۔ ہنا کلارک کے سابق شوہر نے پورے کنبہ کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔
خود کشیوں کی شرح بڑی تشویشناک ہے اور گھریلو تشدد کے واقعات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ جیک کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا کہ اس کے سدباب کے لیے کہ کچھ کیا جانا چاہیے۔
پرانے خیالات
اس پس منظر میں ایک تحریک جس کا محور ‘صحت مندانہ مردانگی ہے’ اس نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ یہ تحریک سکولوں، کھیلوں کے کلبوں اور سماجی گروہوں میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔
جو اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں وہ ’مین بوکس‘ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں 18 سے 30 سال کی عمر کے مردوں پر ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مردوں پر سماجی دباؤ ہوتا ہے اور اپنی صنف کی وجہ سے وہ ایک مخصوص رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ مخصوص رویہ مضبوط اور تحکامانہ ہوتا ہے جو ایذا پسندی اور تشدد کی شکل بھی اختیار کر جاتا ہے۔ اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ مردو کو اپنی مردانگی کا بھی دباؤ ہوتا ہے اور اپنی ذہنی کیفیت کی بنا پر یا تو وہ خود کشی پر تیار ہو جاتے ہیں یا تشدد پر اتر آتے ہیں۔
میلبورن کے ایک کالج کے 13 سالہ طالب علم جون ویلز نے صحت مندانہ مرادنگی کا ایک تربیتی کورس کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مردانگی کا عام تصور جسمابی قوت، کھیلوں میں اچھی کارکردگی اور جذبات سے عاری ہونے کے طور پر کیا جاتا ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ مردوں کے بارے میں یہ روائتی تاثر اب ذائل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘مردوں کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ جسمانی طور پر بہت طاقت ور ہوں۔’
’ٹومورو مین‘ کا ادارہ بھی ان روائتی رویوں پر کام کر رہا ہے۔ اس کے تربیتی پروگراموں میں شرکاء کو ایک ‘رول بک’ یا قواعد نامہ ترتیب دینا ہوتا ہے کہ آسٹریلیوں ہونا آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ شرکا آپس میں گفتگو کے دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا کیا جانا چاہیے اور کیا نہیں کیا جانا چاہیے۔
آسٹریلیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے
جیک کہتے ہیں کہ اس سے ذہنوں پر پڑے پردے اٹھتے ہیں اور مرد جب اپنی زندگیوں کی کہانیاں اور احساسات ایک دوسرے کو بتاتے ہیں تو اس سے ان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ’یہ صنف کے لیے بہت اہم وقت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کو ایک کمرے میں جمع کریں اور دیکھیں کہ اس وقت وہ کہاں کھڑے ہیں۔’
اس پروگرام میں 60 ہزار سے زیادہ لوگ حصہ لے چکے ہیں۔ زیادہ تر اس میں کم عمر لوگ شامل رہے۔
سڈنی کے 18 سالہ رہائشی ہینری رینولڈ نے ایک فٹ بال کلب میں اس پروگرام میں شرکت کی۔ ان کا کہنا ہے سب کو اس سے بہت فائدہ ہوا۔
اس کے معنی یہ نہیں ہے ‘کہ آپ اپنے جذبات یا احساسات کو بوتل میں بند کر کے رکھیں۔ آپ اس پر اپنے ساتھیوں سے بات کر سکتے ہیں۔’
رینولڈ کا کہنا ہے کہ ان کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کا اپنے خاندان سے تعلقات کیسے ہیں اور ایک والد ہونے پر آپ کو کسی نوعیت کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کا سامنا کرنےکا طریقہ
اس پروگرام کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے سے پرتشدد واقعات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پال زپا جو ایک معلم ہیں اور اس شعبے میں 20 سال سے کام کر رہے ہیں۔ سابق استاد اب ایسے اداروں اور بچوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو مردوں میں مثبت رویے پیدا کر کے ان میں تشدد کے رجحان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو بنیادی تدارک بھی کہا جا رہا ہے۔
وہ بچوں میں یہ ذہنی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے غصے کو سمجھ سکیں اس سے پہلے کہ وہ پھٹ پڑیں اور تشدد پر اتر آئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا جتنی جلد کر لیا جائے اتنا اچھا ہے۔
اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ وہ غصے میں ہیں اور غصہ اتارنے کے لیے دیوار پر مکا ماریں۔
انہوں نے کہا کہ کم عمری ہی میں یہ سمجھ لینا کہ غصے پر کیسے قابو پانا ہے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیواروں پر مکے مار کر اپنا غصہ نکالنے کے بجائے وہ ان جذبات کو لگتے ہیں اور اس کو دوسرے طریقوں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسٹر زپا نے کہا ’جب آپ کو محسوس ہو کے آپ کو غصہ آ رہا ہے تو باہر چہل قدمی کے لیے نکل جائیں۔ جب انہیں لگتا ہے کہ وہ ایسا کرنا سیکھ سکتے ہیں تو ان کی ذہن روشن ہو جاتا ہے۔‘
کیا یہ طریقہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے؟
اس کے طرح کے پروگرام جذباتی کیفت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پرتشدد رویوں کو بدلنے میں کس حد تک موثر ثابت ہوتے ہیں۔
ضرورت تو بہت ہے۔ سابق یا موجودہ شوہروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی خواتین کی تشویشناک تعداد کے علاوہ آسٹریلیا میں ہر تین میں ایک خاتون کا یہ کہنا ہے کہ ان جسمانی تشدد ہوا ہے۔ ان میں اکثریت ایسے واقعات ہوتے جن میں عورتوں کو مردوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
’اوور واچ‘ تنظیم کا کہنا ہے کہ مردوں اور لڑکوں کے لیے پروگرام جن سے مردانگی کے رویوں پر بات کی جاتی ہے ان سے عورتوں کے خلاف تشدد کو کم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے جن سے ان پروگراموں کے موثر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکے خاص طور آسٹریلیا کے حلات میں۔ اس بارے میں مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مسٹر زپا کا کہنا ہے گو کہ اس کے شواہد موجود نہیں ہیں لیکن وہ پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات تبدیلی لا سکتے ہیں۔
انہوں نے مردوں کے رویوں کو تبدیل کرنے کے پروگراموں کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وہ مرد جو گھریلوں تشدد کے مرتکب ہو چکے ہوتے ہیں جب وہ یہ پروگرام چلاتے ہیں تو زیادہ کار گر ثابت ہوتے ہیں۔
مسٹر زپا مزید کہتے ہیں کہ جو بھی پیسہ لگایا جائے یا جو بھی کوشش کی جائے اس کو متاثرہ خواتین کو سامنے رکھ کر کیا جائے لیکن ساتھ ہی وہ یہ کہتے ہیں اس کے انسداد پر توجہ دی جانی چاہیے۔
’ٹومورو مین‘ تنظیم کی ورک شاپ کا تجزیہ اس سال موش یونیورسٹی کر گی۔ مسٹر جیک کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ ان کی پروگرام تبدیلی لا رہے ہیں۔
ان کا استدلال ہے کہ اپنے جذبات کو سمجھنے اور ان کے بارے میں بات کرنے سے تشدد میں کم آنے کی توقع کی جا سکتا ہے۔
جو مرد گھریلیو تشدد کا رجحان رکھتا ہے وہ کسی دوسری دنیا کا باشندہ نہیں ہوتا وہ آپ کا رشتہ دار اور ساتھی ہو سکتا یا کوئی ایسے شخص جسے آپ جانتے ہوں۔
Comments are closed.