آسٹریلیا میں ماں کے ’ناقابل برداشت دباؤ‘ پر کرائی گئی شادی اور بیٹی کے قتل کی کہانی،تصویر کا ذریعہSupplied

  • مصنف, ہینا رچی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سڈنی
  • 2 گھنٹے قبل

آسٹریلیا میں بیٹی کی جبری شادی کرانے کے الزام میں افغان نژاد شہری سکینہ محمد جان کو تین سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔سکینہ پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنی 21 سالہ بیٹی رقیہ حیدری کی زبردستی شادی کرائی۔ اس شادی کے بدلے میں انھیں ایک چھوٹی رقم کی ادائیگی بھی کی گئی تھی۔شادی سنہ 2019 میں 26 سالہ محمد علی حلیمی سے ہوئی۔ تاہم اس کے ڈیرھ ماہ بعد محمد علی حلیمی نے 21 سالہ رقیہ پر چاقو کے وار سے انھیں قتل کیا جس پر وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔یہ رقیہ کی دوسری شادی تھی۔

آسٹریلیوی حکومت کی جانب سے محمد علی حلیمی پر رقیہ کے قتل کے الزام کی تفتیش کے دوران رقیہ کی والدہ سکینہ پر بھی الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے رقیہ کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کی تھی۔سکینہ محمد جان آسٹریلیا کی پہلی شہری ہیں جنھیں ملک میں جبری شادی کے قوانین کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔تاہم سکینہ نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔فیصلے کے مطابق اگر سکینہ اپنے اوپر لگے تمام الزامات قبول کر لیتی ہیں تو ان کی سزا تین سال قید کی بجائے کم از کم ایک سال کر دی جائے گی جبکہ سزا کی بقیہ مدّت پوری کرنے کے لیے وہ کمیونیٹی سروس کریں گی۔

‘رقیہ پر شادی کا ناقابل برداشت دباؤ ڈالا گیا’

ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی افغان نژاد سکینہ محمد اپنے پانچ بچّوں سمیت سنہ 2013 میں طالبان سے بچنے کے لیے بطور پناہ گزین آسٹریلیا آئی تھیں۔عدالت میں بتایا گیا کہ سکینہ نے اپنی بیٹی رقیہ کی پہلی شادی 15 سال کی عمر میں کر دی تھی جبکہ اسے سرکاری طور پر رجسٹر نہیں کیا گیا تھا۔یہ رقیہ کی پہلی شادی تھی اور یہ بھی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ شادی کے دو سال بعد رقیہ کی طلاق ہو گئی تھی۔عدالت کو بتایا گیا کہ رقیہ کم از کم 27 سال کی عمر سے پہلے دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔سکینہ کو سزا سناتے ہوئے جج فرین ڈالزیئل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’رقیہ تعلیم حاصل کر کے نوکری کرنا چاہتی تھیں۔‘’ان پر ناقابل برداشت دباؤ ڈال کر ان کی شادی کرائی گئی۔‘ ،تصویر کا ذریعہAustralian Federal Policeجج فرین نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ سکینہ کو یقین تھا وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے لیے بہترین فیصلہ کر رہی ہیں تاہم انھوں نے اپنے ماں ہونے کے اختیارات کا ‘غلط استعمال’ کر کے مسلسل رقیہ کی خواہشوں کو نظر انداز کیا۔انھوں نے کہا کہ رقیہ کو ‘پتا ہو گا کہ اگر وہ یہ شادی نہیں کریں گی تو سوال اٹھائے جائیں گے۔‘ ‘انھیں نہ صرف اس بات کی پریشانی تھی کہ سکینہ ناراض ہوں گی بلکہ انھیں برادری میں بھی آپ کی عزّت کا خیال تھا۔‘آسٹریلیا کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ شادی ہزارہ کمیونٹی میں رشتے کروانے کے لیے مشہور شکریہ مقدس کے توسط سے ہوئی تھی۔جبکہ شکریہ نے عدالت کو اپنے بیان میں بتایا کہ رقیہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں تاہم سکینہ نے ان کا فیصلہ رد کر دیا تھا۔عدالت کو بتایا گیا کہ سکینہ نے رقیہ کا شادی سے انکار سن کر ان سے کہا تھا کہ ’آپ میری ماں ہو یا میں آپ کی؟‘ میں آپ کے لیے فیصلے لے سکتی ہوں۔‘مقامی میڈیا کے مطابق جج کا فیصلہ سننے کے بعد سکینہ محمد نے اپنے وکلا سے کہا کہ وہ اسے نہیں مانتیں اور کٹہرے میں بیٹھی رہیں۔ تاہم بعد ازاں انھیں پولیس کے ساتھ جانا پڑا۔سنہ 2013 میں آسٹریلیا میں جبری شادی کے قوانین متعارف کرائے گئے جن کے تحت الزام ثابت ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ملک میں فی الوقت جبری شادی کے قوانین کے تحت کئی مقدمے زیر التوا ہیں تاہم یہ پہلا مقدمہ ہے جس میں سزا سنائی گئی ہے۔سال 2022 سے 2023 کے دوران ملک میں ایسے 90 کیسز وفاقی پولیس کے سامنے آئے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}