مائیکرو نیشنز، لوگوں کے ذاتی ممالک: ملیے بادشاہ جارج دوئم سے جن کی آسٹریلیا میں 10مربع میٹر کی ’سلطنت‘ ہے
- جیسیکا مڈیٹ
- بی بی سی فیوچر
سلطنت اٹلانٹیم کا مرکزی دفتر جہاں سے بیرون ممالک میں اپنے ’شہریوں‘ سے روابط کیے جاتے ہیں
سنہ 1981 میں سڈنی کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک نوجوان جارج کروکشینک اور ان کے دو دوستوں نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں ایک سرحدی لکیر پینٹ کی اور 10 مربع میٹر کے ٹکڑے کو سلطنتِ اٹلانٹیم کا عارضی علاقہ قرار دے دیا۔
شہنشاہ جارج دوئم کی تاج پوشی کے بعد کروکشینک نے آسٹریلیا کی دولت مشترکہ سے یکطرفہ آزادی کا اعلان بھی کیا۔ تینوں نے ایک جھنڈا لہرایا اور اٹلانٹیم کی مائیکرونیشن یعنی ایک ننھی سی قوم باضابطہ طور پر وجود میں آ گئی۔
اٹلانٹیم دنیا بھر میں سو سے زیادہ مائیکرونیشنز میں سے ایک ہے۔ مائیکرونیشن ایک خود ساختہ خود مختار ریاست ہوتی ہے جس کے وجود کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی۔ نتیجتاً کوئی قومی ریاست مائیکرونیشنز کو تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن اس سے تقریبات کے انعقاد، شان و شوکت اور یہاں تک کہ اپنے اندرونی حکومتی ڈھانچے بنانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تاہم نقالی ہمیشہ چاپلوسی کی ایک شکل نہیں ہوتی۔ کروکشینک جیسے مائیکرونیشن کے بانی قومی ریاست کے تصور کو چیلنج کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی بنیادیں کتنی مصنوعی ہوتی ہیں۔
کروکشینک کہتے ہیں ’ایک خودمختار قومی ریاست کا تصور جو اپنے شہریوں پر متعین سرحدوں کے اندر مکمل اختیار رکھتی ہو صرف ایک حالیہ پیش رفت ہے، اور یہی 20ویں صدی کی تمام ہولناکیوں کا باعث بنی۔‘
اٹلانٹیم کے دوسرے شریک بانیوں کی دلچسپی بالآخر ختم ہو گئی مگر کروکشینک اپنی مائیکرونیشن کے معاملات میں پہلے سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اُنھوں نے ڈاک ٹکٹ، سکے اور بینک نوٹ تک جاری کیے، سفارتی نمائندے مقرر کیے اور جھنڈوں اور نشانیوں کا ایک سلسلہ ڈیزائن کیا۔ اُنھوں نے اعشاریہ کیلنڈر کا نظام بھی اپنایا جو سال کو 10 مہینوں میں تقسیم کرتا ہے۔
سنہ 2008 میں اُنھوں نے سڈنی سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر 80 ہیکٹر دیہی رقبہ خریدا جو اٹلانٹیم کا انتظامی دارالحکومت بن گیا۔
شہنشاہ ہفتے کا زیادہ تر حصہ ارورہ صوبے میں کنکورڈیا میں گزارتے ہیں جہاں وہ پالیسی بیانات کے مسودے تیار کرتے ہیں اور امریکہ، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ میں دیگر مائیکرونیشن رہنماؤں اور سلطنت اٹلانٹیم کے ’غیر تسلیم شدہ سفارتی نمائندوں‘ کے ساتھ خطوط کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اٹلانٹیم کے قومی ترانے کا نام اس صوبے کے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔ اورران ترانہ 19ویں صدی کے موسیقار کیملی سینٹ سینز کی ایک پرجوش موسیقی کا اقتباس ہے۔
اٹلاٹینم میں ایک کیبن ہے جو کہ گورنمنٹ ہاؤس اور ڈاکخانے کے طور پر کام کرتا ہے
اٹلانٹیم غیر محدود بین الاقوامی نقل و حرکت کی آزادی کے حق کی حمایت کرتا ہے، اس لیے یہ میرے جیسے زائرین کو ویزا جاری نہیں کرتا جو دارالحکومت میں قیام کے لیے آتے ہیں، جو ایئر بی این بی پر ’آسٹریلیا کے سب سے چھوٹے ملک‘ کے طور پر درج ہے۔
جدید سہولتوں سے ایک کلومیٹر دور یہ پراپرٹی جھاڑیوں اور ایک کیبن پر مشتمل ہے جو گورنمنٹ ہاؤس کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایک ملحقہ پوسٹ آفس کرنسی، ڈاک ٹکٹ اور پوسٹ کارڈ فروخت کرتا ہے، جنھیں ایک سرخ پوسٹ باکس میں ڈالا جا سکتا ہے۔
ایک 4 میٹر اونچا اہرام جس کے پیچھے دو سرپرست ابوالہول ہیں، اس کا سامنا کیپٹلائن کالم کی طرف ہے، جو ایک عقاب کی قومی علامت کے ساتھ سب سے اوپر ہے۔ آسٹریلیا کے ساتھ اس کی جنوبی سرحد کے قریب کینگرو جھیل ڈی ہولینڈا کے کنارے جھاڑیوں کو کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اٹلانٹیم کا علاقہ ویٹیکن سے دوگنا ہے اور اس کے 3,000 ’شہری‘ 100 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں حالانکہ زیادہ تر نے کبھی اس سرزمین پر قدم بھی نہیں رکھا۔
کروکشینک کا کہنا ہے کہ اٹلانٹیم ریاست کے چار معیارات پر پورا اترتا ہے جیسا کہ 1933 کے مونٹیویڈیو کنونشن میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی ایک مستقل آبادی ہے (اگر آپ اس کے 3,000 دور دراز کے شہریوں کو شمار کرتے ہیں، یعنی بصورت دیگر ہر ہفتے کے آخر میں کروکشینک وہاں موجود ہوتے ہیں)، ایک متعین علاقہ، ایک حکومت، اور دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں داخل ہونے کی صلاحیت۔
تاہم آج تک دوسری قومیں اٹلانٹیم کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے کم ہی راضی ہوئی ہیں اور یہ اب بھی ایک قوم کے طور پر تسلیم کیے جانے سے دور ہے۔
سڈنی یونیورسٹی کے لیکچرر اور مائیکرونیشنز اینڈ دی سرچ فار سوورینٹی (مائیکرونیشنز اور خودمختاری کی تلاش) نامی ایک نئی کتاب کے شریک مصنف ہیری ہوبز کہتے ہیں کہ ’ایک مائیکرونیشن بانی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریاست کی تعریف کو پورا کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کسی علاقے پر خودمختاری کا استعمال کرنے کی قانونی بنیاد نہیں ہے۔‘
کروکشینک اپنی ریاست کی شناخت کو تسلیم نہ کیے جانے سے پریشان نہیں ہیں۔
جب ہم اٹلانٹیم کے سڈنی نمائندہ دفتر (جو ان کے اپارٹمنٹ کا ڈرائنگ روم ہے) میں کروکشینک سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ’اٹلانٹیم ایک خودمختار ریاست کے طور پر قانونی شناخت کے لیے کوشش نہیں کر رہا۔ اس کا مقصد ہے کہ لوگ روایتی قومی ریاستوں کے وجود پر سوال اٹھائیں۔‘
گیم آف تھرونز
جب 2011 میں لاڈونیا کی ملکہ کیرولین تخت پر براجمان ہوئیں تو شہنشاہ کروکشینک نے انھیں مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ وہ کہتی ہیں: ’جارج نے فوراً میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور مجھے لندن میں مائیکرو نیشنز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔‘
لاڈونیا کی بنیاد 1996 میں سویڈن میں مقامی حکام کے درمیان لارس ولکس کے بنائے گئے مجسموں کے ایک سیٹ پر ایک طویل قانونی تنازعے کے بعد رکھی گئی تھی۔ اس کی پہلی ملکہ نے 14 سال تک حکومت کی تھی پھر اچانک اپنے فرائض انجام دینے چھوڑ دیے۔ اس وقت کیرولین شیلبی کابینہ کی وزیر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
ملکہ کیرولین نے شکاگو میں اپنی رہائشگاہ سے ہمیں بتایا: ’لاڈونیا کو آئینی بحران کا سامنا تھا کیونکہ ہماری کوئی ملکہ نہیں تھی، اور ملکہ کے ورثا نے ان سے رابطہ کرنے کی ہماری کوششوں کا جواب نہیں دیا۔‘
ملکہ کی غیر موجودگی میں نئی ملکہ کی تلاش کرنے کے لیے انتخابات کروائے گئے۔ لاڈونیا کا آئین کہتا ہے کہ اس پر کبھی بادشاہ کی حکومت نہیں ہو گی۔
ملکہ کیرولن کہتی ہیں کہ ’تاریخی طور پر جب حکمران ہونے کی بات آتی ہے تو خواتین کو ان کا حق نہیں ملتا لہٰذا لاڈونیا کے بانی اس رجحان کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔‘
’یہ بھی سوچا جاتا تھا کہ تخت پر عورت کو بٹھانا بادشاہت کے لیے پرامن اور مستحکم قوت کا کام کرتا ہے۔‘
لاڈونیا کی ملکہ کیرولین
ملکہ کیرولن نے تاجپوشی کی تقریب کے لیے سویڈن میں مائیکرونیشن کے دارالحکومت نیمیس کا سفر کیا۔ نیمیس جنگل میں لکڑی کے مجسموں کا ایک سلسلہ ہے جہاں صرف پیدل پہنچا جا سکتا ہے اور صرف 1 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس کے باوجود ہر سال ہزاروں لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں۔
ملکہ کیرولن کی 26 سالہ بیٹی ولی عہد شہزادی گریٹا مونٹریال میں رہتی ہیں اور تخت کے لیے اگلی قطار میں ہیں۔
’جب میں ملکہ بنی تو وہ 16 سال کی تھی اور اس وقت اس نے سوچا کہ یہ بیوقوفی ہے، لیکن اب اسے سمجھ آ رہی ہے۔ اس نے میری طرف سے کچھ ریاستی تقریبات میں شرکت بھی کی ہے۔‘
دھندلی لکیریں
لاڈونیا کے اس وقت 27,000 رجسٹرڈ شہری ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سویڈن، امریکہ اور روس سے ہے۔ اس کی شہریت کا درخواست فارم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہریت کا سرٹیفکیٹ سفر یا کام کے حقوق حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ’آزادی اظہار اور فنون کی حمایت کا اظہار ہے، وہ نظریات جو اس مائیکرونیشن کی بنیاد ہیں۔‘
ملکہ لاڈونیا کہتی ہیں کہ ’لوگ لاڈونیا سے محبت کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک نظام حکومت ہے جسے اُنھوں نے چنا ہے۔‘
’یہ حادثہ نہیں ہے۔ ہم دنیا کے لیے ایک نظریے کا پرچار کرتے ہیں جسے ہم مل کر بنانا چاہتے ہیں۔‘
لاڈونیا کے شہریوں کے رہنے کے لیے زمین خریدنے کے بارے میں باقاعدگی سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔
’یہ پیسے کا سوال ہے۔ لاڈونیا کے قریب زمین بہت مہنگی ہے۔ ہمارے شہری چاہتے ہیں کہ ہم سپین یا اٹلی میں زمین خریدیں۔ لیکن ہمیں ایسے ملک میں زمین خریدنی چاہیے جو ہمیں کچلنے والا نہ ہو۔‘
ان کے فرائض میں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لاڈونیا کے لوگ حکام کو ناراض نہ کریں جس سے لاڈونیا کے وجود کو خطرات لاحق ہو جائیں۔
وہ کہتی ہیں ’ہم موجودہ ریاستی ڈھانچے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اگر آپ خود کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں تو آپ بڑی قوموں کی طرف سے منفی توجہ حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی اپنی سرحدوں پر علیحدگی پسند نہیں چاہتا۔‘
اٹلانٹیم کا ایک 4 میٹر اونچا اہرام ہے جہاں ریاستی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے
جارج کروکشینک مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ کچھ مائیکرونیشنز کے بانی چیزوں کو بہت آگے لے جاتے ہیں۔ مغربی آسٹریلیا میں دریائے ہٹ کی پرنسپلٹی 1970 میں اس وقت وجود میں آئی جب لیونارڈ کیلسی نے گندم کے پیداواری کوٹے کے تنازع پر آسٹریلیا سے علیحدگی کی کوشش کی۔ سنہ 1977 میں، پرنس لیونارڈ، جس نام سے وہ مشہور ہوئے، نے مختصر طور پر جنگ کا اعلان کر دیا جب اُنھیں معلوم ہوا کہ ٹیکس حکام ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔
ہٹ ریور نے دنیا کی سب سے طویل عرصے تک چلنے والی مائیکرونیشن کا خطاب حاصل کیا، لیکن بالآخر اُنھیں 30 لاکھ آسٹریلین ڈالر کے ٹیکس بل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا۔ کیلسی سنہ 2017 میں اپنے بیٹے کے حق میں دستبردار ہو گئے اور اُنھیں 2020 میں مجبور کیا گیا کہ وہ قرض ادا کرنے کے لیے جائیداد کو بیچ دیں جو ایک وقت میں کامیاب سیاحتی مقام تھا۔
کروکشینک کہتے ہیں: ’پرنس لیونارڈ ایک ہوشیار آدمی تھے، لیکن ان کے پاس کچھ عجیب و غریب خیالات بھی تھے۔ انھوں نے مجھے عددی حسابات اور عجیب و غریب حوالوں کے ساتھ کچھ دستاویزات فراہم کیں جو بنیادی طور پر یہ ظاہر کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں کہ وہ کچھ خاص قسم کے شخص ہیں۔‘
اسی طرح کی بدنصیبی پیٹر فٹزیک کے ساتھ بھی ہوئی، جنھوں نے جرمن ریاست کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا اور برلن کے قریب 2013 میں کنگڈم آف جرمنی کے نام سے ایک مائیکرونیشن کی بنیاد رکھی۔
کیلسی کی طرح فٹزیک پر بھی انا غالب آئی۔ کروک شینک کہتے ہیں: ’یہ بالکل واضح ہے کہ یہ شخص اپنی تشہیر پر یقین رکھتا ہے۔ جب آپ اس طرح کے راستے پر اتر جاتے ہیں تو یہ قدرے خطرناک ہو جاتا ہے۔‘
سنہ 2017 میں فٹزیک کو بغیر لائسنس کے بینک چلانے اور غبن کرنے پر تقریباً چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یونیورسٹی آف سڈنی کی ہیری ہوبس کا کہنا ہے کہ ’ایسی مائیکرونیشنز پریشانی کا شکار ہوتی ہیں جو کسی ریاست سے مقابلے میں آ جاتی ہیں۔ ریاستیں اس علاقے پر اپنے دائرہ اختیار کو چھوڑنا نہیں چاہتیں جنھیں وہ اپنا سمجھتے ہیں یا یہ کہ وہ ایسا مستقبل میں چاہیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے
خیالی ریاست
خیالی اور حقیقت کے درمیان لکیر اکثر دھندلی ہو جاتی ہے۔ ملکہ کیرولن شکاگو ٹریبیون میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتی تھیں، جہاں ایک ایڈیٹر نے مذاق میں اپنے انٹرنز کو ہدایت کی کہ جب ’ملکہ‘ کمرے میں داخل ہوں تو کھڑے ہو جائیں اور کبھی بھی ان کی طرف پیٹھ نہ موڑیں۔
’ایک دن میں نیوز روم میں گئی اور ایک انٹرن کھڑی ہوئی اور دوسروں کو بھی کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک بار پھر وہ میرے دفتر میں کچھ لے کر آئی: اس نے وہ چیز میرے حوالے کی، اور پھر جھک کر ادب سے پیچھے ہٹ گئی۔‘
اس وقت تک، ملکہ کیرولن اس بات سے بے خبر تھیں کہ ایڈیٹر نے لوگوں کو اس کے بارے میں کیا بتا رکھا تھا۔ اُنھوں نے انٹرن کے ساتھ تبادلے کو دلچسپ پایا۔
سلطنت اٹلانٹیم کے بادشاہ نے اپنے ڈاک ٹکٹ جاری کر رکھے ہیں
جارج کروکشینک اٹلانٹیم کو ایک ’پرفارمنگ آرٹ پروجیکٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ میں حقیقی طاقت والا حقیقی بادشاہ نہیں ہوں۔‘
’لیکن جتنے زیادہ لوگ کسی چیز کو حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہیں، وہ اتنا ہی زیادہ حقیقی ہو جاتا ہے۔ سرکاری تقریبات میں لوگ میرے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اور مجھے خطوط ملتے ہیں جس میں مجھے ’شہنشاہ معظم‘ کہتے ہیں۔ میں جواب میں غیر سنجیدہ نہیں رہ سکتا۔‘
ہوبز کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں ہولناک غلط فہمیوں کا بھی امکان رہتا ہے۔
’ایسے معاملات ہوئے ہیں جب مایوس کن حالات سے فرار ہونے والے لوگ مائیکرونیشنز کے شہری بننے کے لیے فیس ادا کرتے ہیں، اور پھر مائیکرونیشن کو اُنھیں بتانا پڑتا ہے کہ یہ ایک حقیقی ملک نہیں ہے۔ اور وہ شخص کہتا ہے، ’یہ کیسا مذاق ہے؟‘ یہ وہ موقع ہوتا ہے جہاں سب حقیقی کچھ زندگی میں واپس آ جاتا ہے۔‘
اصلی قوم
آسٹریلیا کو ’دنیا کا مائیکرونیشن کیپیٹل‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک درجن سے زیادہ مائیکرونیشنز ہیں۔ کچھ زندہ دل ہوتے ہیں، جیسے اٹلانٹیم، جبکہ بعض لوگ ایک خاص مقصد کے ساتھ مائیکرونیشن کا قیام عمل میں لائے۔
جب آسٹریلیا کی حکومت نے ہم جنس شادیوں کو تسلیم نہیں کیا تو ہم جنس پرستوں نے 2004 میں گے اینڈ لیسبیئن کنگڈم آف دی کورل سی آئلینڈز نامی ریاست قائم کی۔ اس نے میڈیا کی خاصی توجہ حاصل کی اور آسٹریلیا نے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی تو کنگڈم آف دی کورل سی کو 2017 میں تحلیل کر دیا گیا۔
ہوبز سمجھتے ہیں کہ مائیکرو نیشنلزم آسٹریلوی ثقافت سے ہم آہنگ ہے جو بالادستوں کا مذاق اڑاتی ہے۔
’آسٹریلیا اپنی خودمختاری میں کافی حد تک محفوظ ہے۔ یہ ایک بہت کم آبادی والا براعظم ہے۔ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے، جب تک کہ آپ ٹیکس ادا کرتے رہیں اور سڑک کے اصولوں پر عمل کریں۔‘
یدنجی ٹرائبل نیشن آسٹریلیا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے اور آسٹریلیا کے آئین کو درست کروانے کی کوشش کر رہی ہے جس میں مقامی لوگوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے 200 شہری ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ آسٹریلیا کے اصل باشندے ہیں۔ جس زمین پر ان کا دعویٰ ہے وہ ریاست کوئنز لینڈ میں واقع ہے اور سمندر تک 80 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
مرّومو والوبارا کہتے ہیں ’معاہدے کا مقصد ماضی کے مسائل کو حل کرنا ہے۔‘ وہ ہم سے خارجہ امور اور تجارت کے وزیر کی حیثیت سے بات کر رہے تھے۔ ’ہم کہہ رہے ہیں، دیکھو، اب آپ کو ہمارا سامان چوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ماضی کو طے کریں گے اور مستقبل کو محفوظ کریں گے۔‘
ان سابق صحافی نے سنہ 2014 میں اپنا نام تبدیل کیا، اپنا آسٹریلوی پاسپورٹ واپس کر دیا اور اپنے بینک اکاؤنٹس، ریٹائرمنٹ اور ہیلتھ انشورنس کی دستاویزات کو پھاڑ دیا۔
یدنجی حکومت کے اراکین نے 2017 میں اپنا معاہدہ آسٹریلوی حکومت کے حوالے کیا تھا – تاہم والوبارا ابھی تک جواب کے منتظر ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’آسٹریلوی حکومت بہت سست ہے۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ملیں گے، ہم ایک قوم کے طور پر خود کو ترقی دیتے رہیں گے۔ ہم اس جگہ کے مالک ہیں، اور ہم اس کے بارے میں عدم تحفظ کے شکار نہیں ہیں۔‘
جارج کروکشینک سلطنت اٹلانٹیم کے بانیوں میں سے ہیں
مرّومو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یدِنجی مائیکرونیشن نہیں بلکہ ’اصل قوم‘ ہے۔
ہوبز اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’میں اسے مائیکرونیشن نہیں کہتا کیونکہ ان کے خودمختاری کے دعوے کی ایک جائز بنیاد ہے۔ مقامی لوگ 60 ہزار سالوں سے اس سرزمین پر موجود ہیں۔‘
کامیابی کا پیمانہ
کوئی بھی مائیکرونیشن کبھی ملک بننے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لازمی طور پر ناکام ہوں۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کا مائیکرونیشن بنانے کا مقصد کیا تھا۔
فریسٹونیا کی آزاد اور خود مختار جمہوریہ 1979 میں مغربی لندن میں اس وقت قائم ہوئی جب گریٹر لندن کونسل نے 120 رہائشیوں کو باضابطہ بے دخلی کی دھمکی تھی۔ بہت سے لوگ فریسٹن روڈ پر خالی مکانوں پر زبردستی قبضہ کر کے بیٹھ گئے تھے۔
فریسٹونیا کا اپنا ایک اخبار تھا اور فریسٹونین ڈاک ٹکٹوں کو پوسٹل سروس نے تسلیم کیا تھا۔ برطانوی خزانے کے شیڈو چانسلر سر جیفری ہیو نے فریسٹونیا کی حمایت میں ایک خط شائع کیا تھا۔ یہاں تک کہ فریسٹونیا نے فلم کی نمائش کے مقاصد کے لیے برطانیہ کا حصہ نہ بننے کے اپنے دعوے پر قانونی تنازع جیت لیا۔ یہ علاقے کو بچانے میں کامیاب رہے اور 1983 تک موجود رہے۔
ہوبز کہتے ہیں ’اُنھوں نے ایک سیاسی ہلچل پیدا کی جس نے حکومت کو اپنے منصوبے بدلنے پر مجبور کیا۔‘
دریں اثنا، ایلگالینڈ اور ورگالینڈ کی بادشاہی دنیا بھر کے ممالک کی سرحدوں کے درمیان کے علاقوں پر خودمختاری کا دعویٰ کرتی ہے۔ ’یہ آپ کو خود علاقے کے بجائے سرحدی علاقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔‘
اس سے بھی زیادہ ایمبولیٹری فری اسٹیٹس آف اوبسیڈیا ہے جسے 2015 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس مائیکرونیشن کی بنیاد دو پاؤنڈ وزنی اوبسیڈین چٹان ہے جو اس کے بانی گرینڈ مارشل یگجیان سرکاری بریف کیس میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس مائیکرونیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ حقوقِ نسواں اور جغرافیہ کے سنگم پر واقع ہے۔‘
ہوبز کا کہنا ہے کہ ’مائیکرونیشنز کا مستقبل تاریک ہے اگر مقصد ایک ریاست بنانا ہے، کیونکہ یہ کبھی کام نہیں کرتا۔‘
’تاہم کمیونٹی کا پہلو روشن ہے۔ ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو ہم خیال افراد کی کمیونٹی بنانے اور سفارتی عمل میں مشغول ہونے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جھنڈا بنانے، قومی ترانہ بنانے اور بادشاہ کا لباس پہننے میں مزہ ہے۔‘
Comments are closed.