صوبہ سندھ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک فنکار نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے موئن جو دڑو میں دوبارہ زندگی کا تصور دوبارہ پیش کیا ہے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹھٹھہ کے ضلعی محکمہ صحت کے ایک کمپیوٹر آپریٹر، رحمت اللّٰہ میربہار نے مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب ٹیوٹوریلز کی مدد سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں سیکھا۔
اُنہوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے موئن جو دڑو کی کچھ تصاویر بنائی ہیں جنہیں پذیرائی ملنے پر وہ بہت خوش ہیں۔
یہ بستی جوکہ 2500-1500 BC میں آباد تھی لیکن پھر تباہ ہوگئی اور پھر 1921ء میں دوبارہ دریافت ہوئی، یہ قدیم وادیٔ سندھ کی تہذیب کی سب سے بڑی بستی اور دنیا کے ابتدائی بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
رحمت اللّٰہ میربہار نے ان تصاویر کے بارے میں عرب نیوز کو بتایا کہ جب میں نے پہلی بار یہ تصاویر بنائی تھیں تو میں نے انہیں ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا کہ لوگ انہیں پسند کریں گے۔
اُنہوں نےبتایا کہ لیکن پھر میں نے انہیں اپ لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ تصاویر وائرل ہوگئیں، یہاں تک کہ مجھے جرمنی، امریکا اور ہندوستان سے بھی کالز موصول ہوئیں۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ مجھے اے آئی کے بارے میں سیکھنے میں تقریباً تین مہینے لگائے اور ان تصاویر کے ذریعے دنیا کو یہ دکھانا مقصد ہے کہ لوگ قدیم شہر موئن جو دڑو میں کیسے رہتے تھے اور ان کا طرز زندگی کیسا تھا۔
رحمت اللّٰہ میربہار نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اس منصوبے کے لیے ایک مثالی انتخاب ہے کیونکہ یہ کسی جگہ یا اس کے لوگوں کے بارے میں دستیاب آن لائن ڈیٹا کی بنیاد پر نتائج دے سکتی ہے اور یہ حقیقت سے مماثلت نہیں دکھاتی لیکن اس ٹیکنالوجی میں انسانی ذہن مداخلت کر سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے یہ تصاویر بناتے ہوئے متعدد جگہوں بار مداخلت کی تاکہ اس علاقے کے قدیم فنِ تعمیر، ثقافت اور مذہب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جاسکیں۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ اے آئی انٹرنیٹ پر آن لائن موجود ڈیٹا کی بنیاد پر 50 یا 60 فیصد نتائج دیتا ہے، اسی لیے اس میں ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے کہ جیسے کہ ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ اس دور کے لوگوں کے چہرے کیسے ظاہر ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے ہمیں ان کے چہرے ٹھیک کرنے ہوں گے، ان کے رنگ بدلنے ہوں گے۔
رحمت اللّٰہ میربہار نے کہا کہ حتمی تصاویر دیکھ کر کچھ ناقدین نے لاپتہ عناصر کے بارے میں نشاندہی بھی کی ہے۔
اُنہوں نے یہ سب مکلی میں واقع اپنے دفتر کی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے میڈیا کو بتایا جوکہ موئن جو دڑو سے زیادہ دور نہیں ہے، یہ ایک قدیم قبرستان جس میں نصف ملین مقبرے اور قبریں ہیں، یہ دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک اور ورلڈ ہیریٹیج سائٹ یونیسکو میں شامل ہے۔
موئن جو دڑو کے بعد اب رحمت اللّٰہ میربہار آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے قدیم سمندری شہر بنبھور میں زندگی کا تصور پیش کرنا چاہتے ہیں جہاں سے مورخین کے مطابق مشہور عرب جرنیل محمد بن قاسم آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ میں داخل ہوئے تھے۔
Comments are closed.