آذربائیجان کا ناگورنو قرہباخ پر حملہ: علیحدگی پسند آرمینیائی فوج کے غیر مسلح ہونے پر رضا مندی کے بعد جنگ بندی پر اتفاق
آذربائیجان کا ناگورنو قرہباخ پر حملہ: ’آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے ہتھیار پھینکنے تک آپریشن نہیں رکے گا‘
،تصویر کا ذریعہEPA
- مصنف, پال کربی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
آذربائیجان نے ناگورنو قرہباغ کے متنازع خطے میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے حملہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ آرمینیائی علیحدگی پسند ہتھیار نہیں ڈال دیتے۔
جنوبی قفقاز، خصوصاً بین الاقوامی سطح پر الگ ہونے والے آذربائیجان کے اس علاقے میں، کئی مہنیوں سے کشیدگی جاری ہے۔
یاد رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان آخری جنگ تین برس قبل ہوئی تھی۔
آذربائیجان نے ’آرمینائی فوج کے غیر قانونی دستوں‘ کو ہتھیار ڈالنے اور اپنی ’غیر قانونی حکومت‘ ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا میں پہلی بار 1990 کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے زوال کے بعد جنگ ہوئی تھی۔ پھر 2020 میں آذربائیجان نے ناگورنو قرہباغ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر روس کے امن دستوں کی طرف سے جنگ بندی اور نگرانی کرنے کے عمل سے قبل دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
قریباغ میں آبائی آرمینائی افراد نے منگل کو جنگ بندی کرتے ہوئے مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی ہے۔ لیکن آذربائیجان کی دھمکی سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ باکو کا مقصد پہاڑی علاقے پر اپنی فتح کو مکمل کرنا تھا۔
آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشنیان نے آذربائیجان کی زمینی کارروائی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد ’نسل کشی‘ ہے۔
لیکن سینکڑوں آرمینیائی مظاہرین نے اپنے ملک کے ردعمل سے مایوس ہو کر پارلیمنٹ کے باہر پولیس کے ساتھ جھڑیوں میں اپنے رہنما کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ یولاخ کے شہر میں مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ شہر قرہباغ کے دارالحکومت خانکینڈی سے تقریباً 100 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور آرمینیائی افراد اسے ’سٹیپناکرٹ‘ کہتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہICTIMAI TV
سنہ 2020 کے آخر سے تین ہزار روسی فوجیوں نے جنگ بندی کے اس کمزور معاہدے کی نگرانی کی ہے لیکن اب ماسکو کی تمام توجہ یوکرین کے حملے پر مرکوز ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 120,000 آبائی آرمینیائی افراد اس پہاڑی خطے میں رہتے ہیں۔ روس نے کہا ہے کہ اس کے فوجیوں نے سب سے زیادہ خطرے والے علاقوں سے تقریباً 500 شہریوں کو منتقل کیا ہے جبکہ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے مجموعی طور پر 7000 افراد کو منتقل ہونے میں مدد کی ہے۔
گذشتہ نو ماہ سے آذربائیجان نے آرمینیا سے اس خطے کو جانے والے واحد راستے پر مؤثر ناکہ بندی کر رکھی ہے جسے ’لاچن کوریڈور‘ کہا جاتا ہے۔
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے منگل کی صبح بارودی سرنگ کے دو دھماکوں میں چار پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد کی ہلاکت کے ردعمل میں اپنا آپریشن شروع کیا ہے۔
جس کے بعد قرہباغ شہر میں فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے اور گولہ باری اور گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنائی دی گئیں۔ اس حملے سے رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اور صحافی سیرانش سرگسیان نے ساتھ والی عمارت تباہ ہونے کا آنکھوں دیکھا حال بھی بیان کیا ہے۔
قرہباغ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ خواتین اور بچوں سمیت درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی فوج نے اس متنازع علاقے میں ’میزائل اور توپ خانے سے حملے کر کے سرحدی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ قرہباغ کے دیگر نمائندوں نے ’بڑے پیمانے پر فوجی حملے‘ کا کہا ہے حالانکہ بعدازاں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گولہ باری کی شدت میں کمی آئی ہے۔
،تصویر کا ذریعہAZERBAIJAN DEFENCE MINISTRY
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ وہ عام شہریوں یا رہائشی عمارتوں کو نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ جدید ہتھیاروں کی مدد سے دفاعی تنصیبات کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیائی افواج پر ’منظم گولہ باری‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’مقامی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر کے جواب دیا ہے۔۔۔ تاکہ ہمارے علاقوں سے آرمینیا کی مسلح افواج کو غیر مسلح اور پیچھے دھکیلا جا سکے۔‘
ایک مختصر ٹیلی ویژن خطاب میں آرمینیا کے وزیراعظم نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ ان کی فوج اس سب میں ملوث ہے۔
روس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسے آذربائیجان کے حملے کے بارے میں چند منٹ پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا اور اس نے دونوں ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ 2020 میں کیے گئے جنگ بندی کے دستخط شدہ معاہدے کا احترام کریں۔ یورپی یونین کے علاقائی خصوصی نمائندے، تویوو کلار نے کہا کہ ’فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔‘
روس کی وزارت خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن دونوں نے آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف سے علاقے میں فوجی کارروائی فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی قفقاز کے مبصر لارنس برورس نے منگل کو کہا ہے کہ ناکہ بندی کی وجہ سے قرہباخ میں آرمینیائی آبادی کمزور پڑ گئی ہے اور آذربائیجان آپریشن ’بظاہر آرمینیائی آبادی والے قرہباغ کو مکمل طور پر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے‘ شروع کیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے حال ہی میں کہا تھا کہ روس ’اچانک علاقے سے نکل رہا ہے۔‘ اس دوران آذربائیجان کو اپنے اتحادی ملک ترکی کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔
آذربائیجان کے صدر کے خصوصی مشیر حکمت حاجییو نے علیحدگی پسند آرمینیائی انتظامیہ کو ’خود کو تحلیل‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’آذربائیجان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ آئین کے تحت قرہباغ کے آرمینیائی باشندوں کو ان کے حقوق اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
آذربائیجان نے خطے میں مسلح افواج کی موجودگی کی تردید کی ہے۔ پیر کو اس نے قرہباغ کی دو شاہراہوں پر امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس کو امداد دینے کی اجازت دی تھی۔
منگل کے حملے سے قبل تک یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آ جائے۔
آذربائیجان کے وزیر دفاع نے ایک گاڑی کی تصاویر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بارودی سرنگ سے تباہ ہوئی ہے لیکن آبائی آرمینیائی حکام کا کہنا ہے کہ یہ آذربائیجان کی فوجی گاڑی تھی جس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تھی۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کیا ہے؟
سنہ 1980 کی دہائی کے آخر سے، دو سابق سوویت ریاستیں ناگورنو قرہباخ کے علاقے پر اپنے حق کے دعوے کے لیے لڑتی چلی آ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
سنہ 1988 میں ناگورنو قرہباغ میں نسلی آرمینیائی باشندوں نے اس پر آرمینیا کی حکمرانی کے لیے تحریک شروع کی۔ اس نے نسلی کشیدگی کو ہوا دی اور جب، سنہ 1991 میں اس خطے نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا تو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
اس کے نتیجے میں تقریباً 30,000 ہلاکتیں ہوئیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
سنہ 1993 تک آرمینیا نے نگورنو کاراباخ اور آذربائیجان کے آس پاس کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
ناگورنو قریباغ آذربائیجان کا حصہ رہا ہے، لیکن اس جنگ کے بعد سے زیادہ تر ایک علیحدگی پسند، خود ساختہ جمہوریہ کے زیر انتظام ہے، جسے آرمینیائی نسل کے لوگ چلاتے ہیں اور انھیں آرمینیائی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ستمبر اور نومبر سنہ 2020 کے درمیان ایک اور جنگ ہوئی تھی۔
اس بار آذربائیجان جسے ترکی کی حمایت حاصل تھی، کا پلڑا بھاری رہا اور اس نے ناگورنو قرہباخ کے بڑے حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت، آرمینیا نے وہاں سے فوجیوں کو واپس بلا لیا اور تقریباً 2000 روسی امن دستے جنگ بندی کی نگرانی کے لیے خطے میں تعینات کیے گئے۔
اس جنگ میں 6,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دونوں ملکوں کے رہنما نگورنو کاراباخ کے لیے امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کئی بار ملاقاتیں کر چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہوا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آرمینیا اور آذربائیجان کہاں ہیں؟
یہ دونوں ملک جنوبی قفقاز (ساؤتھ کاکیسس) میں بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان مشرقی یورپ اور ایشیا کے ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہیں۔
آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آرمینیا کی 30 لاکھ آبادی مسیحیوں پر مشتمل ہے۔
آذربائیجان کے ترکی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ آرمینیا کے روس کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں (حالانکہ روس کے آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں)۔
سنہ 1923 میں، سوویت یونین نے نگورنو کاراباخ کو جس میں آرمینیائی آبادی کی اکثریت تھی، آذربائیجان جمہوریہ کا ایک خود مختار خطہ بنایا تھا۔ اس خطے کی 150,000 آبادی کی اکثریت اب بھی آرمینیائی ہے۔
Comments are closed.