آذربائیجان: ’آگ کی سرزمین‘ کہلایا جانے والا ملک جہاں آج بھی قدیم آتش گاہیں جل رہی ہیں
- مصنف, اینجلو زینا
- عہدہ, بی بی سی ٹراول
تقریباً صبح چار بجے آذربائیجان کے شمالی علاقے میں خنالق کے دور دراز پہاڑی گاؤں کے باہر ایک آتش گاہ میں بھڑکتے ہوئے بلند شعلوں پر لوہے کے برتن میں رکھا دریا کا پانی ابلنے لگا۔
پیدل سفر کرنے والوں کا ہمارا گروپ شمالی آذربائیجان میں کوہ علیوف کی چوٹی کی طرف ایک طویل برفانی چڑھائی پر چڑھنے والا تھا۔ ایسے کسی گروپ کے لیے اس مقام پر زمین کے ایک شگاف سے نکلنے والی میتھین گیس کی وجہ سے بھڑکتی ہوئی آگ نے ایک مقدس حیثیت حاصل کر لی ہے۔
اس نے نہ صرف ہمیں سرد اور پرنم بہار کی رات میں گرمی فراہم کی بلکہ اس نے ہماری صبح کی چائے کی تیاری میں بھی مدد کی۔ ہم ذہنی طور پر چڑھائی کے لیے تیار تھے۔
عظیم قفقاز کے پہاڑوں میں 2,350 میٹر کے فاصلے پر دو ہزار افراد پر مشتمل ایک بستی ہے جو خنالق کہلاتی ہے۔
وہاں سے آتش گاہ سے گزرنے والی پگڈنڈی تک پہنچنے کے لیے سوویت جی اے زید ٹرک سے ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
آس پاس کا بیشتر حصہ شاہداگ نیشنل پارک کا علاقہ ہے جو الپائن مرغزاروں اور بلند و بالا چوٹیوں کے 130,508 ہیکٹر علاقے پر پھیلا ہوا ہے، یہ جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا قومی پارک ہے۔ یہ آذربائیجان کی روس کے ساتھ شمالی سرحد کا حصہ ہے۔
اس کی چوٹیاں بادلوں میں گھسی نظر آتی ہیں اور بظاہر ایک ناقابل تسخیر دیوار بناتی ہیں۔ خطے کی ناہموار زمین اور غیر متوقع آب و ہوا نے تاریخی طور پر انسانوں کو یہاں سے دور ہی رکھا ہے۔ اس کے باوجود مسلسل جلتے ہوئے شعلوں والا آتش کدہ ہمارے وہاں پہنچنے سے صدیوں پہلے سے پوجا جاتا رہا ہے۔
ہم جیسے ہائيکرز انتہائی خوبصورت نظاروں کی تلاش میں آذربائیجان کے کنارے کی ان پہاڑیوں تک پہنچتے ہیں۔
آذربائیجان کو تیل اور قدرتی گیس کے وسیع وسائل کے لیے ’سرزمین آتش‘ کہا جاتا ہے۔ جب معروف سیاح مارکو پولو نے 13ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں اس خطے کے قدرتی ’تیل کے چشموں‘ کے نغمے گائے ہیں۔
ملک میں قدرتی گیس کے وافر ذخائر نے گذشتہ 150 سال میں اس کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود زرتشتی مذہب کی وجہ سے آگ آذربائیجانی ثقافت اور اساطیر میں پیوست ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین توحیدی مذاہب میں سے ایک ہے جس نے تین ہزار سال سے زیادہ پہلے یہاں اپنی جڑیں قائم کیں۔
زرتشت مذہب میں آگ مرکزی کردار کی حامل ہے۔ زرتشتیوں کے لیے آگ ان کے خدا کے ساتھ روحانی اور جسمانی رابطے کے لیے پل کا کام کرتی ہے، جس کے ذریعے فانی عقیدت مند خدا سے جڑ سکتے ہیں اور اندھیرے میں رہنے والی شیطانی قوتوں سے تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔
کوئی بھی رسم آگ کے بغیر ادا نہیں کی جاتی اور خنالق کے قریب اس طرح کے آتش کدے باعقیدہ برادریوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ درحقیقت کچھ سکالرز کا خیال ہے کہ آذربائیجان کا نام آذر (فارسی میں ’آگ‘) اور بایگان (محافظ) کا مرکب ہے۔
آذربائیجان کی تاریخ کے مؤرخ اور مذہبی سکالر کاظم عظیموف کا کہنا ہے کہ زرتشتی مذہب کی یہاں جڑ پکڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔ شاہراہ ریشم کے اہم مقام پر آذربائیجان کی موجودگی نے زرتشتی تاجروں کو یہ سہولت فراہم کی کہ وہ مقامی آبادی کے ساتھ آسانی سے رابطے میں آسکیں۔
آذربائیجان قدرتی گیس کے ذخائر سے مالامال ہے اور اسی سبب اس مذہب کی مقدس آگ کو برقرار رکھنا آسان ہے۔
آج آذربائیجانیوں کی اکثریت مسلمان ہے لیکن زرتشتی عقائد، رسم و رواج اور روایات عصری ثقافت میں نظر آتی ہیں۔ ہر سال موسم بہار کی آمد کا جشن منانے کے لیے آذربائیجان میں نوروز منایا جاتا ہے۔ یہ روایت زرتشتی لوک داستانوں سے انھیں ملی ہے اور نوروز آذربائیجان کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک ہے۔
باکو کی ایک ٹوور گائیڈ عائشان شریفوفا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’نوروز کے موقع پر ہم اپنے صحن میں آگ جلاتے ہیں۔ ہم شکربورا، بکلاوا، گوگھل (پیسٹریز) وغیرہ بناتے ہیں۔ یہ نوروز کے موقع پر خاص طور پر تیار کی جانے والی مٹھائیاں ہیں۔‘
’ان میں سے ہر ایک موسم بہار کے دوران فطرت کے مختلف مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ شکربورا ہلال کی شکل کا ہوتا ہے، بکلاوا ستارے کی شکل کا ہوتا ہے جبکہ گوگھل سورج کی شکل کا۔‘
زرتشتی مذہب میں تجدید کا تصور اور فطرت کے تئیں اس کی تعظیم جدید دور کے آذربائیجان میں مضبوط ہے۔ نوروز 21 مارچ کو آتا ہے لیکن ایران کے برعکس آذربائیجان میں نوروز کی تعطیل سے پہلے والے چار ہفتوں میں جشن منایا جاتا ہے۔
شریفووا کہتی ہیں کہ ’لوگ رقص کرتے ہیں، گیت گاتے ہیں اور کھیلوں کے ذریعے جشن مناتے ہیں۔‘
زرتشتیوں کے لیے سردیوں کے بعد فطرت کا احیا خود کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے آگ ایک مفید ذریعہ ہے۔ آذربائیجان کے چاروں طرف، شہروں اور دیہاتوں میں الاؤ جلائے جاتے ہیں اور جو لوگ اپنی بدقسمتی کو پیچھے چھوڑ کر نئے سال کا آغاز کرتے ہیں وہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہیں۔
آذربائیجان کے زرتشتی ماضی کے مادی نشانات ملنا مشکل ہیں۔ کچھ سکالرز کا خیال ہے کہ آذربائیجان کی قومی آئیکون میں سے ایک باکو کے تاریخی پرانے شہر میں موجود 29 میٹر بلند میڈن ٹاور ہے۔
یہ 12ویں صدی کی عمارت یونیسکو کے تہذیبی ورثے میں شامل ہے اور زرتشتی مذہب کا آغاز ہو سکتی ہے۔ مینار کے نیچے کھڑے ہو کر اینٹوں کی دو مختلف تہوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ عمارت کا نچلا حصہ دخمہ ہو سکتا ہے جو زرتشتی میت کو رکھنے والے مینار کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہو تاکہ انھیں پاک کیا جا سکے۔
زرتشتی مذہب کا ایک اور مقدس عنصر یہ ہے کہ انسانی باقیات کو مینار کے اوپر رکھ دیا جائے اور گدھوں کے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے تاکہ زمین غیر آلودہ رہے۔
سکالر اور محقق کے ای ایدولجی کے مطابق دخموں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ لاشیں اور ان کے سیال زمین کے ساتھ رابطے میں نہ آئیں یا ندیوں میں نہ جائیں، اس طرح مٹی اور ندیوں کو آلودہ نہ کریں اور بیماریاں نہ پھیلیں۔ یہ رسم چھوٹی پہاڑی وادیوں میں پیدا ہوئی جہاں قابل کاشت زمین بہت کم تھی اور بیماری پورے گاؤں کو تباہ کر دیتی تھی۔
فارسیوں نے چھٹی صدی قبل مسیح میں جدید دور کے آذربائیجان میں زرتشتی مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر اپنایا اور ساتویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت کے خاتمے تک وہاں قربان گاہیں، مندر اور مینار جگہ جگہ نظر آتے تھے۔
جب زرتشتی مذہب پورے ایشیا اور قفقاز میں پھیلنے لگا تو مذہب کے مقدس شعلوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں آتش کدے بنائے گئے لیکن ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد کے بعد ان میں سے بہت سی رسمیں ختم ہونے لگیں۔
یہ 12ویں صدی کی عمارت یونیسکو کے تہذیبی ورثے میں شامل ہے
آج آذربائیجان کی آبادی زیادہ تر شیعہ مسلمان ہے لیکن اس کے دو باقی ماندہ آتش کدے ملک کی پراسرار زرتشتی تاریخ کے بہترین شواہد پیش کرتی ہیں۔ خنالق میں ایک چھوٹی پتھر کی اہرام نما عمارت ہے جس کے گرد چار کھلے محراب والے داخلی راستے ہیں جہاں سے سبز پہاڑیاں نظر آتی ہے ہیں جو آگے جا کر چاروں طرف برفانی چوٹیوں میں داخل جاتی ہیں۔
موجودہ ڈھانچہ نسبتاً نیا ہے۔ اس کی بنیاد ایک یادگار کے طور پر لندن میں قائم عالمی زرتشتی تنظیم نے 2016 میں رکھی تھی۔ اس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ ایک سابق آتش کدے کے کھنڈرات پر بنایا گیا ہے جسے مقامی باشندوں نے ہمیشہ ’آتش گاہ‘ کہا ہے۔
آذربائیجان کا سب سے مشہور آتش کدہ سورخانی کی آتش گاہ ہے جو دارالحکومت باکو کے مشرق میں ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج اس کے زائرین کی اکثریت انڈیا سے آتی ہے۔
ساتویں صدی میں اسلام کے پھیلنے کے بعد ایران اور آذربائیجان میں زرتشتی تیزی سے محدود ہونے لگے اور بہت سے لوگوں کو اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر وسطی اور جنوبی ایشیا میں جا کر آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ ممبئی اور قریبی انڈین ریاست گجرات ایک بڑی زرتشتی آبادی کا گھر بن گئے۔
اسلام قبول کرنے سے انکار کرنے کے بعد سلطنت فارس سے فرار ہونے والے ان افراد نے انڈیا میں پناہ لی اور آج یہ دنیا میں زرتشتیوں کا سب سے بڑا گروہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس کے 60,000 پیروکار ہیں جو عالمی زرتشتی برادری کا تقریباً نصف ہیں۔
خنالق کے آتش کدے کی طرح سورخانی کو بھی آذربائیجان میں زرتشت کے زوال کے صدیوں بعد تعمیر کیا گیا تھا اور اسے قدرتی طور پر جلنے والے شعلے کے گرد بنایا گیا تھا۔
جب فرانسیسی ناول نگار الیگزینڈر ڈیوما نے 1858 میں باکو کا دورہ کیا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’پوری دنیا باکو کے آتش گاہ سے واقف ہے۔ میرے ہم وطن جو آتش پرستوں (زرتشتیوں کے درمیان ایک توہین آمیز اصطلاح) کو دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں جلدی کرنا چاہیے کیونکہ وہاں پہلے ہی بہت کم بچے ہیں۔‘
’مندر میں صرف ایک بوڑھا آدمی اور دو دیگر افراد ہیں جن کی عمر 30-35 سال ہے۔‘
سراخانی آتشکدہ آذربائیجان کا سب سے مشہور آتشکدہ ہے اور یہ کسی قلعے کی طرح نظر آتا ہے
اس عمارت کی چار محرابیں ایک قربان گاہ کے لیے کھلتی ہیں اور ان سب کے اوپر گنبد ہے جو کہ 17ویں صدی کا ہے۔ یہ اس وقت تعمیر کیا گیا برصغیر پاک و ہند کے تاجر شاہراہ ریشم کے راستے آذربائیجان پہنچے اور اپنے سفر کے دوران یہاں رکے۔
شریفووا نے کہا کہ ’اس آتش کدے اور اس کے آس پاس کے کاروان سرائے نے مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیرمقدم کیا: ہندوؤں، سکھوں اور زرتشتیوں کے لیے اپنی اپنی عبادت گاہیں تھیں جو آج بھی نظر آتی ہیں۔‘
عظیموف کے مطابق ایرانی سرحد کے ساتھ جنوبی آذربائیجان میں رہنے والی مقامی تالیش آبادی کے آج زرتشتی مذہب سے قریبی تعلقات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آج آذربائیجان کے جنوب میں آگ ایک مقدس علامت کے طور پر خاص طور پر اہمیت کی حامل ہے، جہاں ایرانی بولنے والی تالش آبادی کی اکثریت ہے۔ اس خطے میں، فطرت کے عناصر (آگ، پانی، چاول، پودے) کی دوسری جگہوں سے زیادہ پوجا کی جاتی ہے۔‘
’سوویت دور میں تمام مذاہب کی ممانعت تھی، لہذا ہمیں تالش لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنھوں نے مذہب پر پابندی کے باوجود زرتشتیوں کے نغموں اور ترانوں کو زندہ رکھتے ہوئے چھپ چھپا کر نوروز کا مقدس تہوار مناتے رہے۔‘
1960 کی دہائی کے اواخر میں سورخانی آتش گاہ کے اندر لگی آگ نے جلنا بند کر دیا کیونکہ اس کے جلنے کی سبب میتھین کو کسی اور طرف لے جایا گیا لیکن 1975 میں اس قلعے جیسی جگہ کو ایک عجائب گھر کے طور پر دوبارہ کھول دیا گیا اور باکو سے گیس پائپ لائن کی بدولت اس کی آگ کو ایک بار پھر بھڑکا دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں آذربائیجان نے اپنے زرتشتی ماضی کو یاد کیا ہے
آذربائیجان نے سوویت روس کے زوال کے بعد 1991 میں آزادی حاصل کی اور اس کے بعد سے اس ملک نے اپنی شناخت دوبارہ حاصل کرنے اور اپنی پیچیدہ زرتشتی جڑوں کو تسلیم کرنے کی کوشش کی ہے۔
عظیموف نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اذری لوگ اب بھی سوویت روایات کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور زرتشت کے خلاف اسلام کی تاریخی دشمنی اب بھی مقامی آبادی کی یاد میں زندہ ہے۔ دوسری جگہوں پر قدیم زرتشتیوں کی مقدس آگ نے ایک نیا سیکولر معنی حاصل کیا ہے، جس سے غیر مذہبی طرز زندگی اور آذربائیجان کے رسم و رواج پر اثر پڑا ہے اور اس کا بڑا اظہار نوروز کے دوران دیکھا جاتا ہے۔‘
ہم لوگ ٹخنوں تک گہری برف میں سے گھسیٹ گھسیٹ کر گزرنے کے بعد آخر کار چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ماؤنٹ علیوف کی 3,751 میٹر بلند چوٹی پر پہنچ گئے۔ چند تصاویر لیں اور آذربائیجان کا جھنڈا لہرانے کے بعد موسم بدلنے سے پہلے ہم نے اترنا شروع کر دیا۔
بیس کیمپ پر واپس آئے تو دیکھا کہ تیز بارش اور ہوا کے باوجود آتش گاہ کے اندر آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ جب ہم روانہ ہوئے تو میں نے وہاں کھڑے تنہا مندر اور اس کے ہمیشہ جلتے ہوئے شعلے کو پیچھے مڑ کر دیکھا اور سوچا کہ لوگوں، براعظموں اور عقائد کے سنگم پر موجود یہ سرزمین ہمیشہ کی طرح کثیر الثقافتی ماضی کی ایک کھڑکی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔
Comments are closed.