the hookup game download hookup Colmar hookup Middletown Delaware cancer man and hookups dog screening hookup to laptop hookup sites like craigslist

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’آخری سوویت شہری‘، جن کے خلائی مشن کے دوران اُن کے ملک کا وجود مٹ گیا

سرگئی کریکالف: وہ خلاباز جنھیں خلا میں تنہا چھوڑ دیا گیا

  • کارلوس سیرانو
  • بی بی سی نیوز منڈو

سرگئی نے خلا میں کل 312 دن گزارے اور پانچ ہزار مرتبہ زمین کا چکر لگایا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سرگئی نے خلا میں کل 312 دن گزارے اور پانچ ہزار مرتبہ زمین کا چکر لگایا۔

سوویت یونین کے سپیس سٹیشن ’ایم آئی آر‘ میں موجود خلابار سرگئی کریکالف کے پاس دنیا کو دیکھنے کا بہترین نظارہ تھا۔ مگر وہ اپنے ہی ملک میں لگی سیاسی آگ کو بھڑکتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔

18 مئی 1991 کو پانچ ماہ کے مشن کے لیے سرگئی کریکالف کا خلائی جہاز سايوز ایم آئی آر سٹیشن کے لیے روانہ ہوا جس نے زمین کے گرد چکر لگانا تھا۔

اُن کے ساتھ سوویت یونین کے خلاباز اناتولی ارتسبارسکی اور برطانوی خلاباز ہیلن شرمن نے بھی سفر کیا۔

اس خلائی جہاز نے قزاقستان میں واقع ’بایکونور کازموڈروم‘ اڈے سے اڑان بھری۔ یہ وہی اڈہ تھا جس کی مدد سے سوویت یونین نے خلائی دوڑ کے دوران امریکہ پر سبقت حاصل کی تھی۔ یہیں سے پہلی سیٹلائٹ ’سپوتنک‘ مدار میں داخل ہوئی۔ اور پھر یہاں سے پہلی لائیکا نامی کتیا اور پھر سنہ 1961 میں پہلے انسان یوری گاگارن کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔

ایم آئی آر سٹیشن اُس وقت تک خلا کی دریافت میں سوویت یونین کی طاقت کی علامت بن چکا تھا۔

قزاقستان میں واقع اڈے بایکونور کازموڈروم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سوویت خلائی مشن کے لیے استعمال ہونے والا قزاقستان کا اڈہ

سرگئی کریکالف کا مشن معمول کے مطابق تھا۔ انھیں وہاں جا کر ضروری مرمت کا کام کرنا تھا اور سٹیشن میں جدید آلات نصب کرنا تھے۔ خلا میں یہ کام اچھے سے جاری تھا مگر زمین پر سوویت یونین کے ٹوٹنے کا آغاز ہو چکا تھا۔

جب سوویت یونین جیسا مضبوط ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا عین اسی دورانیے میں سرگئی خلا میں اپنے کام میں مصروف تھے۔

سرگئی، جو ایک آسان مشن پر موجود تھے، کئی مہینوں تک خلا میں پھنسے رہے۔ ان کا مشن توقعات کے برعکس طویل ہوتا چلا گیا جس سے ان کے جسم اور ذہن پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔

وہ دس ماہ سے زیادہ عرصے تک زمین کے گرد گھومتے رہے اور پھر ایسے ملک میں واپس اُترے جو اپنا وجود کھو چکا تھا اور جس کے حصے بخرے ہو چکے تھے۔

خلا میں ان کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے بعد انھیں تاریخ میں ’آخری سوویت شہری‘ کا لقب دیا گیا۔

غیر معمولی شہرت

سرگئی کریکالف سنہ 1958 میں لینن گراڈ میں پیدا ہوئے جس کا نام اب سینٹ پیٹرزبرگ ہے۔

انھوں نے سنہ 1981 میں لینن گراڈ مکینیکل انسٹیٹیوٹ سے مکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور چار سال کی ٹریننگ کے بعد وہ ایک خلا باز بن گئے۔

ایم آئی آر سپیس سٹیشن سوویت خلائی پروگرام کی اہم کامیابی تھا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایم آئی آر سپیس سٹیشن سوویت خلائی پروگرام کی اہم کامیابی تھا

سنہ 1988 میں وہ اپنے پہلے مشن پر ایم آئی آر روانہ ہوئے۔ زمین کی سطح سے 400 کلومیٹر دور واقع یہ سٹیشن زمین کے گرد چکر لگاتا تھا۔

سرگئی کریکالف اب روسی خلائی ادارے روسکازموس میں مینڈ مشنز کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔

سنہ 1991 کے دوران وہ اپنے دوسرے مشن پر ایم آئی آر سٹیشن گئے تھے۔

کیتھلین لیوس امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم میں سوویت یونین اور روسی خلائی پروگرامز کی ماہر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’سرگئی کریکالف کو پاپ کلچر میں ایک خاص مقام حاصل ہوا تھا کیونکہ وہ پہلے خلابازوں میں سے تھے جنھوں نے سپیس سٹیشن کا ریڈیو استعمال کر کے زمین پر عام لوگوں سے بات کی تھی۔‘

لیوس بتاتی ہیں کہ ایم آئی آر سٹیشن میں اپنے طویل مشن کے دوران سرگئی اکثر ریڈیو استعمال کر کے عام لوگوں سے باتیں کیا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے زمین پر ان کی ریڈیو فریکوینسی تلاش کر لی تھی۔

لیوس کے مطابق سرگئی نے اپنی اس گفتگو سے دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ ایک غیر رسمی تعلق قائم کر لیا تھا۔

سرگئی اس سپیس سٹیشن پر تنہا نہیں تھے مگر شاید وہ سب سے زیادہ مقبول ضرور تھے۔ لیوس کا کہنا ہے کہ ’وہ سٹیشن پر اکیلے نہیں تھے۔ لیکن وہ ہر وقت ریڈیو پر لوگوں سے بات کر رہے ہوتے تھے۔‘

سرگئی اس سپیس سٹیشن پر تنہا نہیں تھے مگر شاید وہ سب سے زیادہ مقبول ضرور تھے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سرگئی اس سپیس سٹیشن پر تنہا نہیں تھے مگر شاید وہ سب سے زیادہ مقبول ضرور تھے

ان کا کہنا ہے کہ سووویت یونین کے بکھرنے کے دوران سرگئی کریکالف کے ساتھ خلاباز الکسینڈر ولکوو بھی ایم آئی آر سٹیشن پر تھے مگر اس کے باوجود سرگئی کو ہی ’آخری سوویت شہری‘ کا اعزاز حاصل ہے۔

لیوس کے مطابق ’وہ سٹیشن پر واحد شخص نہیں تھے۔ لیکن وہ یقیناً ایک معروف شخصیت بن چکے تھے۔‘

سوویت یونین کا خاتمہ

سنہ 1990 سے 1991 کے درمیان سوویت یونین کی تمام ریاستیں آزادی کا اعلان کر چکی تھیں۔

اس وقت صدر میخائل گورباچوف نے اپنی سیاسی تحریک ’پیریستروئیکا‘ کے دوران ملک کو جدت کی طرف لے جانے اور سرمایہ دارانہ نظام کے قریب لانے کی کوشش کی۔ انھوں نے کئی کمپنیوں کی معاشی قوت تقسیم کیا اور نجی کاروبار قائم کرنے کی راہ ہموار کر دی۔

کمیونسٹ پارٹی نے اس طریقہ کار کے خلاف مزاحمت دکھائی۔

سنہ 1997 میں ایم آئی آر سٹیشن کی ایک تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1997 میں ایم آئی آر سٹیشن کی ایک تصویر

19 سے 21 اگست 1991 کے درمیان کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر گروہ نے گورباچوف کی حکومت گرانے کی کوشش کی۔ وہ ناکام ہوئے مگر اس سے سوویت یونین کو نقصان پہنچا۔

’سب ٹھیک ہے‘

گورباچوف نے ملک پر اپنا کنٹرول کھو دیا اور اس سب کے دوران سرگئی خلا میں تیرتے رہے۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے پر سیاسی اور معاشی بحران کی ایک غیر یقینی صورتحال نے جنم لیا۔ سرگئی کو زمین سے بتایا گیا کہ وہ تاحکم ثانی خلا میں موجود رہیں۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم ’دی لاسٹ سوویت سٹیزن‘ میں سرگئی یاد کرتے ہیں کہ ’ہمارے لیے یہ توقعات کے برعکس تھا۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

’انھوں نے ہمیں بہت کم معلومات دی تھیں اور ہم نے مکمل بات پتہ لگانے کی کوشش کی۔‘

یہ بھی پڑھیے

گورباچوف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سوویت یونین کے آخری سربراہ گورباچوف

لیوس کے مطابق سرگئی کو مغرب میں موجود لوگوں کی مدد سے حقیقت کا علم ہوا۔ تب تک وہ سوویت یونین کے بیانیے پر ہی یقین کر رہے تھے جس میں انھیں بتایا جا رہا تھا کہ ’سب ٹھیک ہے۔‘

لیوس کے مطابق ’اس لمحے انھیں معلوم ہوا کہ سب کھو چکا ہے۔‘

سرگئی کی اہلیہ ایلینا سوویت خلائی پروگرام میں بطور ریڈیو آپریٹر کام کرتی تھیں۔ انھوں نے بھی سرگئی سے رابطہ کیا تھا مگر اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دیں تھیں کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں وہ بتاتی ہیں کہ ’میں غیر معقول چیزوں کے بارے میں انھیں نہیں بتانا چاہتی تھی۔ اور مجھے لگتا ہے وہ بھی یہی چاہتے تھے۔‘

’وہ مجھے ہمیشہ یہی بتاتے تھے کہ سب ٹھیک ہے۔ تو یہ پتا لگانا بہت مشکل تھا کہ انھیں اصل میں کیا محسوس ہو رہا ہے۔‘

مشن کی تکمیل

سرگئی نے خلا میں اپنے مشن کا دورانیہ بڑھانے کے حکم کو تسلیم کیا مگر وہ یہ مانتے ہیں کہ یہ آسان نہیں تھا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کیا مجھ میں اس کی ہمت ہو گی، کیا میں طویل عرصے تک خلا میں رُک سکتا ہوں؟ مجھے اس پر شک تھا۔‘

سوویت یونین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1991 میں کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر گروہ نے گورباچوف کی حکومت گرانے کی کوشش کی۔ وہ ناکام ہوئے مگر اس سے سوویت یونین کو نقصان پہنچا

سرگئی اور الکسینڈر کسی بھی وقت لوٹ سکتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ سپیس سٹیشن چھوڑ کر واپس آ گئے ہیں۔

لیوس کے مطابق ’یہ بیوروکریسی کے لیے ایک مسئلہ تھا۔ وہ سٹیشن کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ان کا متبادل بھیجا جا سکے۔‘

اسی دوران روسی حکومت نے قزاقستان سے وعدہ کیا کہ وہ سرگئی کے متبادل کے طور پر ان کے شہری کو خلا باز بنا کر بھیجیں گے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بھی کم ہو سکتی تھی۔

تاہم قزاقستان کے پاس سرگئی جیسا قابل خلاباز نہیں تھا اور اس نوعیت کی ٹریننگ میں وقت لگ سکتا تھا۔

دریں اثنا سرگئی اب بھی خلا میں موجود تھے اور اس سے ان پر جسمانی اور ذہنی اثرات مرتب ہو رہے تھے جن کے بارے میں آج بھی مکمل معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق خلا میں رہنے سے تابکاری کے خطرات ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ شخص کو کینسر یا تابکاری سے متعلق دیگر امراض کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کشش ثقل نہ ہونے سے پٹھوں یا ہڈیوں سے متعلق مسائل بھی پیدا ہو سکتے تھے۔ خلا میں طویل عرصے تک رہنے سے قوت مدافعت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کے علاوہ تنہائی سے نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ رویے میں تبدیلی۔

مگر سرگئی کو یہ معلوم تھا کہ مشن پر قائم رہنا ان کا اصل کام تھا۔

کوئی متبادل نہ مل سکا

اکتوبر میں سٹیشن پر تین نئے خلا باز پہنچے۔ مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی سرگئی جتنا تجربہ نہیں تھا۔ لیوس کے مطابق سوویت یونین کے باہر لوگوں کو سرگئی کی زیادہ فکر تھی جو یہ سوچ رہے تھے کہ ’ایک شخص کو خلا میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔‘

تاہم روسی حکومت کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔

سرگئی کریکالف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سرگئی کریکالف

25 اکتوبر 1991 کو قزاقستان نے خود مختار ریاست کا اعلان کیا جس کا مطلب تھا کہ اب وہ خلائی اڈہ جہاں سے سرگئی نے اڑان بھری تھی اب روس کے زیر انتظام نہیں رہا۔

25 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔ اس روز گورباچوف نے اپنی صحت کی بنا پر استعفی پیش کیا اور اس طرح زبوں حالی سے متاثر ایک سلطنت اختتام پذیر ہوئی۔

سوویت یونین 15 ملکوں میں بٹ گیا اور جس ملک نے سرگئی کو خلا میں بھیجا تھا اس کا وجود اب ختم ہو چکا تھا۔ ان کے اپنے شہر لینن گراڈ کا نیا نام اب سینٹ پیٹرزبرگ تھا۔

سرگئی کی واپسی

سپیس سٹیشن پر سرگئی نے اپنا وقت زمین کی یاد میں گزار دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ موسیقی سنتے تھے اور ریڈیو پر زمین پر موجود اپنے مداحوں سے باتیں کیا کرتے تھے۔

سرگئی کریکالف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پورے تین ماہ بعد 25 مارچ 1991 کو سرگئی اور الکسنڈر زمین پر واپس آئے۔ سرگئی نے خلا میں کل 312 دن گزارے اور پانچ ہزار مرتبہ زمین کا چکر لگایا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’واپس آنا بہت خوشگوار تھا۔ ہمیں دوبارہ گریویٹی کو اپنا معمول بنانا تھا مگر اب ہم اس نفسیاتی قید سے آزاد ہو چکے تھے۔‘

’میں اسے خوشی کا لمحہ نہیں کہوں گا مگر یہ بہت اچھا تھا۔‘ مشکل وقت گزارنے کے باوجود سرگئی اپنے نئے مشن کے لیے تیار تھے۔

سنہ 2000 میں وہ اس پہلے عملے کا حصہ تھے جس نے انٹرنیشنل سپیس سٹیشن تک کا سفر کیا۔ یہ خلائی دریافت کے نئے دور کی علامت تھا۔ اس نے پرانے جھگڑے بھلا کر متعدد ممالک کو یہ موقع دیا کہ مل کر کام کر سکیں۔ اسی شراکت نے کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.